Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال کی محبت اور ہم مزاج شوہر خوش نصیبی ہے ،ارم اسد

 مرد عورت کو کمتر جا ننے لگے تو از دوا جی زند گی میں سرطان در آتا ہے
 
تسنیم امجد ۔ر یا ض
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جنوب اور شمال اپنے طور پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور مغرب تو ہے ہی کمال مگر یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مشرق ہمیشہ سے ہے بے مثال۔ان دو انتہاﺅں میں بُعد کا اندازہ لگانا ہو توصرف دونوں خطوں کی صنف نازک کا موازنہ کر لیجئے کیونکہ یہی تو ہیں تصویر کائنات کا رنگ ۔ جب ہم کسی طائر کی نگاہ سے غرب و شرق کی نسوانیت پر غور کرتے ہیںتو ادراک یہ ہوتا ہے کہ مغرب کی چکا چوند اس تصویر کائنات کا غازہ ہے تو مشرق کی شرم و حیا زندگی کا مجتمع شیرازہ ہے۔مغرب کی بے حجابی اگر حُسنِ بے پروا کا انداز ہے تو مشرق کاطرزِ حجابی زندگی کا راز ہے ۔ مغرب میں بے باکی اگر صنف نازک کی پہچان ہے تو مشرق میں تلبیسِ لفظی نسوانیت کی جان ہے۔مغرب میںوفا کے نام سے عورت پریشان ہے ، مشرق میں وفا ہی عورت کا احسان ہے، مغرب کی عورت شمع محفل ہے ، مشرق کی عورت کا مقام فقط دل ہے۔
ایشیائی ممالک بھی مشرق میں آباد ہیں، ان ممالک میں زندگی بسر کرنے والی خواتین کے بارے میں آج یہ حقیقت زباں زدِ عام ہے کہ ایشیا ئی مما لک کی خواتین صلا حیت، اہلیت و قا بلیت کے اعتبار سے اہنا ثانی نہیں رکھتیں وہ چہار دیواری میں گھر کی ملکہ کی حیثیت سے گرہستی کچھ اس طرح سے سنبھا لتی ہیں کہ باہر کی دنیا میںصنفِ قوی کی کا میابی یقینی ہو جاتی ہے ۔ما ں ،بہن، بیٹی کی حیثیت سے ر و نقِ حیات کا سہرا انہی کے سر ہے ۔ان کا وجود دکھی دل کو شاد ،ویرانوں کو آ بادکرتا ہے ،تلخی کو مٹھاس سے بدل دیتا ہے،نفرت کو محبت میں اور مکان کو گھرمیں ڈھال دیتا ہے ۔یہ وہ ہستی ہے جو اپنے ہی گھر میں دو سروں کے احکامات اس طرح بجا لاتی ہے جیسے وہ کوئی خا د مہ ہو۔اسے اپنی حیثیت منوانے کا کو ئی خبط نہیںہوتا ۔وہ رشتے نا تو ں کوہی اپنی دنیا سمجھتی ہے ۔اس کا خمیر خلوص سے گندھا ہے ۔ یہ وہ ہستی ہے جوجانتی ہے کہ اس کے والدین کا آنگن اس کا عارضی مسکن ہے، پھر ایک دن وہ شادی کے نام پر”کرب انگیز مسرت“ سے معمور ہو کر اپنے بچپن کی تمام یادوں کو سینت کرشوہر کہلانے والے ”اجنبی “ کا ہاتھ تھام لیتی ہے اور پھر نئے رشتوں و ذمہ داریو ں کو اپنا کر کسی کے مکان کو گھر بنا دیتی ہے ۔اسی لئے صنف نازک کے بارے میں جب بھی ذکر ہوتاہے تو ذہن کے ”پردہ¿ سیمیں “ پر اچانک یہ شعر نمودار ہوجاتا ہے کہ :
وجو دِ زن سے ہے تصویر کا ئنات میں رنگ 
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
ارم اسد علی خان اس ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان تھیں۔ محترمہ ایسی ہی شخصیت ہیں جنہو ں نے کم سنی سے ہی اپنے شعور کا لو ہا کچھ اس طر ح سے منوایا کہ والدین ان کے مشوروں سے مستفید ہو نے لگے۔بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی خو شبو تھیں جن کے وجود سے آ نگن مہکتا رہتا۔دو نو ں بھائی ان کے گرد حاشئے کی صورت میں رہتے اور خوب لا ڈ ا ٹھاتے ۔اکلوتی ہو نے کے ناتے وہ آ نکھو ں کا تارا بنی رہی ۔اس لاڈو پیا ر نے ان کی شخصیت کو مزیدجلا بخشی ورنہ اکثر اکلوتا پن اور لا ڈ پیار بگا ڑ کا با عث بنتا ہے ۔ان کی زبان شستہ اور گفتگوشائستہ تھی جس نے بجا طور پر متاثر بھی کیا۔ارم ناپ تول کر بو لنے کی عادی ہیں ۔میٹھے لہجے سے سننے والے کواپنی بات کی اہمیت کااحساس دلانا ان کے با ئیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ہوا کے دوش پر ان سے بات چیت نہا یت دلچسپ رہی۔کہنے لگیں میں نے مملکت کی فضا ﺅ ں میں ہوش سنبھا لا ۔اسکولنگ سے لیکر اب تک کا سفر یہیں طے کیا ۔آج میں جو کچھ بھی ہو ں، اپنے والدین اوراسا تذہ کی بدو لت ہو ں ۔میں اپنے اسکول کے تمام اسا تذہ کو خرا جِ تحسین پیش کرتی ہو ں۔ان کی محنت اور لگن لا جواب ہے ۔وسائل کی عدم دستیابی کا ان کی کا ر کردگی پر کو ئی اثر نہیں پڑ تا ۔
یہ تو حقیقت ہے کہ سبھی والدین اپنی بساط سے بڑ ھ کر اولاد کا خیال رکھتے ہیں ۔میرے والد ریا ض احمد خان اور والدہ زر ینہ ریا ض احمدنے بھی ہماری پرورش میں کو ئی کمی نہیں چھو ڑی۔ ہم تینو ں ،رضوان ریاض احمد ،ریحان ریا ض احمد اور میں ان کی محبتو ں اور بے پناہ تو جہ کے مقرو ض ہیں ۔والد صا حب جو ن1965 ءمیں مملکت آئے تھے ۔انہوں نے وزارتِ صحت میں36سال نہایت ذمہ داری سے خدمات انجام دے کر ملک کا نام رو شن کیا ۔والدہ شعبہ¿ تدریس سے وا بستہ تھیں ۔ان کی طبیعت نہایت نرم اور مزاج ٹھنڈا تھا ۔اسی وجہ سے وہ ہر دلعزیز تھیں ۔ڈیڑ ھ برس ہو ا، وہ ہمیں داغِ مفارقت دے گئی ۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت ا لفردوس میں جگہ عطا فرمائے ، آ مین ۔
امی کے جانے سے یو ں لگتا ہے جیسے میکا خالی ہو گیا ۔بھا بیا ں بہت اچھی ہیں۔وہ والدہ کی کمی کا احساس نہیں ہو نے دیتیں۔بھائیوں نے آج بھی پہلے کی طرح لاڈلا بنا رکھا ہے ۔
ارم اسد کے سفرِ حیات کا تذ کرہ تکلیف دہ ہے جو حقیقت میں آ نسو ﺅ ں کی زبان سے ادا ہو سکتا ہے ۔ارم کی آ واز بھرا گئی ، وہ ذرا توقف سے گویا ہوئیں کہ وقت ہاتھ سے ریت کی ما نند سر کتا گیا اور میں1995ءمیں ارم ریا ض ا حمدسے ارم اسد علی خان ہو گئی ۔سسرال سے گو کہ کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن محبتو ں میں یہ خو نی رشتو ں سے بڑ ھ کر ثابت ہو ئے ۔سسر ،شو کت علی خان بھی مملکت میں 50 برس مقیم رہے ۔پہلے مکہ مکرمہ اور پھر ریاض تشریف لے آئے ۔ان کی کو ئی بیٹی نہیں تھی ۔7 بیٹے ہی تھے ۔اس لئے بہوﺅ ں پر یہ دل و جان سے صدقے واری رہتے ۔میں خوش قسمت ہو ں کہ ما ں کی کمی ادھر آ کر کا فی حد تک پو ری ہو گئی ۔وہ لڑ کیا ں نصیب والی ہو تی ہیں جنہیں سسرال کی محبت اورہم مزاج شو ہرملے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر شریک سفر اچھا ہو توعورت کی زندگی نہا یت آ سان ہو جا تی ہے ۔ میں اپنے شوہر اسد علی خان کے لئے یہ کہنا چا ہو ں گی کہ:
کہا ں بساط جہا ں اور میں کم سن و نا دا ں
یہ میری جیت کا سب اہتمام تم سے ہے 
میرے شو ہر بھی ہمہ جہت و ہمہ صفت ہیں ۔ایک ٹی وی چینل میں 26 برس سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے والدین نے اپنے سا تو ں بیٹو ں کی پر ورش نہا یت انصاف سے کی ،دین و دنیا کی تعلیم دلوائی۔ہمیں اس قابل کیا کہ دو سری قو میتو ں کے ساتھ ا حسن طور پر اپنے فرا ئض ادا کر سکیں ۔
ارم اسد علی کی گفتگو جا ری تھی کہ اسد علی خان بھی آگئے ۔انہو ں نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم اردو نیوز کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ہم دو نوں اس جریدے کو نہا یت شوق سے پڑ ھتے ہیں، خا ص کر جمعرات اور جمعہ کااردونیوز تو ضرور گھر لے کر آتے ہیں ۔کہنے لگے کہ بیگم کچھ ہمارا ذکر کر رہیں تھیں،اسی کو آ گے بڑھا تے ہیں۔والد صا حب بہت با اصول انسان تھے ۔نظم و ضبط ان کی طبیعت کا خا صہ تھا ۔بیٹو ں کی پرورش کچھ آسان نہیں ہو تی اورما شا ءاللہ ، وہ بھی 7بیٹے۔انہو ں نے نہا یت محنت اور خلوص سے اپنا فرض نبھا یا۔ہمیں خو د اعتما دی کی دولت سے نوازا۔اس طر ح کہ کو ئی کام مشکل نہیں رہا ۔وہ کہتے تھے کہ اپنی زندگی میں اِمپا سیبل یعنی نا ممکن کا لفظ کبھی نہ آنے دینا ۔انسان کی زندگی ایک فن ہے اور ہم سب فنکار ہیں۔ہر شخص زندگی کے کینوس کو رنگین تر بنانے کی دھن میں ہے اور اس میں اپنی سوچ و بساط کے مطابق رنگ بھر تا ہے ۔ہر صبح ہم زندگی کے کینوس کے رو برو ہو تے ہیں اور ہر رات نئی صبح کا پیغام لاتی ہے ۔انسان کا کو ئی بھی عمل فن سے کم نہیں۔انسان کویہی نئے زاو یو ں سے نواز تا ہے ۔
والد صا حب کی نصیحتیں ہمیںہر ہر لمحہ یاد آ تی ہیں۔ وہ آج ہم میں نہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی آواز کی باز گشت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔والدین کا سایہ جب سر سے اٹھ جائے تو یو ں لگتا ہے ، ہاتھ خالی ہو گئے ۔انسان کوما ں کی دعاﺅ ں اور شفقت پدری کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے ۔میری یہی کوشش ہے کہ اپنے ہر عمل کو اسطرح احکامِ الٰہی کے مطابق ڈھال لوں کہ والدین کے لئے صد قہ جاریہ بن جائے۔ مجھے یقین ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو انسان کو آ مادہ عمل اور سر گرم رکھتی ہے ۔
ارم اسد علی نے کہا کہ رب کریم نے ہمیں دو بچو ں سے نوازا۔الحمد للہ، ہم دونوں نے ان کی تر بیت کو ا فضل جانا ۔ماریہ اسد علی اور عثمان اسد علی امریکہ کی شہریت کے حامل ہیں ۔ہم نے انہیں اسلامی تعلیمات کی خا طر اس ما حول میں نہیں رہنے دیا ۔انہیں دینِ اسلام کی مکمل آ گہی سے سرفراز کیا۔اب یہ بڑے ہو گئے ہیں۔دونوں با ر ھویں کے طالب علم ہیں ۔ہماری تعلیمات اب بھی جاری ہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ اب یہ اپنے راستے پر ڈٹے رہیں گے ۔ماریہ کو گھر گر ہستی کی سوجھ بوجھ دی ہے ۔ جب سے اس نے ہوش سنبھا لا، اسے ہم نے کچھ نہ کچھ ذمہ دار یاں سو نپی ہو ئی ہیں۔اب تو یہ ذمہ داریاں سنبھالنے کی ماہر ہو گئی ہے ۔میں نے وہی کیا جو والدہ کر تی تھیں۔ویسے سنا یہی ہے کہ بیٹی کی شخصیت ما ں کا عکس ہو تی ہے اس لئے بیٹی کے لئے ماں کو رول ما ڈل بننا پڑ تا ہے۔آ ج جبکہ میڈیا کا دور ہے لیکن مجھے صرف اور صرف گھر داری ،بچو ں کی تر بیت اور اپنی جاب سے سروکارہے۔ میری سہیلیا ںڈرا مو ں اور فلمو ں کے نام بتاتی اور تعریفیں کرتی ہیں تو مسکرا کر سو چتی ہو ں کہ آخر وقت کے اس ضیا ع کو کیا نام دوں؟میں خود فلمیں اور ڈرامے دیکھو ں گی تو بچے بھی دیکھیں گے اور یہ مجھے گوارا نہیں۔اس لئے دیکھنا بھی چا ہوں تو بچوں کی وجہ سے نہیں دیکھتی۔میں نے کام ، کام اور کام ہی سیکھا ۔اب تک بیشتر مدارس میں تد ریسی فرائض ادا کر چکی ہو ں جن میں پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے اسکول شامل ہیں۔اب بھی میں ایک انٹر نیشنل اسکول میں اکیڈ یمک سپروائزر ہو ں ۔کا میا بیو ں کا یہ سفر 25برس پر محیط ہے اور ابھی جاری ہے، ان شاءاللہ۔
والد صا حب کی دعا ئیں اور نصیحتیں اب بھی میرے ساتھ ہیں ۔والدہ کے بعد وہ ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ رضوان بھائی ٹریول ایجنسی میں ہیں اور ریحان ایک کمپنی میں ریجنل فنا نس منیجر ہیں ۔ایک بھابی مبشرہ رضوان جبکہ دوسری بھا بی نہلا سعد المطیری ہیںجو سعودی ہیں ۔ان کے تین بیٹے ہیں ۔دو نوں بھا بیا ں بہت ہی ملنسار ہیں ۔سعودی بھابی کسی بھی تقریب میں ہمارے ساتھ جاتی ہیں ۔وہ با لکل ہم میں گھل مل گئی ہیں۔رضوان بھائی کے 2 بیٹے اور2 ہی بیٹیا ں ہیں ۔سعودی بھا بی کی ملنساری سے یہ بات ثابت ہو تی کہ قو میتیں محبتو ں کے آ ڑے نہیں آ تیں۔اصل اہمیت انسانی شخصیت کی ہوتی ہے جس پر ما حول کی چھاپ ہو تی ہے ۔
اسد علی نے کہا کہ زندگی کے ابتدائی سال ہی محنت طلب ہوتے ہیں جن کا پھل ہمیشہ ملتا رہتا ہے ۔ہم اپنے گرد ایسی بے شمار ہستیوں کا جا ئزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ :
نامی کو ئی بغیر مشقت نہیں ہوا 
سو بار جب عقیق کٹا ،تب نگیں ہوا
ارم نے کہا کہ شو ہرکی بدولت ہی میں نے اب تک کا میا بیا ں حا صل کی ہیں ۔میں جو کچھ بھی ہو ں، انہی کی بدو لت ہو ں ۔میری کوشش ہو تی ہے کہ میں انہیں باہر کی دنیا میں کا میا بیو ں سے ہمکنار دیکھوں ۔جو مرد گھریلو ٹوٹ پھوٹ اور سا زشوں کا شکار رہتے ہیں ،وہ گھر سے باہر بھی پریشان رہتے ہیں ۔ازدوا جی زندگی کی گا ڑی کو بغیر ہچکو لوں کے چلنا چاہئے۔والدین کے باہمی روا بط کے ا ثرات اولاد پر پڑتے ہیں ۔ان والدین کی اولاد نفسیاتی کشمکش کا شکار رہتی ہے ۔اعتبار کے رشتوں میں دراڑ نہیں آنی چاہئے۔ارم اسد علی نے بتایا کہ اکثر دیکھنے اور سننے میں آ تا ہے کہ از دوا جی ز ندگی کسی نا سور سے کم نہیں ۔ان گھرانوں کے بچوں کی نفسیات کیا ہو تی ہو گی جبکہ انسان میں قدرت نے شفقت ،محبت ،نزا کت اور فہم و فرا ست کو ٹ کو ٹ کر بھری ہے تو پھر یہ بلندیو ں سے پستیوں کی جانب کیو ں گامزن ہو تا ہے ۔ایسے میں وہ ایک عفریت کا روپ دھار لیتا ہے ۔انکے سوال کا جواب تفصیل طلب تھا لیکن ہم انہیں یہا ں مختصر یہی بتا سکتے تھے کہ ہر انسان میں کو ئی نہ کوئی کمزوری یا کمی ضرور ہو تی ہے ۔یہ اسے احساسِ محرومی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔بد گمانی اس کی فطرت کا خا صہ بن جاتی ہے ۔کڑوی کسیلی باتوں سے وہ دوسروں کو تکلیف دے کر مسرور ہو تا ہے ۔جب مرد عورت کو کم تر جا ننے لگتا ہے تو از دوا جی زند گی میں سرطان در آتا ہے۔ہر عورت کے لئے شو ہر کا رشتہ سب رشتوں پر فو قیت رکھتا ہے ۔مرد کے لا شعور میں بر تری کا بھو ت سوار ہے ۔یہی اسے ایک آئیڈ یل از دوا جی زندگی کی ٹھنڈی ہوا ﺅ ں سے دور رکھتا ہے ۔گھر کے سکھ چین کے لئے عورت سب کچھ سہتی ہے لیکن بد قسمت مرد اسے پا ﺅ ں کی جو تی سے زیادہ رتبہ نہیں دیتا ۔وہ خود غر ضی کے نشتر چبھوچبھو کر بیچاری کی روح ز خمی کئے رکھتا ہے ۔کاش وہ ذرا سی وسیع ا لنظری سے کام لے تو اپنے ساتھ ساتھ دو سرو ں کی زند گیو ں کو بھی آ سو د گی سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔
ارم اسد علی نے کہا کہ میں ایک مشتر کہ خاندان کی بہو ہو نے کے ناتے یہ کہنا چا ہوں گی کہ اکٹھا رہنے میںبے حد فوا ئد ہیں۔آج کے دور میں محبتیں بٹو ر نے کا بہترین ذ ریعہ ہے ۔اس خاندان کے بچو ں کی تر بیت میں دوسرے ددھیالی رشتو ں کی بھی آ میزش ہو تی ہے۔ اس لئے یہ زیادہ م¶دب ہو تے ہیں ۔یہ مستقبل کے بہترین شہری ثا بت ہو تے ہیں۔گھر ایک چھو ٹی سی مملکت ہی تو ہے ۔یہ تر بیت کا بہترین ذریعہ ہے ۔گھر میں دیورانی ،جٹھا نی ہوتے ہوئے جاب میں آ سانی رہتی ہے ۔میں خوش نصیب ہو ں کہ ہمارے درمیان کو ئی مسابقتی رنجش نہیں ۔دیور ،جیٹھ بھی سگے بھا ئیو ں سے بڑھ کر ہیں ۔
ہماری گفتگو دلچسپی کے مو ڑ پر تھی ۔ہم نے اجازت چاہی تو ارم اسد علی کہنے لگیں کہ آج خوش قسمتی سے میڈ یا سے را بطہ ہوا ہے تو بس اس کے ذریعے ایک پیغام خواتین اور نسلِ نو کو پہنچانا چا ہو ں گی کہ :
” ماں ہو نے کے ناتے جو میں نے محسوس کیا ،اس کی رو شنی میں یہ کہو ں گی کہ اولاد آپ کا اصل سرمایہ ہے ۔جا ئدادیں یا ز مینیں کسی کام کی نہیں۔ جب تک آپ اپنی اولاد کا حق صحیح طو ر پرادا نہیں کریں گے ،مثالی والدین کہلانے کے قابل نہیں ہوںگے ۔انہیں تعلیم کی دولت سے مالا مال کیجئے۔ ابتدائی 5،6 بر سو ں کی چھا پ ان کی شخصیت پر بہت گہری ہو تی ہے ۔اس دوران والدین کو ان پر خاص تو جہ دینی چاہئے ۔ہمارا مذ ہب بھی ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے ۔با ہمی رنجشیںاولاد کو ذ ہنی مریض بنا دیتی ہیں ۔
دوسری جانب میرا پیغام خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے اختیارات آج بھی پہیلی بنے ہوئے ہیں ۔اسے اعلیٰ عہدوں پر فائز تو کر دیا گیا مگر اس کے عوض اسے طعنے اور الزام سہنے پرتے ہیں ۔اس کی کر دار کشی بھی ببا نگِ دہل کی جاتی ہے ۔یہ وتیرہ مغرب کے مرد کا بھی ہے حالانکہ وہ تر قی یا فتہ کہلاتا ہے ۔آج کی عورت کو بظا ہرحقوق میسرہیں لیکن حقیقت میں وہ تہی دامن ہے ۔ان حالات میں عورت کو خود اپنی راہیں ،گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے ہموار کر نی ہیں ۔وہ ٹیکنا لو جی سے مستفید اس طر ح ہو کہ خود کو تعلیم کی دولت سے سنوارے۔ آن لائن دروا زے کھلے ہیں ۔اس کے لئے عمر کی کو ئی قید نہیں۔ مصرو فیت کا یہ حسین انداز اس کے گھر پر بھی خو شگوار اثرات مر تب کرے گا ۔خود کو جتنا مصروف رکھا جائے ،اتنا ہی اچھا ہے ۔علامہ اقبال کا یہ پیغام بھی کیا خوب ہے کہ:
بر تر از اندیشہ¿ سودو زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانہ¿ امروز و فردا سے نہ ناپ 
جا ودا ں ،پیہم رواں،ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر ،اگر زندو ں میں ہے 
سر آدم ہے ،ضمیر کن فکا ں ہے زندگی
 

شیئر: