Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمان بالغیب کا مظہرِ اتم ، نماز

ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔مکہ مکرمہ
    

اسلام درحقیقت اپنے آپ کو مکمل طورپر سپرد کردینے کا نام ہے ۔خود کواللہ کے حوالے کردینااور اسی کے آگے سر تسلیم خم کردینا ۔ یہ تسلیم باطن سے بھی ہو کہ بندہ احکام شریعت کو دل سے ماننے والا ہو اور ظاہر سے بھی کہ وہ ان احکام شریعت کو پابندی سے مطلوبہ طریقہ سے اداکرنے والا بھی ہو ۔ اسلام وتسلیم کے بعد یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ احکام شریعت کی تعمیل ،ایک طرف تو بندے کو بندگی میں کمال بخشتی ہے کہ یہ معبود ِبرحق کا وفاشعار بندے کی دلیل ہے ،ساتھ ہی یہ بندے کے صلاح کی بھی علامت ہے ۔گویا احکام ِ شریعت کی تعمیل سے اصل فائدہ اور نفع بندے ہی کا ہے کہ وہ اسے کامل عبد اور صالح فرد بنادیتے ہیں۔یہ بھی علم رہے کہ بندگی اور صلاح میں اہل کمال، یعنی اللہ کے احکام کی تعمیل کا کامل نمونہ حضرات انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیںلہذا وہ عبودیت اور صلاح کے اعلیٰ درجے اور مقام پر فائز ہوتے ہیں ۔جس قدر امتی ان کی اتباع میں ان کے قریب ہوگا ،اسی قدر حصہ عبدیت اور صلاح میں اسے حاصل ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ نبی اپنے آپ کو اول المسلمین ہونے کا اعلان کرتاہے کیونکہ وہ اسی بات کا مامور ہوتاہے ۔سید الرسل ،خاتم النبیین جناب محمد رسول اللہ   اپنے اسی کمال کو یوں بیان فرماتے ہیںاور اللہ تعالیٰ انہیں اسی اعلان کا یوں حکم دیتا ہے ’’کہو ، میری نماز، میرے تمام مراسم ِعبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِاطاعت جھکانے والامسلم میں ہوں‘‘(الانعام163,162)
     احکام شریعت کی تعمیل کا ثمر ،حضرت انسان ہی وصول کرتاہے ،دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔پھر بندہ اپنی خوشی سے، کمالِ قناعت سے، اپنے قلب وقالب ،اپنے ظاہر وباطن اور مکمل اطمینان اور پوری بصیرت سے سر تسلیم خم کیوںنہ کرے؟ اپنے اس رب کے آگے جو رب العالمین اور اعلم العالمین ہے ۔جملہ اہل ایمان کو ،اہل دعوت کو،خواص وعوام کو، جملہ اہل اسلام کو اس بات کا استحضار رہے کہ جو کچھ اللہ نے ہمارے اندر علم ،قوت،فہم،ادراک وغیرہ جیسی صفات رکھی ہیں ان میں کمال صرف اور صرف ہمارے رب ہی کیلئے ہے ۔ہمارا اپنے آپ کو اس کے سپرد کردینا ہمارے ہی فائدے اور مصلحت کے لئے ہے ۔یہ شعور بھی رہے کہ ہماری اس سپردگی میں ، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے میں جس قدر کمال ہوگا وہ ہمار ے کمال عبدیت کا موجب ہوگااور جس قدر اس میں خلل ہوگا ،کمی ہوگی ،ضعف ہوگا وہ ہمارے مقام عبدیت میں نقصان ہے جو ہمارے اندر نقص شمار ہوگا۔ہمارے سامنے سر تسلیم اور خود سپردگی کا نمونہ وہ ذات عالی ہے جن کا اعلان ہم نے سنا کہ میری ہرچیز اللہ کیلئے ہے اور میں اول المسلمین ہوں۔
    ہمارے باطن کے کمال ،اس کی اصلاح ،اس کی تسلیم اوراس کی طہارت وتزکیہ کے احکام یعنی ایمانیات واخلاقیات کے بارے میں ہم اس سے قبل تحریر کرچکے ہیں، اب ہم ظاہری احکام شریعت یعنی عبادات ومعاملات کے بارے کچھ عرض کرتے چلتے ہیں ۔یاد رہے کہ احکام شریعت کی تیسری قسم عبادات کہلاتی ہے ۔شہادت توحید ورسالت کے بعد اسلام کا دوسرا رکن اور عبادات میں اولین رکن نماز ہے جسے شارع علیہ السلام نے’’ عماد الدین ‘‘سے تعبیر فرمایاہے اورعماد وہ ستون ہے جس پر اس شے کا مدار ہوتاہے اورجس کے تزلزل سے اس کی پوری عمارت میں تزلزل ہوتاہو۔
    دین میں نماز کی اہمیت اورا س کے فضائل سے پہلے ہم اس عظیم رکن کی ہیئت و وضع کے بارے یہ عرض کریں گے کہ نماز اولاً ایمان بالغیب کا مظہر اتم ہے ۔غورکریں کہ یہ بندے اور رب کے مابین براہ راست رابطہ اور اظہار تعلق کا عظیم الشان مظہر ہے ،مؤمن کے باطن کی شہادت حق اور ایمان بالغیب کا عملی مظاہرہ ہے ۔ نمازی اس کا وقت آنے کے بعد تمام مخلوقات سے لا تعلق ،جملہ مخلوقات کی عظمت دل سے نکال کر اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتاہے ۔قلب سے نیت ،ہاتھ سے اشارہ ،زبان سے ’’اللہ اکبر ‘‘ بول کر جب نمازی اپنی نماز میں داخل ہوتاہے تو لوگ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ مخلوق کو چھوڑ کر ،اپنے اشغال سے نکل کر ،اپنے اقوال،اپنے افعال اور اعمال سے کلی فارغ ومتفرغ رب العالمین اور مالک الملک کے دربار میں کھڑا ہے۔اس کا احکم الحاکمین کے دربار میں پہنچنا بغیر تکلیف کے ،بغیر تکلف کے ،بغیر پروٹوکولز کے مراحل کے فوراً وہ مالک الملک سے مخاطب ہے ۔ہاں اس کیلئے صرف اتنا ضروری ہے کہ لباس طاہر ہے ،جسم طاہر ہے ،رخ اس کا قبلہ طاہرہ کی طرف ،اللہ کی پوری سرزمین اس کی مسجد ہے ۔نہ طویل وعریض تکلفات، نہ تکالیف۔غور کریں کہ نماز میں نمازی اپنے رب سے ایسے گفتگو کررہاہے جیسے متکلم اپنے حاضر وموجود مخاطب سے ہم کلام ہو ۔وہ اسی سے تو ’’سبحانک‘‘ کہہ کر مخاطب ہے ، اسی سے ’’بحمدک ‘‘کہہ رہا ہے ،اسی سے’’ تبارک اسمک‘‘ عرض کر رہا ہے،  اسی کو’’لا الہ غیرک ‘‘سے پکاررہا ہے اور ’’ایاک‘‘سے خصوصی طورپر مخاطب ہے ۔ الغرض نماز ایمان بالغیب کا مظہر اتم ہے جس کا مشاہدہ ہر ایک کرتاہے ۔ ہر نمازی جو مرید ہے اور اللہ اس کا رب ہے ،اپنی اس عظیم عبادت میں وہ اپنے اور دیگر تمام بندوں کے آغاز ومبدأ کے استحضار کے ساتھ ہے،غافل نہیں، نماز میں اسی اللہ کی ربوبیت کا اعلان کررہاہے پھر وہ اس کے بعد اپنی زندگی کے تمام آئندہ مراحل اور زندگی کے جملہ مواقف کو سامنے رکھ کر اس اللہ سے صراط مستقیم پر استقامت مانگ رہا ہے ، بات صرف یہاںکی ہی نہیںکررہا بلکہ آگے کی بھی ہے، وہ تو یوم الدین کے تصور کے ساتھ ہے، وہ نماز میں اپنے منتہا کو بھی سامنے رکھے ہوتاہے ۔نماز میں انسان کے مبدأ ،انسان کی منتہا او ران دونوں کے مابین یہ دنیا کی پوری زندگی میں اس کے طرزحیات کا نقشہ رسم ہوتاہے لہذا نماز انسان کے اندر شہادت کا کامل ترین مظہر ہے ۔ہر موقف پر بندے کی طرف سے حق پر استقامت کے عہد وپیمان کا اعلان ہے ۔ ان سب امور میں اللہ سے لینے کا ،اسی کی معیت کے حصول کا آسان ترین راستہ ہے۔اسی لئے نبی کریم نے فرمایا’’یہ دین کا ستون ہے ۔گویا دین اسلام کی جملہ عبادات کا اسی پر مدار ہے ،نماز کی اقامت میں دین کی اقامت ہے ۔
    قرآن حکیم نے جہاں نماز کا ذکر کیا یا نمازیوں کا ذکر کیا تو انہیں’’ اقیموا ‘‘یعنی قائم کرو ،’’یقیمون ‘‘ یعنی وہ قائم کرتے ہیں ’’والمقیمین الصلاۃ‘‘ یعنی وہ نماز قائم کرنے والے ہیں کہا ۔ اس عمود کی درستگی سارے دین کی درستگی کی کفیل ہے۔ قرآن حکیم نے تو نماز پر ایمان کا اطلاق بھی فرمایا ہے ۔ارشاد ربانی ہے’’اللہ تمہارے ایمان کو ہرگزضائع نہ کرے گا‘‘(البقرہ143)یہاں مراد صحابہ کرام ؓ کی وہ نمازیں ہیں جو انہوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کے حکم سے پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے اداکی تھیںتو لفظ ایمان کا نماز پر اطلاق یہ بتاتا ہے کہ تمہارے ایمان بالغیب کا مظہر اتم یہ نماز ہے ۔غیبیات کے پورے سلسلے کے استحضار کا مقام ہے ۔نمازی اپنے رب سے اسے آنکھ سے دیکھے بغیر مخاطب ہے ۔وہ ان دیکھی جہنم سے پناہ طلب کرتاہے ، وہ ان دیکھی جنت کا طالب ہے، وہ ان دیکھی قیامت کا بار بار ذکر کرتاہے۔ نمازی نماز میں آغاز سے آخر تک غیبیات کے عالم میں ہوتاہے ۔
     سورہ فاتحہ میں غیبی امور کا ذکر ہے۔فاتحہ کے بعد قرآن کی جو سورت اختیار کرے گا اس میں غیبی امور(ملائکہ ،جنت ،جہنم ، رسل، کتب ، ایام اللہ، اقوام سابقہ کے ساتھ سنت اللہ ) اس بات کی دلیل ہے کہ نماز جملہ ایمانیات کا نقطہ ارتکاز ہے پھر یہی نماز ایمان وکفر کے مابین بھی اسی وجہ سے حد فاصل ہے ۔توحید وشرک کے مابین بھی اسی وجہ سے حد فاصل ہے ۔ اسی اعتبار سے نبی کریم   کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ’’آدمی کا نماز ترک کرنا کفر ہے‘‘جب غیبیات کا ماننا ہی ایمان وتوحید ہے تو ترک نماز ترک غیبیات ہے ۔نماز میں مشغولیت در اصل مشاہدات سے نکل کر غیبیات میں داخل ہوناہے ۔ نبی کریم نے ایسی ہی حالت کو واضح کرنے کے لئے فرمایا’’تم اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘‘جو مانگ رہے ہو وہ غیب، جس سے مانگ رہے ہو وہ بھی غیب،یہ پورا سلسلہ غیبیات ہے ،اسی لئے آنحضرت نے فرمایا کہ نماز حدفاصل ہے بندے کے کفر اور ایمان کے درمیان ۔نیز فرمایا’’ یہ حد فاصل ہے بندہ کی توحید اور شرک کے درمیان‘‘
    اقامتِ صلاۃ میں مؤمن کے ایمانیات ،موحد کی توحید کا اسے ایسا استحضار رہتاہے جس کا مشاہدہ دیگر لوگ بھی کرتے ہوئے یوں  کہتے ہیں کہ فلاں اس وقت نماز میں ہے یعنی اب وہ ہمارے ساتھ نہیں ۔نبی کریم   کی نماز کی یہی کیفیت امہات المؤمنین بیان فرماتی ہیں کہ’’ وہ بحالتِ نماز ایسے ہوتے ہیں جیسے ہمارے درمیان نہیں ‘‘سلف صالحین کی نماز وں کی بھی یہی کیفیت سیرت کی کتب میں مذکور ہے ۔نمازی کو یہ شعور ہوتاہے کہ وہ کس سے کٹ کر کس سے مربوط ہوا ،وہ کس ذات کے حضور کھڑا ہے ۔جس مالک الملک اورقادر مطلق سے مخصوص الفاظ سے نمازی مخاطب ہے ،وہ ان کے مفہوم ومطالب سے بھی واقف ہے۔ ایسی اقامت صلاۃ دین کا عمود ہے، وہ خود مضبوط ہے، وزن والی ہے، قوت والی ہے،نماز ی کی شخصیت پر اثر کرنے والی ہے ، اگر ایسی ہے تو اسی کے بارے میں کہاگیا کہ ’’یہ نماز اسے بے حیائی اور برائی سے روکنے والی ہے ‘‘یہی اس کے دین کی قوت واستقامت کا بھی باعث ہے ۔
    نماز کے بارے دوسرا یہ امر کہ وہ معیار ہے، میزان ومقیاس ہے بندۂ مؤمن کے ایمان اور دین کو جانچنے کا۔ نماز درست تو اس کا دین درست،اگر اس میں خلل ہے تو دین میں نقص ۔نما ز کی حیثیت کا ادراک ضروری امر ہے ۔نماز کا نمازی کی سیرت وکردار پر کنٹرول رہے ۔ نماز کی محافظت، اس کی اقامت ، بندے کے دین کی محافظت ہے مگر ایسی نماز جو ر سماً چند عادات کو یا اعمال کو پورا کرنے کے لئے ہے ، نہ نمازی کو اول تا آخر کوئی شعور ،نہ جو کہہ رہا ہے اس کا ادراک ،نہ جو کررہاہے اس میں کسی کا استحضار نہ کوئی روحانی کیفیت حاصل، نہ وہ یہ سمجھتاہے کہ کس سے لا تعلق ہوا؟کس سے نماز میں رابطہ ہوا؟ وہ کس سے مخاطب ہے؟ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا قول وقرارہے؟ کیا عہد وپیمان ہے؟ ارکان کی ادائیگی درست نہیں،دل کا قبلہ درست نہیں ،اہتمام نہیں ، یہ کوتاہ،سست،کمزور، روح سے خالی صرف ظاہری صورت ،باطنی اخلاص سے خالی، ظاہر عمل بغیر استحضار، ایسی غفلت والی نماز ، اس کے بارے میں قرآن نے فرمایا’’تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کیلئے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریا کاری کرتے ہیں‘‘(الماعون5،6)ایک اور مقام پر فرمایا’’جب یہ نماز کیلئے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں‘‘(النساء142)یعنی شعور وادراک نہیں ۔
    نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرنے کا حکم کیوں ہے؟نماز سے قبل اذان کا حکم کیوں ہے؟ یہ مؤمن کو بیداررکھتی ہے۔ اس کے ماحول کو روحانی بناتی ہے ۔فضا کو معطر ومطہر بناتی ہے ۔ وضو سے گناہوں کا معاف ہونا ،جسم کے ساتھ ساتھ خطاؤں کا دھلنا،اذان سے ابلیس لعین کا بھاگنا، نماز ہی کی خاطر وضوہے ،کپڑوں کی طہارت جسم کی طہارت ہے ،دلوں کی طہارت ہے ،قلب کا اخلاص قالب کی استقامت ہے ۔ وضو سے، اذان سے ، مساجد میں جماعت سے ،اقامت سے ،پھر ایک بار نہیں ایک ہی دن میں 5 بار ،پھر ہفتہ وا ر جمعہ کا بڑا اجتماع ہے، وہ بھی نماز ہے ۔اس پورے سلسلے کی فضیلت ،وضو کی فضیلت ،اذان کی فضیلت ،امامت کی فضیلت ،مساجد بنانے کی فضیلت ، یہ پورے کے پورے سلسلے اس رکن عظیم کی خدمت میں ہیں۔جس قدر اقامت صلاۃ میں ہمارا شعور ووجدان پیدا ہوگا، ہمارا قلب وقالب اللہ کی طرف متوجہ ہوگااسی بقدر یہ نماز کامل ہوگی ۔ہمارا دین کامل ہوگا ۔فائدہ بھی کامل، جس قدر اس میں غفلت اس قدر نما ز کے اجر میں کمی ،منافع میں کمی ،فوائد میں کمی۔حضرت عمار بن یاسر ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا ’’نمازی نماز سے فارغ ہوتاہے تو اس کیلئے اجر دسواں حصہ ،نواں حصہ، آٹھواں حصہ، ساتوا ں حصہ، چھٹا حصہ ،پانچواں حصہ، چوتھا حصہ، تیسرا حصہ یا آدھا ہوتاہے ‘‘غور کریں جس نماز میں پورا قیام ،ہر رکعت میں ایک رکوع دو سجود وغیرہ وغیرہ اداء کئے ۔اجر ایساکیوں ؟ارکان کی کمیت میں کمی نہیں مگر جیسی اس کی اندرونی کیفیت اسی بقدر اجر ۔حدیث میں آتاہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری عمل کو نہیں تمہارے قلوب کو دیکھتا ہے اسی لئے ہم نے ان سطور میں اس امر پر زور دیا ہے کہ ہمیں اپنی نماز کو ایمان بالغیب کا مظہر اور اپنے دین کے میزان کے طورپر پرکھنا ہے ۔ہمیں بھی محنت کرنا ہے کہ اس کی کیفیت بھی کامل ہو، ارکان کی کمیت کی درستگی کے ساتھ ساتھ ۔ یاد رکھیں کہ ہمارے اندرونی شعور واحساس اور استحضار کی اصلاح سے بیرونی اصلاح میں بھی خوب مدد ملے گی ۔
    ان سطور سے یہ امر بھی واضح ہوگیا کہ اس رکن عظیم سے بھی انسان ہی کی اصلاح ہے ۔ نماز اُسے ہی صالح انسان بنائے گی ،بندے کی عبادت کی ادائیگی خود اسی کیلئے فائدہ مند ہے۔اس کی عبادت کرنے سے رب کی شان میں اضافہ ہوگا نہ نہ کرنے سے اس کی عظمت وجلال میں فرق پڑے گا۔غور کریں کہ حق تعالیٰ شانہ نے نماز اور اصلاح انسان کو قرآن حکیم میں کس طرح باہم مربوط فرمایا ۔حضرت انسان جس کا کمال حسن اس کے حُسن خُلق میں ہے ،اس کی فضائل حمیدہ میں باری تعالیٰ فرماتا ہے’’ انسان تھڑولا (کم حوصلہ )پیدا کیا گیا ہے، جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرااٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے‘‘(المعارج19،21) انسان کی یہ عمومی بدخُلقی ہے کہ وہ صابر نہیں ،شاکر نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو اس سے استثناء کیا ۔فرمایا’’مگر وہ لوگ(اس عیب سے بچے ہوئے ہیں) جو نماز پڑھنے والے ہیں، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں‘‘(المعارج22،23)اللہ تعالیٰ نے نمازیوں کو نہ صرف بد خلقی سے مستثنیٰ کیا بلکہ انہیں دیگر اخلاق فاضلہ سے بھی موصوف ہونے والا قراردیا،انہی آیات کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہوتاہے’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے اور جوروز جزا کو برحق مانتے ہیں اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں جس سے کوئی بے خوف ہو اورجو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘(المعارج24،29)
    الغرض ہماری نماز ایسی ہو جو ہمیں ہر بدخُلقی سے بچائے،ہمیں ہر حُسن خُلق سے آراستہ کرے ،وہ ہماری طاعتوں میں مددگار ہو ۔ نماز اخلاق فاضلہ کی بھی کفیل ہے اور کیوں نہ ہوکہ وہ معبود برحق کی عبادت اور اس کے ہمہ وقت استحضار کا افضل ترین ذریعہ ہے ۔آخر نمازی جب نماز میں اپنے خالق کے سامنے ہوتاہے تونماز سے فارغ ہوکر کہیں اس مالک الملک کی سلطنت سے نکل کر دوسری سلطنت میں نہیں جاتاکہ مسجد میں مسلم (اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے والا) ہو اور مسجد سے باہر اپنے آپ کو نفس وشیطان کے حوالے کردے؟ نمازی اپنی نماز سے قبل اپنی نماز کے اندر ،نماز کے بعد ہر حال میں اللہ کے حوالے ہے۔درحقیقت یہی اسلام ہے،اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردینا ۔ نماز اس کیفیت کو پیداکرنے میں سب سے مؤثر کردار اداکرتی ہے اسی لئے یہ دین کا عمود ہے ، یہ ایمان اور کفر میں حد فاصل ہے، یہ توحید وشرک میں حد فاصل ہے، یہ نہ صرف بد خلقی سے ،بے حیائی،برائی سے بچانے والی ہے بلکہ ہمیں ہر حسن خلق سے آراستہ کرنے والی اور ہماری ایمانی قوت کا ذریعہ ہے ۔یہ خود اللہ کی سرزمین پر آباد ذی عقل وشعور انسانوں کو معبود برحق کی معرفت اور پہچان کی عملی دعوت ہے۔

 

شیئر: