اچھے نام سے پکارنا ، رب کریم کی سنت
جمعرات 26 اکتوبر 2017 3:00
اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہیں، نبی نے اچھے نام رکھنے اور بْرے ناموں سے گریز کی تلقین فرمائی ہے
حافظ محمد ہاشم صدیقی ۔جمشید پور،ہند
ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وارث عطاء فرمائے۔ یعنی اولاد ،جو نیک و صالح ہو اور اس سے خاندان کی شان بلند ہو اور اس کے لئے شادی ہونے کے فوراً بعد اللہ کے حضور دعائیں مانگی جانے لگتی ہیں اور جیسا کہ قرآن مجیدمیں ارشاد ہوا ہے کہ پیغمبروں نے جس طرح اللہ سے اولاد جیسی نعمتِ الٰہی کے حصول کے لئے اپنا دست سوال اْٹھایا ہے اسی طرح اے مسلمانوں!تم بھی میرے آگے اپنا دست سوال اٹھاؤ ،میں تمہاری جھولی اس نعمت سے بھر دوں گا۔
قرآن پاک میں اولاد کی دعاء کیلئے کئی جگہ ذکر موجود ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء:
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحین (الصافات 100)۔
’’الٰہی مجھ کو لائق اولاد دے۔‘‘
ربِ کریم نے ارشاد فرمایا:تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی(الصافات 101)۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ سے دعاء کی:
ھُنَا لِکَ دُعَا زَکَرِیَّا رَبَّہْ،قَا لَ رَبِّ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّ یَّۃً طَیِِّبَۃً، اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَا(آل عمران38)۔
’’اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطاء فرما، بے شک تُودعاء کا سننے والا ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ قرآن میں دعائے زکریا علیہ السلام ہے:
’’اے اللہ! ہمیں وارث عطاء فرما جو میرا کام اٹھا لے، میرا بھی وارث ہو اور اولاد یعقوب کے خاندان کا بھی جانشین ہو اور اے میرے رب! تو اسے مقبول بندہ بنا لے۔‘‘(مریم6,5)۔
معلوم ہوا کہ بیٹے کی دعاء کرنا سنتِ انبیاء ہے مگر نفس کے لئے نہیں بلکہ رب کیلئے کہ وہ دیندار ہو ،اللہ کا نیک بندہ ہو، نیک اور صالح ہو تاکہ ہمیں قبر میں اس کی نیکیوں سے آرام پہنچے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خوشخبری سنائی:
’’ اے زکریا ! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ( مریم7)۔
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعاء قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرمادیا۔
اولاد خواہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ اللہ کی رحمت و نعمت ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں لڑکی کی پیدائش کو بہت خراب مانا جاتا تھا اور اس کو اکثر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی ترقی کا دور کہلانے کے با وجود ہندوستانی معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر اظہار افسوس کیا جاتا ہے۔ مذہب اسلام نے اسکو سختی سے منع کیا اور نا پسند کیا ہے۔
اچھے نام رکھنے کی فضیلت :
اللہ پاک جو اپنے نام سے ہی یکتا اور بے مثل ہے جس نے نہ صرف اس کائناتِ رنگ و بو کو پیدا فرمایا بلکہ اس کائنات کو حسن و خوبصورتی کے سب سے اعلیٰ نمونہ ’’انسان‘‘ کو تخلیق (پیدا) فرمایا اور پھر اسے سب سے پہلے خوبصورت نام’’ آدم‘‘ سے نوازا اور اس طرح کائناتِ ارضی کے ہر ذرے کی ابتدا نام سے ہوئی۔ انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چیز میں حسن و جمال کو پیش نظر رکھا جائے اس لئے اللہ پاک نے انسان کو بہترین ساخت اور عمدہ شامہ عطاء فرمایا: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَا نَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم ’’ ہم نے انسان کو عمدہ ساخت میں پیدا کیا ‘‘، لہٰذا والدین کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش اچھے انداز میں کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے نام بھی اچھے رکھیں۔
اچھے نام اچھی علامت کا مظہر ہوتے ہیں اور اچھے نام اللہ عزو جل کو پسندیدہ ہیں۔ ہمارے آقا نے اچھے نام رکھنے اور بْرے ناموں سے گریز کی بار بار تلقین فرمائی ہے اوریہی بات اسلامی تعلیمات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کو 2نام بہت پسند ہیں اور وہ 2 نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔
اس لئے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ نام خوبصورت، با معنی اور ہر لحاظ سے جامع ہو اور پکارتے وقت پورا نام پکارا جائے۔ اسلئے کہ نام ہی وہ پہچان ہے جو ایک کو دوسرے انسان سے علیحدہ پہچان دیتا ہے اور اسکو ایک دوسرے پر فضیلت عطا کرتا ہے اور انسان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے ناموں ہی کی تعلیم دی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ( البقرہ31)۔
اچھے ناموں کے اثرات سیرت نبوی ؐ کی روشنی میں:
ارشادِ ربّانی ہے :
’’ کہہ دو کہ تم (اللہ تعالیٰ کو) اللہ تعالیٰ (کے نام سے) پکارو یا رحمن (کے نام سے) پکارو سب اسکے اچھے نام ہیں ۔‘‘(بنی اسرائیل110)۔
اس سے یہ بات ظاہر و معلوم ہوتی ہے کہ ربِ کریم ہمیں اچھے ناموں کی تلقین فرمارہا ہے۔ اچھے نام رکھے جائیں، اچھے نام سے پکارنا سنتِ الٰہیہ ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا اولاد کے لئے قرآن کریم میں ذکرموجود ہے، اللہ نے نہ صرف اولاد کی دعا قبول فرمائی (اولاد عطاء فرمایا) بلکہ اس کا نام بھی تجویزفرمایا: اے زکریا! ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے، اسکے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا(مریم7)۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بہت سی فضیلتیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ * یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود نام رکھا، والدین کے سپرد نہ کیا۔ یہ آپ ؑکی خصوصیت ہے۔ * یہ نام کسی اور کو نہ پہلے ملا نہ بعد میں یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نام کسی دوسرے آدمی کا نہ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کو خوشخبری سنائی اور انکا نام یحییٰ رکھدیا۔
خیال رہے کہ ہمارے بچوں کا نام ان کے ماں باپ رکھتے ہیں وہ بھی پیدائش کے ساتویں دن بعدمگر ہمارے آقا کا نام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام پاک خود ربِ تعالیٰ نے رکھا وہ بھی ولادت سے پہلے،نیز ہمارے بچوں کے نام بھی نام کے خلاف ہوتے ہیں۔ تمام نام صحیح نہیں ہوتے، غلط بھی ہوتے ہیں۔ مثلاًکالے آدمی کا نام یوسف خان، بزدل کا نام شیر بہادر، محمد فاضل صدیقی، بہرے کانام سمیع اللہ انصاری، اندھے کا نام نور اللہ خان رکھ دیا جاتا ہے،مگر رب تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام بالکل صحیح اور نام کے مطابق کام بھی ہوتے ہیں۔
دیکھئے رب نے حضور کا نام ’’محمد ‘‘رکھا یعنی’’ بہت سراہا ہوا، تعریف کیا ہوا‘‘۔ آج بھی اس نام کی بہار دیکھی جا رہی ہے کہ ہر جگہ ہر وقت ہر زبان میں حضور کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح سے رب تعالیٰ نے حضرت یحییٰ کا نام رکھا یعنی’’ زندگی بخشنے والے‘‘ یا ’’زندہ ٔجاوید رہنے والے‘‘۔ یہ نام اُن پر بہت سجا چنانچہ حضرت یحییٰ علیہ السلام بے مثال تارک الدنیا اور عابد و زا ہد ہوئے تھے۔
نبیوں کے نام اللہ تعالیٰ نے رکھا اور ان کے نام و کام کا کفیل ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے ہمارے حضور کے بارے میں فرمایا تھا:اسمہٗ احمد ’’ ان کا اسم شریف احمد ہے‘‘۔ اور یحییٰ علیہ السلام اُن رسولوں میں سے ہیں جنہیں بچپن ہی سے نبوت ملی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نام رکھنے کی برکت سے ہوا۔
اچھے ناموں کے اثرات:
آجکل عام مزاج بنتا جا رہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو۔ ایسا نام رکھا جائے کہ کسی اور کا نہ ہو، خواہ اس کا مفہوم و معنیٰ کچھ بھی نکلتا ہو، حالانکہ پیارے نبی نے ارشاد فرمایا: انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھو(ابو داؤد) ،اسی لئے حضور اکرم نے اپنے آخری صاحبزادے کا نام ابراہیم رکھا تھا جو حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ ایک حدیث پاک میں حضور کا پاک ارشاد ہے:
’’قیامت کے دن تمہیں اپنے آباء کے نام سے پکارا جائے گالہٰذا تم اچھے نام رکھا کرو۔‘‘(مسند احمد) ۔
رب تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام اور ہمارے آقا کا نام رکھا۔ اس نام کا پہلے کوئی نہ تھا ( یعنی :یحییٰ اور احمد)۔
اللہ کے رسول محسنِ کائنات نے بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعد آپؓ کے کان میں اذان دی ،منھ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعاء فرمائی، پھر ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب ’’ سبط رسول ‘‘ و ریحانِ رسول ہے۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ نے فرمایا کہ( حضرت) ہارون( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کا نام شبّر اور شبیر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کے نام پر حسن اور حسین رکھا (صواعق محرقہ) ۔
سر یانی زبان میں شبّر اور شبیر اور عربی زبان میں حسن اورحسین دونوں کے معنیٰ ایک ہیں۔ ابن الاعرابی مضفل سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں نام مخفی (پوشیدہ) رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم نے اپنے نواسوں کا نام حسن اور حسین رکھا( اسرف المؤ ید ) ۔
احادیث میں اچھے نام جس سے عبدیت کا اظہار ہو اُسے اچھا قرار دیا گیا ہے،چنانچہ عبداللہ اور عبد الرحمن اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے نزدیک پسندیدہ نام ہیں (مسلم)۔
والدین پر اولاد کے حقوق بہت ہیں۔ اچھا نام رکھنا یہ بھی حقوقِ اولاد میں سے ہے۔ جب بچہ پیدا ہو توفوراً داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے کہ ظل شیطان و اُم الصبیان سے بچے گا۔ ہر بچہ کا نام رکھے۔ حدیث پاک میں ہے کہ کچے بچے (جوکم دنوں میں گر جائے) اسکا بھی نام رکھے، نام نہ رکھنے پر وہ بچہ اللہ عزوجل کے یہاں شاکی (شکایت) ہوگا۔ بُرا نام نہ رکھے کہ فالِ بد ہے۔ عبداللہ، عبدالرحمن، احمد وغیرہ نام رکھے۔ انبیائے کرام ؑ یا اپنے بزرگوں میں جو نیک گزرے ہوں ان کے نام پر رکھیں کہ باعث برکت ہے، خصوصاً وہ نام جو رسول اللہ کے پاک نام ہیں۔ اس مبارک نام کی بے پایاں برکت بچہ کی دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔
بْرے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلنا :
حضور اچھے نام رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ نام میں اگر معنوں میں اچھائی نہ ہو یا اسمیں شبہ ہو تو اسے بدل دیا کرتے تھے۔حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کا نام ’’ برۃ ‘‘ تھا جس کے معنیٰ نیکوکار ہیں۔ اللہ کے رسول نے ان کا نام اسلئے تبدیل فرما دیا کہ اس میںاپنی تعریف کا پہلو نکلتا ہے، اسکی وجہ سے نفس کہیں دھوکہ نہ دیدے ، لہٰذا آپؓ کا نام زینب رکھا۔ اسی طرح ایک صحابی کا نام ’’ حزن ‘‘ تھا۔ اللہ کے رسول نے ان کا نام اسلئے بدل دیا کہ اس کے معنیٰ سخت زمین کے ہوتے ہیں’’ سہیل ‘‘ نام رکھ دیا جس کے معنیٰ نرم ہونے کے ہیں۔
اللہ کے رسول اچھے نا م سن کر خوش ہوتے تھے اور اسکے اثرات کے متمنی ہوتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر معاملہ الجھا ہوا تھا، قریش کی جانب سے ثالثی کے لئے سیدناسہیل آئے تو حضور نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں۔ بتایا گیا کہ سہیل ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے ہمارے معاملہ کو آسان کر دیا اور پھر انہی کے ذریعہ صلح حدیبیہ کا تاریخ سازمعاہدہ وجود میں آیا جس کو رب تعالیٰ نے فتح مبین سے تعبیر کیا۔
حضور اکرم نے اکثر و بیشتر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کے نام تبدیل فرمائے ہیں تاکہ نئے نام اور اسلام لانے سے ان کے کردار میں ناموں کے معانی کے لحاظ سے تبدیلی اور برکت شامل ہو جائے اور وہ سر تاپا اسلامی رنگ میں ڈھل جائیں اور نیکی کا مرقع بن جائیں۔ سیرت کی کتابوں میں حضور اکرم کی جانب سے نام تبدیل کرنے کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ چند ملا حظہ فرمائیں:
< ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا نام اسود (کالا، گرد آلود، تاریک) سے بدل کر ابیض (سفید) رکھ دیا۔
< ایک صحابی کا نام الجبار (جبر و ظلم کرنے والا) سے بدل کر عبد الجبار (جبار کا بندہ) رکھ دیا۔
< حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبد الکعبہ (کعبہ کا بندہ ) سے تبدیل کر کے عبداللہ (اللہ کا بندہ) رکھ دیا۔
< مشہور صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام عبد الشمس سے بدل کر عبد الرحمن رکھ دیا۔اسطرح آپ نے عاصی، عتلہ، حکم، غراب، حباب کے نام تبدیل فرمائے اور احرام کو زرعہ، عاصیہ کو جمیلہ اور برہ کو زینب سے بدل دیا(سنن ابو داؤد) ۔
< حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا جسے آپ نے بدل کر جمیلہ رکھدیا (عبداللہ بن عمر عن صحیح مسلم )۔
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ صحیح اور درست نام نہ رکھنے سے بچے کی شخصیت پر اچھا اثر نہیں پڑتا اسلئے نام ایسا رکھنا چاہئے کہ جب بچہ بڑا ہو تو اسے اپنے نام پر فخر محسوس ہو اور فخر اسی وقت محسوس ہوگا جب اسکا اچھا اسلامی نام رکھا جائیگا۔ اس ضمن میں ارشاد رسول کریم ہے:
’’ جس شخص کے 3 بیٹے ہوں اور وہ ان میں سے کسی کا نام محمد نہ رکھے تو وہ بالیقین (ایمان عشق) کے تقاضے سے جاہل ہے۔ ‘‘ (طبرانی ) ۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن بدترین ناموں سے اس شخص کا نام ہوگا جس کو شہنشاہ کہتے ہونگے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ اور عبد الرحمن اور زیادہ اچھے نام حارث اور ہمام، احمد، محمد ہیں جبکہ بدترین نام حرب اورمرہ ہن ہونگے (ابوداؤد) ۔
< حضرت شریح بن حانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد اپنی قوم کے ساتھ نبی کریم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے انکا نام دریافت کیا۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ میرا نام ابو الحکم ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: حکم اللہ کے قبضہ و اختیار میں ہے، تم نے ابو الحکم کنیت کیوں مقرر کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میری قوم میں جب بھی کسی معاملہ میں اختلاف ہوتا ہے تو فریقین میرے پاس فیصلے کیلئے آتے ہیں اور میں ان کے درمیان ایسا فیصلہ کر دیتا ہوں کہ وہ تمام راضی ہو جاتے ہیں اور میرے حکم کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس پر آپنے ارشاد فرمایا: لوگوں کے درمیان فیصلہ اور حکم کرنا بہت اچھی بات ہے، تمہارے کتنے بچے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ 3 بیٹے: شریح، مسلم اور عبداللہ۔ آپ نے فرمایا :بس آج سے تمہاری کنیت ابو شریح ہے ( عن ابن شریح ابن حانی ازنسائی)۔
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نام کی معنویت زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اچھی عرفیت اچھے نام سے کردار و شخصیت پر اچھا اثر پڑتا ہے اور برے نام بری عرفیت سے بُرا اثر ہوتا ہے جیسا کہ ابوجہل کی عرفیت (جہالت کا باپ) اللہ کے رسول نے عرفیت کا اعلان کیا،اُسے ساری زندگی حلقہ بگوش اسلام ہونے سے دور رکھا۔
(جاری ہے)