Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا صفر منحوس مہینہ ہے؟

مفتی محمد راشد ڈسکوی۔کراچی
گزشتہ سے پیوستہ

          سوال: ہمارے علاقے صوبہ خیبر پختونخوا میں ماہِ صفر میں خیرات کرنے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے، جس کو پشتو زبان میں چُری کہتے ہیں۔عوام الناس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ کی صحت یابی کی خوشی میں چُری کی تھی۔ ’’ماہنامہ النصیحہ‘‘ میں مولانا گوہر شاہ اور مولانا رشید احمد صدیقی مفتی دارالعلوم حقانیہ نے اپنے اپنے مضامین میں اس کی تردید کی ہے کہ یہ (چُری ) اور خیرات یہودیوں نے حضور کی بیماری کی خوشی میں کی تھی اور مسلمانوں میں یہ رسم (وہاں ) سے منتقل ہوگئی ہے، اس کی وضاحت فرمائیے؟
          الجواب: چونکہ چُری نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ آثار اور کتبِ فقہ سے لہٰذا اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعتِ سیئہ ہے اور رواج کی نیت سے کرنا رسمِ قبیحہ اور التزام ما لا یلزم ہے، نیز حاکم کی روایت میں مسطور ہے کہ حضور   کی بیماری کے آخری بدھ میں زیادتی آئی تھی اور عوام کہتے ہیں کہ بیماری میں خفت آگئی تھی اور عوام حضور   کی طرف نسبت کرتے ہیں کہ ’’انہوں نے چُری مانگی ‘‘ اور یہ نسبت وضع حدیث اور حرام ہے(فتاویٰ فریدیہ)۔
    چُری کے با رے میں دلائل من گھڑت ہیں:
         سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ، مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
    صفر کے آخری بدھ کو جوچُری کی جاتی ہے، اس کے جواز میں 2 دلائل پیش کیے جاتے ہیں: (1)کہ نبی اکرم   صفر کے مہینے میں بیمار ہوئے تھے،پھر جب اس مہینے میں صحت یاب ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے شکریہ میں خیرات و صدقہ کیا ہے (2)حضور جب اس مہینے میں بیمار ہوئے، تو یہود نے اس کی خوشی ظاہر کرنے کے لئے اس مہینے میں خیرات کیا اور خوشی منائی، لہٰذا ہم جو یہ خیرات کرتے ہیں یا تو اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے خیرات کی تھی یا یہود کے مقابلے میں کہ جو انہوں نے خوشی منائی تھی، ہم قصداً ان سے مقابلے میں تشکر ِ نعمت کے لئے کرتے ہیں، لہٰذا علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ یہ دلائل صحیح ہیں یا غلط؟
          الجواب:ثواب کی نیت سے چُری کرنا بدعت ِسیئہ ہے کیونکہ غیر سنت کو سنت قرار دینا غیر دین کو دین قرار دینا ہے ، جو کہ بدعت ہے، ان مجوزین کے لئے ضروری ہے کہ ان احادیث ِ مذکورہ کی سند ذکر کریں اور یا ایسی کتاب کا حوالہ دیں جو کہ سندِ احادیث کو ذکر کرتی ہو یا کم ازکم متداول کتبِ فقہ کا حوالہ ذکر کریں۔
          مزید بریں! یہ کہ حاکم نے روایت کی ہے کہ پیغمبر   آخری چہار شنبہ(بدھ) کو بیمار ہوئے، یعنی بیماری نے شدت اختیار کی اور تاریخ میں یہ مسطور ہے کہ یہود نے اس دن خوشی منائی اور دعوتیں تیار کیں اور یہ ثابت نہیں کہ اہلِ اسلام نے اس کے مقابل کوئی کارروائی کی ۔وَھْوَالْمْوَفِّقْ (فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ )۔
    سوال:  چُری کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور اس کی خوراک کھانا کیا حکم رکھتا ہے؟
      الجواب:چُری بقصدِ ثواب مکروہ ہے البتہ عوام کے لئے اس کا کھانا مکروہ نہیں(فتاویٰ فریدیہ، کتاب السنۃ و البدعۃ )۔
     سوال: جناب مفتی صاحب ! بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کچھ لوگ ماہِ صفر المظفر کے آخری چہارشنبہ( بدھ) کو خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ  کو مرض سے شفاء ہوئی تھی اور اس دن بلائیں اوپر چلی جاتی ہیں اس لئے اس دن خوشیاں مناتے ہوئے شیرینی تقسیم کرنی چاہیے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ماہِ صفر میں اس عمل کا شرعاً کیا حکم ہے؟
          الجواب:ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامْ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ کو اس دن مرض سے شفاء یابی ہوئی تھی بلکہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ28صفر کو آنحضرت بیمار ہوئے تھے۔مفتی عبدالرحیم ؒ  فرماتے ہیں’’مسلمانوں کے لئے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں‘‘۔’’شمس التواریخ‘‘وغیرہ میں ہے کہ 26صفر 11ھ پیر کو آں حضرتنے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور27صفر منگل کو اْسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے۔28صفر چہار شنبہ کو اگرچہ آپ بیمار ہوچکے تھے لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اْسامہ کو دیا تھا۔ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور جمعرات میں آپ کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ اسی دن عشاء سے آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا (شمس التواریخ)۔
          اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ28 صفر کو چہار شنبہ (بدھ) کے روز آنحضرت کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا۔یہ دن مسلمانوں کے لئے تو خوشی کا ہے ہی نہیںالبتہ یہود وغیرہ کے لئے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے۔اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعۃ والرسوم وکذا فی فتاویٰ رحیمیہ،ما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ)۔
          حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف ’’سیرت المصطفیٰ ‘‘ میں لکھتے ہیں :
          ’’ ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ  ایک بار شب کو اْٹھے اور اپنے غلام  ابو مویہبہ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لئے استغفار کروں۔ وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعۃً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا۔‘‘
          سیرۃ النبی  میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    ’’ صفر11ہجری میں آدھی رات کو آپ جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے۔وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا۔ یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روزبدھ تھا۔‘‘
          اسی کے حاشیہ میں ’’علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ‘‘ لکھتے ہیں:
          ’’اس لئے13 دن مدتِ علالت صحیح ہے، علالت کے 5 دن آپ نے دوسری ازواج کے حجروں میں بسر فرمائے، اس حساب سے علالت کا آغاز چہار شنبہ (بدھ) سے ہوتا ہے۔‘‘ ( حاشیہ سیرۃ النبی)۔
    سیرۃ خاتم الانبیاءمیں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
    ’’ 28صفر11ہجری چہار شنبہ کی رات آپ قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لئے دعا ئے مغفرت کی اور فرمایا:اے اہلِ مقابر!تمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیونکہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں۔وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق 13 روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی‘‘۔
    خلاصۂ بحث:
          قسطِ اولیٰ کے آغاز میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق ’’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃ‘‘( جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا ،میں اْسے جنت کی خوشخبری دوں گا) والی روایت ثابت نہیں بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے، اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیز! ماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں اور اس دن نبی اکرم   کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔
    لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور قدرت بھر دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔

 

شیئر: