جو عمل دکھانے کیلئے اور لوگوں کی تعریف کیلئے یا دنیاوی غرض و غایت کیلئے کیا جائے وہ تو یقیناَ مردودہے
* * * * * مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ* * * *
کسی نیکی اور عمل خیر سے دنیا طلبی کی مذمت صراحت کے ساتھ احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول ﷲ !ایک شخص ﷲ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہتا ہے اور وہ دنیا کا کوئی فائدہ بھی چاہتا ہے (اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ )۔ رسول ﷲ نے ارشاد فرمایا: اس کے لئے کوئی اجر و ثواب نہیں۔ لوگوں پر یہ بات گراں گزری ، انھوں نے اس شخص سے کہا کہ تم دوبارہ دریافت کرو شاید کہ تم اپنا سوال صحیح نہ سمجھاپائے ہو چنانچہ اس شخص نے دوسری بار پھر تیسری بار بھی اپنا سوال دہرایا ، رسول ﷲنے ہر مرتبہ یہی ارشاد فرمایا: اس کے لئے کوئی اجر نہیں۔اسی طرح ایک اور حدیث حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲنے ارشاد فرمایا :"جس نے جہاد کیا اور اس نے نہیں ارادہ کیا مگر عقال کا ( اونٹ کو باندھنے کی رسی یعنی مال غنیمت کا حصول ہی اس کا مقصد ہے ) تواس کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ۔" یعنی وہ اجر و ثواب سے محروم رہے گا ، نیت کے مطابق ہی پھل پائے گا ، آخرت کا فائدہ یا اجر و ثواب کا حصول اس کے پیش نظر ہے ہی نہیں تو پھر کیونکر وہ اجر کا مستحق ہوگا ؟ اسی طرح ایک حدیث میں دنیا طلبی کے لئے علم کے حصول کی مذمت یوں بیان ہوئی ۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲنے ارشاد فرمایا : "جو شخص ایسا علم حاصل کرے جس سے ﷲ عزوجل کی رضا چاہی جاتی ہے ( یعنی دین کا علم ) اور وہ صرف اس غرض سے حاصل کرے کہ اس کو اس کے ذریعہ دنیا کا کوئی فائدہ حاصل ہوجائے تواسے قیامت کے روز جنت کی خوشبو بھی نہ پہنچے گی ۔"(ابوادؤد)۔ ریا کاروں کا انجام: عمل صالح اگر اخلاص کے ساتھ اور ﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ ہو بلکہ ریا کاری اس میں شامل ہوجائے یا دنیاوی غرض و غایت اور نام و نمود کے لئے کوئی نیک کام کیا جائے تو ایسا نہیں کہ صرف اس نیکی کے اجر و ثواب سے محرومی ہوگی اور خاص طورپر روز آخرت بندہ کو اس کا فائدہ نہ پہنچ سکے گا بلکہ یہ خصلت اور ریا کاری ﷲ کو اتنی ناپسند ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے سخت ترین عذاب کی وعید بھی منقول ہے۔
اس سلسلے میں ایک حدیث حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے جو لرزا دینے والی ہے اور اس حدیث کو بیان کرتے وقت بسااوقات شدت تاثر سے حضرت ابوہریرہ ؓ پر کئی کئی باربے ہوشی طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت معاویہ ؓ کو یہ حدیث پہنچی تو اس قدر روئے کہ بے ہوش ہوگئے ، حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ : "روز قیامت جس شخص کے خلاف سب سے پہلے جہنم کا فیصلہ ہوگا وہ ایک شہید ہوگا ، اسے پروردگار کے سامنے حاضر کیا جائے گا ، ﷲ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائیگا وہ ان کا اقرار کرے گا ، پھر ﷲ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم نے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ پروردگار ! میں نے تیرے راستہ میں جہاد کیا ، یہاں تک کہ شہید ہوگیا ، اس طرح اپنی عزیز جان بھی تیرے لئے قربان کردی ۔ ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے ، تُونے تو جہاد اس لئے کیا تھا کہ تیری بہادری کے چرچے ہوں ، سو یہ دنیا میں ہوچکے ۔ پھر اس کے بار ے میں حکم ہوگا اور اسے اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
اسی کے ساتھ ایک دوسرے شخص کو لایا جائے گا جس نے دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھایا ہوگا اور قرآن بھی خوب پڑھا ہوگا ، ﷲ تعالیٰ اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ، سوال ہوگا کہ تُونے ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ پروردگار ! میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور تیری رضا و خوشنودی کے لئے قرآن بھی پڑھا (الغرض زندگی بھر قرآن کی تعلیم اور دین کی نشر و اشاعت میں لگارہا ) ،ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے ۔تیرا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قاری کہیں یہ تو دنیا میں ہوچکا ۔ پھر اس کے بارے میں بھی عدالت ِ الٰہی سے یہ فیصلہ صادر ہوگا کہ اسے بھی اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے اسی طرح ایک اور شخص حاضر کیا جائے گا جسے ﷲ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال اور خوب دولت سے نوازا ہوگا ، وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا ، ﷲ پوچھے گا کہ تُونے ان سے کیا کام لیا اور ان کا کیا حق ادا کیا ؟ وہ کہے گا کہ پروردگار ! جس راستہ اور جس کام میں مال خرچ کرنا تجھے پسند ہے میں نے وہاں تیرا دیا ہوا مال خوب خرچ کیا تاکہ تو راضی ہوجائے ۔ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ تُو جھوٹ کہتا ہے ، تُونے تو مال اس لئے خرچ کیا تھا کہ تجھ کو سخی کہیں ، دنیا میں یہ صلہ تجھے مل چکا ، پھر اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہوگا اور اسے اندوھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"(مسلم )۔ بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ان ریا کاروں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔اسی طرح حضرت جندب ؓ ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں، رسول ﷲنے ارشاد فرمایا : "جو شخص ( کوئی عمل ) سنائے اور شہرت دینے کے لئے کرے تو ﷲ اس کو شہرت دے گا اور جو کوئی کام دکھانے کے لئے کرے ، ﷲاس کو خوب دکھادے گا ۔"(بخاری)۔
اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ دنیا میں بھی یا آخرت میں جہنم میں داخل کئے جانے سے پہلے سرِ محشر ایسے لوگوں کو ان کی بدباطنی ظاہر فرماکر رسوا کرے گا کہ یہ لوگ اپنے عمل میں مخلص نہ تھے بلکہ شہرت و نمود اور ریا کاری سے نیک کام کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث اس طرح مروی ہے کہ رسول ﷲنے ’’ جب الحزن‘‘ ( غم کے کنویں ) سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول ﷲ !’’ جب الحزن ‘‘ کیا ہے ؟ آپنے ارشاد فرمایا : یہ ایک جہنم کی وادی ہے جس سے خود جہنم روزانہ 100بار( اور بعض روایات کے مطابق400بار ) پناہ مانگتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا کہ اس میں کون لوگ داخل ہوں گے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: وہ قراء (یعنی قرآن کے پڑھنے پڑھانے والے ) جو اپنے اعمال میں ریا کاری کرتے تھے یعنی ریا کاری کے لئے شہرت و نمود کے جذبہ سے نیک کام کرتے تھے (ترمذی)۔ ان احادیث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسلام میں ریاکاری کا کیا مقام ہے ؟ اور یہ خصلت کس درجہ ﷲ تعالیٰ کو ناپسند نیز ریا کاروں کے لئے اس کا انجام کس قدر بھیانک ہے ؟ ﷲ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے ۔ آمین۔ جو عمل صرف دوسروں کو دکھانے کے لئے اور لوگوں کی تعریف یا ان کی خوشنودی پانے کے لئے یا صرف اور صرف دنیاوی غرض و غایت کے لئے کیا جائے وہ تو یقینا مردود اور ﷲ تعالیٰ کے ہاں نامقبول ہے ہی لیکن اوپر ذکر کردہ روایات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ( جیساکہ بعض روایات میں صراحت بھی ہے ) کہ جو عمل ﷲ کے لئے کیا جائے لیکن اس میں ریا شامل ہوجائے تو ایسا عمل بھی ﷲ کے ہاں مقبول نہیں۔ ﷲ تعالیٰ شراکت سے بے نیاز اور بیزار ہے، وہ ایسے عمل کو شریک کے لئے چھوڑ دیتا ہے ۔ ایک مرسل روایت میں یہ صریح الفاظ ہیں کہ ’’ جس عمل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ریا شامل ہوجائے تو ﷲ اس عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ ‘‘(جامع العلوم والحکم)۔
چنانچہ سلف صالحین کی ایک جماعت سے یہی رائے منقول ہے کہ جس عمل میں کچھ بھی ریا شامل ہوجائے تو وہ عمل ( اجر و ثواب کے لحاظ سے ) باطل ہوجاتا ہے اور عمل خیر انجام دینے والا ( ریا کاری کے سبب ) اجر و ثواب سے بالکل ہی محروم ہوجاتا ہے تاہم بعض اہل علم یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ اخلاص کا پہلو غالب اور ریا کا پہلو نہایت کمزور ہو یا عمل کی اصل بنیاد تو اخلاص وللہیت ہی ہو لیکن بعد میں کچھ ریا کاری کا عنصر شامل ہوجائے تو اُمید ہے کہ اسکی نیکی اور عمل بالکلیہ باطل نہ ہو بلکہ اسکی اصل نیت کے مطابق یا اخلاص و للہیت کے بقدر اُسے بدلہ اورثواب دیا جائے ۔یہ رائے امام احمد بن حنبلؒ ، ابن جریر طبریؒ اور حسن بصریؒ وغیرہ سے منقول ہے(جامع العلوم والحکم)۔ اسی طرح کوئی عمل خالص دنیا طلبی یا دنیاوی غرض و غایت کے لئے ہوتو اس سے بھی اجر وثواب میں کمی نہیں بلکہ بالکل محرومی ہوگی ، ہاں اخلاص و للہیت کے ساتھ یا اجر و ثواب کے حصول اور آخرت کا فائدہ پانے کی نیت کے ساتھ دنیاوی فائدہ بھی پیش نظر رہے تو اس سے نیکی بالکل ضائع اور عمل خیر بالکلیہ باطل نہ ہوگا بلکہ اجر و ثواب میں کمی ہوگی اور نیت کے بقدر اس شخص کو اجر ملے گا۔جن احادیث میں شدید وعید اور اجر و ثواب سے بالکلیہ محرومی بیان کی گئی ہے ، اس سے اہل علم نے وہ صورتیں مراد لیں ہیں ، جن میں اخلاص و للہیت کا عنصر بالکل ناپید ہو اور عمل خیر سے صرف دنیا طلبی اور دنیا کا فائدہ ہی پیش نظر ہو ۔قرآن پاک میں دورانِ حج ، تجارت اور خرید و فروخت کے ذریعہ دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت منقول ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : "تم پر اپنے رب کا فضل ( روزی ) تلاش کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔"(البقرہ198)۔ حج ہو ، جہاد ہو یا کوئی نیکی اور دینی کام وغیرہ یہ سب جس قدر خلوص و للہیت کے ساتھ انجام دیئے جائیں ، اسی قدر عند ﷲ مقبولیت ، قدر و منزلت اور اجر و ثواب میں اضافہ کا باعث ہوں گے ۔ضمناً ان کاموں سے دنیاوی فائدہ بھی حاصل ہوجائے یا وہ پیش نظر بھی ہو تو یہ فی نفسہٖ اخلاص کے منافی نہیں ، ہاں کسی نیکی اور نیک کام کا اصل محرک ہی دنیاوی فائدہ ہو تو یہ چیز اجر وثواب سے بالکلیہ محرومی یا کمی کا باعث ہوگی ۔ ﷲ تعالیٰ دلوں کے حال اور نیتوں سے بخوبی واقف ہے ، ساتھ ہی وہ احکم الحاکمین ہے ، روزقیامت کسی نفس پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا ، ہرایک کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ ریاکے خوف سے عمل ترک کرنا: اعمال کا دار و مدار جب نیتوں پر ہے ، نیت اچھی ہو اور عمل خیر میں آدمی مخلص ہو تب ہی وہ ﷲ کے ہاں قابل قبول ہے ۔ اسی طرح ریا کاری کی اتنی شدید مذمت اور وعید ہے کہ یہ جس عمل میں شامل ہوجائے وہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک نہ صرف غیر مقبول بلکہ ایسا شخص عذاب کا مستحق ہے تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آدمی کو کس درجہ عمل سے پہلے اخلاص اور نیت کی درستگی کا اہتمام اور جذبۂ نمود و ریاسے بچنے کی فکر کرنی چاہئے ۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آدمی ریا کے خوف سے عمل خیر ہی ترک کردے بلکہ نیک کام حسب استطاعت ضرور انجام دے البتہ اخلاص کے حصول اور ریا سے بچنے کی حتی الامکان فکر ضرور کرے ۔ اس معاملے میں ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اسی سے مدد و توفیق طلب کرتا رہے ۔ عمل کی توفیق بارگاہ الٰہی میں مقبولیت اورقبولیت میں رکاوٹ بننے والے اسباب سے حفاظت یہ سب ﷲ کی مدد و توفیق کے بغیر ممکن نہیں ۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کعبۃ ﷲ کی دیواریں اُٹھاتے ہوئے یہ دُعا کرتے رہتے ہیں کہ : "اے ہمارے رب ! تُوہم سے ( اس عمل کو ) قبول فرما ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے ۔"(البقرہ127)۔ اسی طرح نفاق ، ریا کاری ، جھوٹ اور بدنگاہی جیسی مذموم صفات سے حفاظت اورپاکیزگی کے لئے رسول ﷲ سے ایک جامع دُعایوں منقول ہے : "اے ﷲ ! میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کو ریاء سے اورمیری زبان کو جھوٹ سے اورمیری آنکھ کو خیانت (بدنگاہی اورچوری چھپے دیکھنے ) سے پاک فرمادے ، بے شک تُو نگاہوں کی خیانت اور سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے ۔"ریا جیسے پوشیدہ شرک سے حفاظت کے سلسلے میں ایک اور اہم دُعا رسول ﷲنے تلقین فرمائی ۔حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲنے ایک دن ہم سے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے لوگو ! اس شرک ( ریا کاری ) سے بچو کیونکہ یہ چیونٹی سے بھی زیادہ خفیف حرکت والا ہے ( یعنی غیر محسوس طورپر عمل میں داخل ہوجاتا ہے )۔
کسی نے دریافت کیا کہ یا رسول ﷲ !یہ اتنا پوشیدہ اور خفیف ہوتو ہم اس سے کیوںکر بچ سکتے ہیں ، آپنے ارشاد فرمایا یوں کہو : "اے ﷲ ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں ، اس بات سے کہ ہم جانتے بوجھتے تیرے ساتھ کچھ بھی شرک کریں اور جو ہم نہیں جانتے اس کے لئے ہم تجھ سے مغفرت کے طلب گار ہیں ۔" سفیان بن عینیہؒ کہتے ہیں کہ مطرف بن عبد ﷲؒ یوں دُعاء کیا کرتے تھے :"اے ﷲ ! میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اس سے کہ میں نے تجھ سے ( کسی گناہ پر ) توبہ کی ہو ، پھر دوبارہ اسی کو ( وہی گناہ ) کیا ہو ، تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اس سے کہ میں نے کوئی کام تیری رضا کیلئے اپنے اوپر لازم کرلیا ہو، پھر میں نے اس ( نذر اور عہد ) کو پورا نہ کیا ہو ،میںتجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اس سے کہ میں نے اپنے گمان کے مطابق کسی کام سے تیری رضا چاہی ، پھر میرے دل میں وہ کچھ ( ریا اور غرض فاسد وغیرہ ) شامل ہوگیا جس کو یقینا تو جانتا ہے ۔" کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ابتدا میں نیت صحیح اور درست نہیں ہوتی اور عمل میں اخلاص ناپید ہوتا ہے لیکن پھر رفتہ رفتہ کوشش اور ﷲ کے فضل سے یہ چیز حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت سفیان ثوریؒ کہتے ہیں :’’ میں نے علم حاصل کیا تو میری کوئی نیت نہ تھی ( یعنی حسنِ نیت سے محروم تھا ) پھر ﷲ نے ( اچھی ) نیت سے نوازا۔‘‘