Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماہ صفر میں نحوست کا جاہلانہ تصور

مولانا عابد ندوی۔جدہ
ماہ صفر کو آج بھی جاہل عوام منحوس تصور کرتی ہے، اس مہینے میں بعض لوگ شادی بیاہ یا کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہیں کرتے ۔ اس سے برا شگون لیتے ہیں جبکہ شرعاً اس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ کسی سے اچھا گمان کرنے اور نیک فال لینے کی تو گنجائش ہے لیکن براشگون لینا اسلام میں جائز نہیں۔ یہ شرک کا دروازہ ہے۔ احادیث میں بدفالی و بدشگونی کو شرک کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے اسلام سے قبل بھی بدفالی و بدشگونی اور نحوست کا تصور پایا جاتا تھا۔ قوم فرعون کے بارے میں قرآن پاک میں یہ صراحت ہے کہ  :
’’ جب ان پر خوشحالی آجاتی تو کہتے کہ  یہ تو ہمارے لئے ہونا ہی چاہئے اور اگر ان کو کوئی بدحالی پیش آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔ یاد رکھو کہ  ان کی نحوست اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘ (الاعراف 131)
  حضرت صالح علیہ السلام کی قوم، ثمود کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ وہ کہنے لگے ہم تو تیری اور تیرے ساتھیوں کی بدشگونی لے رہے ہیں، آپ نے فرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے ہاں ہے، بلکہ تم فتنہ میںپڑے ہوئے لوگ ہو‘‘ (النمل۔ 47 )
اسی طرح ایک اور قوم کے بارے میں بھی مذکور ہوا کہ انہوں نے رسولوں سے کہا کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں(یس 18 )  گویا ہر دور میں اہل کفر و شرک کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ بدحالی، قحط  سالی اور آفات  و مصائب کو اللہ کے نبیوں اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی (نعوذ باللہ) نحوست قرار دیتے رہے  ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات اور عقیدہ توحید سے اس کا کوئی جوڑ نہیں۔ قرآن پاک میں کئی جگہ اس حقیقت کو واضح کیاگیا کہ لوگوں کو جوبھی مصیبت  یا آفت پہنچتی ہے ،وہ ان کے کفر و شرک اور بداعمالیوں کے سبب ہی ہوتی ہے تاکہ وہ اس سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع ہوکر اس سے معافی مانگیں (ملاحظہ ہو الروم 41 / الشوریٰ 30 )
عربوں میں بھی بدفالی و بدشگونی عام تھی ،وہ بھی ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔ اسلام نے اس تصور کو باطل قرار دیا اور رسول اللہ  نے سختی سے اس کی تردید  فرمائی۔ حضرت ابو ہریرہؓ، رسول اللہ   کا یہ ارشاد گرامی نقل کرتے  ہیں کہ آپنے فرمایا:
’’چھوت چھات کوئی چیز نہیں، بدشگونی کوئی چیز نہیں ، ہامہ  (الو سے بدشگونی لینا)  اور صفر (ماہ صفر کو منحوس سمجھنا) کوئی چیز نہیں‘‘ (متفق علیہ)
اس طرح ایک  موقع پر رسول اللہنے ایک عمدہ مثال کے ذریعے چھوت چھات کی تردید فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :
’’ کوئی چیز متعدی نہیں‘‘
ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ !()جب کسی اونٹ کو خارش لگتی ہے تو وہ سب اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا (اگر ایسا ہے تو ) پھر پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا؟ کوئی بیماری متعدی نہیں(اور وہ کسی کو اس وقت تک نہیں لگتی جب تک کہ اللہ نہ چاہے) پرندوں سے فال لینے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کی نحوست  کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کو پیدا کیا اور اسکی زندگی، اس کے مصائب اور اس کی روزی لکھدی‘‘(ترمذی/ ابوداؤد)
ان احادیث میں رسول اللہ نے زمانۂ  جاہلیت میں پائے جانے والے بعض غلط عقائد اور خیالات کی تردید کی ہے کہ یہ صحیح نہیں۔
ان احادیث میں رسول اللہ نے زمانۂ جاہلیت میں پائے جانے والے بعض غلط عقائد اور خیالات کی تردید کی ہے کہ یہ صحیح  نہیں اور اسلامی عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ ان میں ایک یہ ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی اور مؤثر نہیں کہ وہ کسی پر اثرانداز ہوسکے۔ جو بھی ہوتا ہے اللہ کے فیصلے  اور تقدیر کے مطابق اسکی مشیت سے ہوتا ہے۔ یہاں کسی کو یہ سوال اور شبہ ہوسکتا ہے کہ میڈیکل سائنس یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں اور وہ بیمار شخص سے اختلاط کی صورت میں دوسرے تندرست آدمی کو بھی لگ جاتی ہیں نیز تجربہ اور مشاہدہ سے بھی یہ بات درست  معلوم ہوتی ہے کہ خود احادیث میں بھی بعض بیماریوں میں مبتلا افراد سے دور رہنے کی تلقین  کی گئی ہے مثلاً طاعون  زدہ شہر میں داخل ہونے  اور جذامی شخص کے قریب ہونے سے روکا گیا ہے۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا " جذامی سے ا یسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو" ۔ اگر  یہ بیماریاں تندرست افراد کو نہ لگتی ہوں تو ایسے بیماروں سے دور رہنے کی تاکید اور تلقین کیوں؟ اس سلسلے میں  اہل علم نے یہ وضاحت  فرمائی کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی اور موثر نہیں، اصل چیز اللہ کا فیصلہ  اور اسکی مشیت ہی ہے۔ ہاں کبھی یہ چیز یعنی بیمار سے  اختلاط اور اس کا قرب سبب بن سکتا ہے اور اسباب کا پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے نہ  کہ کوئی اور۔ بندوں کو اس بات کا حکم دیا گیا اور وہ اس کے مامور ہیں کہ برائی، ہلاکت اور بیماری کے اسباب سے دور رہیں۔ اس طرح ایسے بیماروں سے اختلاط اور منع کی ایک  حکمت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص طاعون  زدہ شہر میں داخل ہو یا جذامی کے قریب جائے پھر اللہ کی مشیت اور اس کے فیصلے سے وہ بیمار ہوجائے یا ہلاک ہوجائے تو اس شخص کے یا دوسرے کسی کے عقیدہ  میں فتور آسکتا ہے کہ اگر یہ شخص فلاں شہر نہ جاتا یا فلاں بیمار کے قریب نہ  جاتا تو  بیمار ہوتا نہ ہلاک ۔ ظاہر ہے یہ تصور اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے جو نہ ایک لمحہ پہلے آسکتی ہے  نہ ایک لمحہ بعد۔ اسی طرح بیماری اور مصیبت کا دینے والا بھی اللہ ہی ہے۔ جب تک اللہ کا فیصلہ نہ ہو کوئی شخص بیماری اور مصیبت میں گرفتار نہیں ہوسکتا۔ ہاں اس بیماری یا مصیبت میں خود انسان کے اپنے اعمال، گناہ اور دوسری بہت ساری چیزیں سبب بن سکتی ہیں۔ انسان چونکہ کمزور واقع ہوا ہے اسلئے ایسے اسباب کو اختیار کرنے سے خصوصیت کے ساتھ روکا گیا جو اس کے عقیدہ کے  بگاڑ کا بھی سبب بنیں۔ چنانچہ جن کا ایمان اور قضا ء و قدر پر یقین پختہ ہو۔ اللہ پر توکل اور بھروسہ کا مل ہو تو ایسے صاحب ایمان و یقین بندے کو کبھی متعدی امراض والے بیماریوں کے ساتھ رہتے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے بھی ہیں۔ خود نبی کریم کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپنے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھایا، اپنے برتن میں اس کا ہاتھ داخل کرکے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر اور اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ(ترمذی / ابوداؤد) اسی طرح بعض صحابہ کرام ؓ کے بارے میں  بھی ایسا منقول ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب پرندوں  سے فال لیتے تھے۔ الوکو منحوس تصور کرتے تھے۔ آج بھی لوگوں میں طرح طرح سے برا شگون لینے کا رواج  ہے مثلاً کسی کام کیلئے گھر سے باہر نکلتے وقت سامنے سے بلی گزر جائے یا چھینک آجائے تو وہمی شخص اس سے براشگون لیتے ہوئے وہ کام نہیں کرے گا۔  یا بعض لوگ کوے کو دیکھ کر برا شگون لیتے ہیں۔ ان سب کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں۔ براشگون لیتے ہوئے کسی کام سے رک جانے کو  " شرک" کہا گیا۔ اگر کبھی ایسا خیال آئے بھی  تو یہ تعلیم دی گئی کہ آدمی بدشگونی کے سبب کام سے  نہ رکے بلکہ اللہ  پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے وہ کام کر گزرے نیز ایسے موقع پر جب کوئی شخص ناپسندیدہ چیز دیکھے یا بدفالی  و بدشگونی کا خیال آئے تو ایک بہترین  دعا کی تلقین بھی کی گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرما یا:
 بدشگونی کے سبب جو کوئی کسی کام سے رک گیا اس نے شرک کیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا  اس کا کفارہ کیا ہے؟  آپؐ نے فرمایا (ایسے  موقع پر) یہ کہنا چاہیئے (ترجمہ)  " اے اللہ! تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں، کوئی شگون نہیں مگر تیرے سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں" (مسند احمد/ ابو داؤد)  ایک دوسری روایت میں یہ دعا پڑھنے کا بھی ذکر ہے ۔ (ترجمہ)" اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلائی عطا نہیں کرتا اور نہ کوئی برائی کو تیرے سوا دور کرسکتا ہے۔ حصول نفع کی کوئی طاقت اور ضرر  کو دفع کرنے کی کوئی قوت تیرے سوا کسی میں  نہیں"۔
ماہ صفر اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ سال کے بارہ مہینوں  میں  بعض کو بعض پر فضلیت  و برتری تو حاصل ہے لیکن کوئی مہینہ اور وقت منحوس نہیں۔ یہ تصور اسلامی  تعلیمات کے بالکل خلاف ہے۔ وقت اور زمانہ تو اعمال بنی آدم کا ذریعہ ہے۔ اس میں انسان نیکی بھی کرتا ہے اور برائی بھی۔ پس جس وقت  کو بندۂ مومن اللہ  کی اطاعت  میں گزار دے وہ اس کے حق  میں مبارک زمانہ ہے اور جس زمانہ میں گناہ  کا ارتکاب  اور اللہ تعالیٰ کی  نافرمانی کرے، وہی زمانہ اور وقت اس شخص کے حق میں منحوس ہے۔ گویا حقیقت میں نحوست  کی چیز اللہ میںمعصیت و نافرمانی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے منقول ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو زبان میں ہوتی اور فرمایا کہ زبان سے زیادہ کوئی شے طویل عرصہ تک قیدو بند کی محتاج نہیں(کیونکہ بے شمار گناہوں کا تعلق اسی زبان سے ہے) ماہ صفر کی بعض تاریخوں میں خاص خاص رسمیں بھی جاہل عوام میں رائج ہیں وہ تمام رسمیں غیر شرعی اور بدعات ہیں۔ ان سے اجتناب ضروری ہے۔  یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیئے کہ ماہ صفر یا کوئی بھی مہینہ اور وقت منحوس نہیں اسی طرح کسی بھی چیز سے براشگون لینا شرعاً درست نہیں بلکہ شرک کی طرف لے جانے والا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدہ و عمل کی اصلاح فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے والا بنائے۔ آمین
 
 

شیئر: