سیدہ دردانہ پرویز۔الخبر
اسلام کی برکتوں کا حصول شیطانی تہذیب و تمدن ترک کرنے میں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج سے 14 سو برس قبل جب اسلام کا سورج اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ مکہ کی وادیوں میں طلوع ہوا تو اس کی روشنی چہارسو پھیل گئی۔اس معاشرے میں جہاں صرف طاقتور ہی کا بول بالا اور اسی کا سکہ رائج تھا،اس دین کے آنے کے بعداس ظلم کا خاتمہ ہوا ۔ انسانیت کو قرار میسر ہوا ،ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا اور معاشرے کے ہر طبقے کو انصاف ملا۔
اسلام کی برکتوں کا خصوصی فائدہ معاشرے میں پسی ہوئی مظلوم عورت کو پہنچا اور اسے وہ تمام حقوق ملے جو بحیثیت ایک انسان اس کا حق تھا۔ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہم اس کے عملی ثبوت بھی دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پھیلنے اور اسے قبول کرنے کے بعد اس وقت کی عورت حقوق حاصل کرنے کی جنگ نہیں لڑ رہی تھی بلکہ اللہ رب العزت کے دیئے گئے حقوق نسواں سے پوری طرح نہ صرف بہرور تھی بلکہ ان تمام حقوق کو پورے اعتماد کے ساتھ استعمال کررہی تھی ۔ عورت اس حد تک اپنے آپ کو محفوظ اورباہمت محسوس کرتی تھی کہ شوہر کی بے اعتنائی یا جائز حقوق نہ ملنے کی شکایت کا شانۂ نبوت تک خود جاکرپہنچا دیتی تھی ۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ قرون ِاولیٰ کے مسلمان اصحاب رسول بھی قرآن مجید کاپورا پورا شعور رکھتے تھے اور اس پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرتے تھے تو دنیا نے وہ مثالی معاشرہ بھی دیکھ لیا کہ جہاں سب ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھتے چاہے وہ معاشی ہوں، تجارتی، یا گھریلوہوں، ایک دوسرے کے ساتھ باہمی رواداری برتتے ہوئے ادا کرتے تھے۔
وقت کبھی ایک جگہ ٹھہرتا نہیں، یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنی شفقت و محبت کرتے ہوئے اپنے آخری نبی محمد کے ذریعے ایک عظیم بابرکت کتاب قرآن پاک بھیجی اور یہ ہم سب نے مشاہدہ کیا کہ جب تک ہم عملی طور پر اس سے جڑے رہے ہمارے گھر، معاشرے اور سیاست سب پر ہماری دھاک، ہمارا دبدبہ برقرار رہا اور آسمان و زمین کی تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمارے قدموں میں ڈال دیں۔ اگر ہم ان نعمتوں کا شکر کرتے رہتے اور کتاب اللہ اور سنت رسول پر قائم رہتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا جس کا تصور بھی قرونِ اولیٰ میں ممکن نہ تھا۔ سب سے پہلے ہم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے اپنا تعلق کمزور کیا اور اس کو صرف عبادات اور مذہبی رسوم و رواج کی حد تک اپنی زندگی میں شامل رکھا لہذا اس کے نتیجے میں ہمارے اندر جو کمزوریاںدرآئیں اور شیطان نے جس طرح ا للہ کے سامنے عہد کیا کہ وہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں مداخلت کرکے اسے آلودہ کردے گا، وہ عہد آج سچا ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے۔جب بھی ایک مسلمان چاہے وہ معاشرے میں کسی بھی حیثیت میں ہو، کس طرح ان شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار ہوتا ہے اس کی مثال دیکھتے چلیں:
سب سے پہلے ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ ا للہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر شیطان کی کوئی چال ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن کیونکہ یہ دنیا دارُ الامتحان ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو واضح ہدایت کتابِ مبین دے چکا ہے جس میں اس کا فرمان ہے کہ ’’پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی، یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا (الشمس10-8) اب یہ جو ہمیں اختیار دیا گیا ہے یہی ہماری مہلت ِعمل ہے کہ ہم کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
ازروئے قرآن پاک شیطان کے متعدد حربے ہیں کہ جن کے ذریعے وہ انسانوں کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے حملے کرتا ہے جن کو ہم خالص نفسیاتی حربے کہہ سکتے ہیں۔ مثلاً ازروئے قرآن وہ ہمارے دلوں کودنیا کی محبت ڈالتا ہے۔یہ شیطان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ ہمارے دلوں میں اس دنیا کی شدید محبت ڈال دینا اور یہ تصور راسخ کردینا کہ ہمیں یہاں طویل قیام کرنا ہے لہذا فکر کس بات کی ہے اور اللہ تعالیٰ تو غفور الرحیم ہے لہذا اس کی صفت کیونکہ درگزر ہے لہذا ہم جب چاہیں اس سے معافی تلافی حاصل کرلیں گے ۔
بے شک اس کی رحمت وسیع ہے لیکن کیا وہ ہمارے دلوں کے حال نہیں جانتا کہ ہم کس کے کہنے پر آکر دنیا کی لذت میں ایسے مشغول ہوگئے کہ ہمارے اندر سے وہ خوف نکل گیا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہم سے ہمارے کئے گئے اعمال کی بازپرس ہوگی کہ تم نے دنیا کی محبت میں مبتلا ہوکر فرض عبادتوں سے غفلت برتی تھی،مال و زر کی ہوس میں مبتلا ہوگئے،جاہ و حشمت کا حصول ہی مقصد زندگی بن گیا،اولاد کی محبت میں حلال رزق سے دور ہوگئے اورفخرو غرور نصب العین بن گیا۔
شب بیداریاں اور نوافل کا اہتمام یقینا ہر زمانے کے اہل ایمان و تقویٰ کا شعار رہا لیکن ہم یہاں عام مسلمانوں کی حالت زار پر اگر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسلامی اقدار کو چھوڑنے کے عمل کے باعث وہ جو ہمارے اندر ایک پختہ تربیت کے اثرات ہوتے تھے کہ نماز پابندی سے پڑھنا ہے، ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ یہی ہماری سب سے بڑی بدنصیبی ہے کہ اللہ کے سامنے5 وقت کی حاضری کا فقدان بڑھتا گیا اور خوف الٰہی رخصت ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ‘‘(العنکبوت45)اب اگر نمازوں کی جہاں پابندی ہے، وہاں مقصدیت نہ ہونے کی وجہ سے فواحش و منکرات کہ جن کا نہ ختم ہونے والا سیلاب آج کے سب سے طاقتور ہتھیار میڈیا کے ذریعے زہرہلاہل کی مانند آج کی نوجوان نسل کے خون میں دوڑ رہا ہے لہذا یہ سب پر انفرادی و اجتماعی طور پر فرض ہے کہ اپنے گھروں اور علاقے میں نماز باجماعت کی نہایت حکمت کے ساتھ نصیحت کی جائے ۔ اہل قلم عام لوگوں کی زبان و فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لکھیں۔
حب مال کے بارے میں آپ کا فرمان حضرت کعب بن عیاضؓ سے مروی ہے کہ’’ ہر امت کیلئے ایک فتنہ ہوتا ہے (یعنی ایسی چیز جس کے ذریعے سے اس کو آزمایا جاتا ہے) اور میری امت کیلئے فتنہ (آزمائش ) مال ہے‘‘ (ترمذی)آج امت مسلمہ میں جو بڑے بڑے فتنے نظر آرہے ہیں ان میں ہوسِ مال اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ آپ نے کس قدر دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا کہ فقرو فاقہ بدرجہ بہتر ہے کہ انسان مال کے حصول کو زندگی کا معیار بنالے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مال کمانا جائز ہے اوراس حلال مال سے زندگی کی سہولتیں حاصل کرنا معیوب نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج جو صورتحال اجتماعی طور پر ہم اپنے اسلامی معاشروں میں دیکھ رہے ہیں وہ باعث شرم ہے۔
ہم انفاق فی سبیل اللہ، بیواؤں یتیموں ، مسکینوں، بیماروں کی مدد سے حد درجہ غافل ہوچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کو یکسر فراموش کرچکے ہیں کہ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے‘‘(البقرہ195) اب اس حربے میں ہماری عزت مآب اشرافیہ بھی آگئی کہ جن کے ہاتھوں میں اختیارات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور دوسری جانب عوام الناس بھی کہ جو صاحب ثروت ہیں وہ شاید اس آیت ربانی کو بھول گئے کہ ہمارے مال و دولت میں ان سائلوں کابھی حق ہے ۔
اگر ہم بغور اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہمیں آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ انفرادی طور پر ہمیں بہت مختصر وقت اور مہلتِ عمل کیلئے دیا گیا ہے۔ ہمارے سامنے خیرو شر، نیکی و بدی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اختیار اس مہلت عمل میں ہمارے پاس ہے لہذا چند روزہ دنیا کے لئے جس میں ہمیں قلیل وقت گزارنا ہے ہم اپنا وقت یہاں کی ناپائیدار شہرت کے پیچھے کیوں ضائع کریں اور اس عظیم مقصد کو فراموش کر بیٹھیں کہ جس کیلئے خالق کائنات نے ہمیں اس چمکتی دمکتی دنیا میں بھیجا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دل میں اولاد کی محبت ودیعت کی ہوئی ہے ۔ ماں باپ خود ہر تکلیف برداشت کرلیں گے لیکن ان کی خواہش ہوگی کہ ان کی اولاد ہر دکھ اور تکلیف سے محفوظ رہے۔ اب ذرا آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف تو ہم اپنی اولادوں کو زندگی کی تمام آسائشیں دینا چاہتے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قلیل مدت تک ہی ان کے کام آئیں گی لیکن اس کے باوجود ہم اپنی پوری زندگی اس جستجو میں لگا دیتے ہیںکہ کیسے دنیا کی تمام آسائشیں ان کو فراہم کریں اور جب ہم اپنے جائز مالوں سے یہ کام پورا نہیں کر پاتے تو ناجائز ذرائع کا حصول اپنالیتے ہیں اور یہیں آپ ایک لمحہ کیلئے رک جائیں اور سوچیں کہ حرام مال کے ذریعے پرورش پانے والی اولاد کیا ہمارے لئے صدقہ جاریہ ثابت ہوگی اور خود اس اولاد کی زندگی ٹھیک راستے پر چل سکے گی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ بیری کابیج بوکر آم نکلنے کی خواہش کریں۔
لہذا حلال کمائی سے اولاد کی پرورش کرنا اور محض اس فانی دنیا کے چند روزہ آسائشوں کے پیچھے ہمیں اپنی آخرت نہیں بھولنی چاہئے کہ جو ہمیشہ قائم رہنے والی اور جنت کے حصول کا ذریعہ یہی ہماری دنیا ہے جو کہ ایک دارالامتحان ہے کہ یہاں پر زندگی گزارتے ہوئے قسم قسم کے فتنوں سے ہماری آزمائش ہوتی ہے لہذا یہاں کی منزلوں کو کامیابی کے ساتھ طے کرنے کا ذریعہ بجز تربیت ِصالحہ، صالحین کی صحبت، قرآن پاک پر اس کے احکاماتِ عالیہ پر تدبر، آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی ذریعۂ نجات کا سبب بن سکتی ہے۔
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ شیطان کے مکرو ہ فریب جتنا خواتین پر اثر انداز ہوتے ہیں اتنا مردوں پر نہیں ہوتے ،اس کے کئی اسباب ہیں۔ عورتیں جذباتی اور حساس طبیعت کی حامل ہوتی ہیں۔ عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیںکیونکہ خصوصاً ہمارا مسلمان معاشرہ دوسری تہذیبو ں سے کافی حد تک متاثر ہوچکا ہے لہذا ہمارے مسلمان معاشروں میں خواتین کو ان کے وہ تمام حقوق نہیں دیئے جاتے جو کہ قرونِ اولیٰ کی خواتین کو میسر تھے لہذا ایسے میں شیطاطین کیلئے میدان کافی وسیع بن جاتا ہے اور وہ تمام کیل کانٹوں سے لیس ہوکر ظاہری چمک دمک میں لپیٹ کر ایسی ایسی شکلوں میں آتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔