اسامہ الطاف۔جدہ
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا شمار ائمہ سلف میں ہوتا ہے۔آپ ؒ کی زندگی ایک مسلمان کی مثالی زندگی کا نمونہ تھی۔خیر کی طرف سبقت کرنا اور رضا الہٰی کے حصول کے خاطر جدوجہد کرناآپؒ کی زندگی کا شعار تھا۔خاص طور پر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا توگویاآپؒ کے مزاج میں شامل تھا۔اس ضمن میں ابن مبارکؒکے مواقف ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن المبارکؒ جب فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے عازم سفر ہوتے تو شہر کے کچھ لوگ آپؒ کے ہمراہ سفر کرنے کی خواہش کرتے جس پرابن المبارک ؒ آمادہ ہوجاتے ۔جب سفرِ حج کا آغاز ہوا تو ابن مبارکؒ اپنے ساتھیوں کا زاد راہ ایک صندوق میں جمع کرتے۔دوران سفر آپؒ ساتھیوں کی خوب تواضع اور اکرام کرتے،ان کے لئے بہترین طعام و لباس کا انتظام کرتے۔
جب قافلہ مدینہ منورہ پہنچتا تو ابن مبارکؒ اپنے ساتھیوں سے دریافت کرتے کہ ان کے گھر والوں نے مدینہ منورہ سے کن اشیاء کی فرمائش کی تھی۔وہ اشیاء اپنے ساتھیوں کو فراہم کرتے،پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر بھی یہی معاملہ ہوتا۔انہوں نے تمام ساتھیوں کے اہل خانہ کی مطلوبہ اشیاء ان کو فراہم کرتے۔واپسی کے سفر میں بھی آپؒ اپنے ساتھیوں پر خوب خرچ کرتے۔جب سفر اختتام پذیر ہوتااور قافلہ اپنے مقام کو پہنچتا تو ابن المبارکؒحج ادا کرنے کی خوشی میںاپنے ساتھیوں کے گھروں کی آرائش کرتے۔واپسی کے 3 دن بعدابن مبارکؒ تمام ساتھیوں کی دعوت کرتے اور دعوت کے اختتام پر تمام ساتھیوں کا زاد راہ (جو سفر کے آغاز میں جمع کیا گیا تھا )ان کو واپس کردیتے۔
اسی طرح منقول ہے کہ ابن مبارکؒ درس و تدریس کے سلسلہ میں شام کے شہر رقہ جاتے تھے ۔رقہ میں ایک نوجوان آپؒ کے درس میں پابندی سے حاضر ہوتا اور آپؒ کی خدمت میں پیش پیش ہوتا۔ایک مرتبہ عبداللہ بن مبارکؒ حسب معمول رقہ گئے تو نوجوان کو نہیں پایا۔ ابن مبارکؒ اس وقت عجلت میں تھے،ان کو سفر پر روانہ ہونا تھا۔سفر سے واپسی پر ابن مبارکؒ نے رقہ کا رخ کیا اور نوجوان کے متعلق دریافت کیا۔لوگوں نے بتایا کہ نوجوان مقروض ہے اور قرض ادانہ کرنے کی وجہ سے گرفتار ہے۔ابن مبارکؒنے یہ سنا تو صاحب حق (قرض دار) کی تلاش میں نکل پڑے،بالآخر قرض دار مل گیا۔ابن مبارکؒ نے قرض کی قیمت دریافت کی۔قرض دار نے بتایا کہ 10ہزار درہم نوجوان کے ذمہ ہیں۔ابن مبارکؒنے تمام قرض ادا کیا اور قرض دار کو خبردار کیا کہ نوجوان کوان( ابن مبارکؒ)کی زندگی میںعلم نہ ہو کہ قرض کس نے ادا کیا۔
اگلے روز نوجوان رہا ہوا تو لوگوں نے اس کوبتایا کہ ابن مبارکؒ اس کے متعلق دریافت کر رہے تھے اور اب وہ شہر سے روانہ ہوچکے ہیں۔نوجوان دوڑ کر ابن مبارکؒکے پاس پہنچا۔ابن مبارکؒنے نوجوان کے حال احوال دریافت کیے،نوجوان نے قرض کا اور قرض ادا کرنے والے کا قصہ سنایا۔ابن مبارکؒ نے خوشی کا اظہار کیا اور نوجوان کو محسوس نہیں ہونے دیا کہ انہوں نے ہی اس کا قرض ادا کیا ہے۔
عبداللہ بن مبارکؒ کی طرزِ زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے اور مذکورہ قصے ہمارے لئے قابل اتباع ہیں۔ابن مبارکؒکے نقش قدم پر چلنا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ارادہ کو عملی شکل دینا انتہائی آسان ہے۔اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں۔مثال کے طور پر ہم اپنا معمول بنالیں کہ مہینہ کے آغاز میں ہم( جس طرح کرایہ،فیس وغیرہ کیلئے گھریلو بجٹ میں رقم مختص کرتے ہیں،اسی طرح) صدقہ کے لئے بھی مہینہ کے آغاز میں ہی رقم مختص کرلیں۔یہ آمدن میں برکت کا بھی سبب ہوگا۔حضور اقدسنے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔یہ آسان نیکیاں ہیں،اور ان کا اجر بہت زیادہ ہے۔اگر اس آسان عمل کو اپنا معمول بنالیں تو یہ ہمارے نجات کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔