Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

8ہزار برس قدیم تہذیبوں و ثقافتوں کا مرقع جازان

چوتھی صدی ہجری میں سلیمان بن طرف نے حکومت قائم کی جو 453ہجری تک رہی
اسامہ الطاف ۔جدہ 
دنیا کی ہر قوم کی اپنی خاص شناخت ہوتی ہے۔قومی شناخت میں قومی تہذیب و ثقافت کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔اسلامی ممالک کویہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی شناخت ،تاریخ و ثقافت مشترکہ ہے،جس کی اصل و اساس دین اسلام پراستوار ہے۔دور حاضر میں علمی ترقی اور جدید ایجادات کے باعث ہمیں قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں سے آشنا ئی ممکن ہوگئی ہے۔گاہے بگاہے ارضیات کے ماہرین ایسے تاریخی مقامات کا انکشاف کرتے ہیں جو کسی زمانے میں تہذیب و تمدن کامرکز تھے۔ان انکشافات سے ہمیں قدیم ثقافتوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے رہن سہن اور ان کے علمی مقام کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے جنوب میں واقع صوبہ جازان قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مرقع سمجھا جاتا ہے۔بعض روایات کے مطابق جیزان کی تاریخ 8000سال قدیم ہے۔تاریخی کتب کے مطابق اس علاقے کا قدیم نام مخلاف حکم اور مخلاف عثر تھا۔ان ناموں کی نسبت وہاں پرسکونت اختیار کرنے والے قبائل سے تھی۔بعد ازاں چوتھی صدی ہجری میں سلیمان بن طرف دونوں مخلافوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگیااور یوں پورے علاقے کو المخلاف السلیمانی کا نام دے دیا گیا۔ یہ نام 14ویں صدی ہجری تک معروف رہا۔
جازان کے قدیم علاقوں میں شہر "عثر"کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔یہ شہر جازان شہر کے شمال مغرب میں 40کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔چوتھی صدی ہجری میں سلیمان بن طرف نے یہاں حکومت قائم کی اور اس کی حکومت 453ہجری تک جاری رہی۔اس زمانے میں عثر شہر کی بندرگاہ تجارتی اہمیت کی حامل تھی چنانچہ عثر کا سالانہ تجارتی ریونیو 5لاکھ دینار تھا۔
عباسی دور حکومت میں اس علاقے پر توجہ دی گئی جس کے باعث تجارتی سرگرمیاں تیز ہوگئیں اوریہ علاقہ خوشحال ہوگیا۔اس علاقے میں موجود بندر گاہ کا تجارتی کردار جزیرہ عرب کو افریقہ سے جوڑ نے میں اہم تھاچنانچہ افریقہ میں تجارتی آمد و رفت اسی بندگاہ کے ذریعے ہوتی تھی۔ سلیمان بن طرف کی حکومت کے بعد یہاں کئی حکومتیں قائم ہوئیں۔اسود العنسی کا شمار اس علاقے کے معروف حکام میں ہوتا ہے۔
عثر شہر کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے باوجود ناگزیر اسباب کے باعث تاریخی ذرائع کے مطابق یہ علاقہ 7ویں صدی ہجری کے بعد ویران ہوگیاتاہم اس علاقے سے متعلق تاریخی اور قدیم آثار کے انکشافات گاہے بگاہے ہوتے رہتے ہیں۔جازان کے علاقے میں اس شہر کے علاوہ دوسرے کئی ایسے مقامات ہے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ابو عریش قلعہ کا شمار ان تاریخی مقامات میں ہوتا ہے ،اس قلعے کی تعمیر 990ہجری میں کی گئی۔ یہ عثمانیوں کے زیر استعمال رہا۔اس قلعے کے قریب واقع مسجد القبب بھی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔اس مسجد کے 18گنبد ہیں اور یہ تین صفوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح ہر صف پر 6گنبد ہیں۔اس مسجد کی تعمیر 1002ہجری میں کی گئی اور یہ قدیم تعمیر کے باوجود آج تک قائم ہے۔
جازان کے مشہور شہر صبیا میں بھی تاریخی مقامات پائے جاتے ہیں۔قریباً ایک صدی قدیم ادارسہ کے محلات اور گھراسی شہر میں واقع ہے۔جازان سے ملحق جزیرہ فرسان بھی تاریخی اور سیاحتی اہمیت کے حامل ہے ۔ان جزیروں کی قدرتی خوبصورتی کے علاوہ یہاں کے تاریخی مقامات بھی قابل دیدہیں۔قلعہ عثمانیہ جزیرہ فرسان میں 1250ہجری میں عثمانیوں کی جانب سے بنایا گیا تھا۔قلعہ ایک مکمل فوجی چھاﺅنی تھا جس میں عسکری آلات کے علاوہ فوجیوں کے قیام کا بھی انتظام تھا۔سعودی حکومت نے قلعے کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اس کی تجدید کی اورقلعے کو عجائب گھر بنا دیا جہاں پورے علاقے کی تاریخ کو اجاگر کیا گیا ہے۔
 

شیئر: