سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ اور الاقتصادیہ میں اتوار کو شائع ہونے والا اداریئے جو لبنان کی خودمختاری ، ایران کی کٹھ پتلیوں اورایران : مہنگائی کا بوجھ کے حوالے سے ہے۔
لبنان کی خودمختاری۔ الریاض
ایسا لگتا ہے کہ لبنانی حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو بالاخر اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ دنیا بدل چکی ہے اور علاقہ ایران کی کٹھ پتلیوں کی سرگرمیوں کو مزید برداشت کرنے کا متحمل نہیں رہا لہذا دھمکی اور مہم جوئی کے امکانات قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ اب خطے کے امن و استحکام کو متزلزل کرنے اور لبنانی عزم و ارادے کو ہائی جیک کرنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
نصر اللہ دروغ بیانیاں پھیلانے والی شخصیت سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ لبنان اور شام وغیرہ کے حق میں حزب اللہ کے جرائم کا جواز پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہے ۔
خامنائی اورانکے حاشیہ نشینوں نے جب فخریہ لہجے میں کہا تھاکہ 4عرب ممالک کے دارالحکومت انکے قبضے میں ہیں۔ بیروت ان میں سے ایک تھا، تب نصر اللہ نے نہ گریہ کیا تھا اور نہ آہ و زاری کی تھی۔ اس وقت وہ ساکت و سامط بیٹھے رہے تھے۔ لبنان کی خودمختاری کی توہین اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی تھی؟
سعد الحریری کے استعفے نے ان لوگوں کے قدموں تلے کی زمین ہلا ڈالی ہے جن کے مفادات لبنان میں بفر اسٹیٹ قائم کرنے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن کا مفاد اس بات میں ہے کہ لبنان میں ایک فوج کے بجائے2فوجیں ہوں۔ ایک قومی پرچم کے بجائے 2ہوں۔
سعد الحریری نے اقتدار کے ایوان سے ہٹ کر زمینی حقائق پوری دنیا کے سامنے پیش کردیئے۔ انہوں نے عالمی رائے عامہ کو یہ پیغام دیدیا کہ ایران اپنے لبنانی وظیفہ خوار حسن نصراللہ کے توسط سے لبنان سے کھیل رہا ہے۔ انہوں نے لبنان پر طاقت کے ذریعے حزب اللہ کے مسلط کردہ ماحول کو آشکارہ کرکے لبنانی سیاستدانوں کو انکے حقیقی کردار سے آگاہ کردیا۔ فیصلے کی گیند انکی کورٹ میں پھینک دی۔ اب یہ فیصلہ انکے ہاتھ میں ہے کہ وہ وطن عزیز کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ لبنان کی خود مختاری کو بازیاب کرناچاہتے ہیں یا حزب اللہ کی توپوں کے دہانے لبنانی عوام کے سینوں کی جانب متوجہ ہوں ،یہ کیسے ممکن ہے کہ عرب ممالک کے عوام کے سروں پر حزب اللہ کی تلواروں کے خطرات منڈلا رہے ہوں اور وہ خاموش تماشائی بنے رہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
ایران کی قومی دولت کا مصرف خونریزی او رجرائم۔ الاقتصادیہ
ایران کی اقتصادی حالت ہر آنے والے دن بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ آج کی حقیقت نہیں برسہا برس سے ایران کا یہی حال چل رہا ہے۔ عام ایرانی بھی اس سے واقف ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عام ایرانی شہری معیارِ معیشت میں انحطاط او رمہنگائی کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایرانی کرنسی کی قدر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے۔ ایران کا دہشتگرد نظام قومی خزانے کو اپنی عوام کےخلاف استعمال کررہا ہے۔ ایرانی حکمراں عوام کو خاموش رکھنے کیلئے خطیر رقم خرچ کررہے ہیں۔ چند برس قبل بدعنوانی ، چوری اور گھٹیا خارجی جنگوں کی فنڈنگ کے خلاف ایرانی عوام نے زبردست مظاہرے کئے تھے۔ اس وقت انہیں کچلنے کیلئے بدترین خونریزی ہوئی تھی۔ ہزاروں افراد گرفتار کرلئے گئے تھے۔ بے قصوروں پر من گھڑت الزامات لگادیئے گئے تھے۔ ایرانی ملا جب سے اقتدار میں آئے ہیں تب سے انکی حکمت عملی یہی ہے۔ وہ اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں مکمل طور پر رکھنا چاہتے ہیں۔
جب تک ایرانی عوام کی دولت جنگوں ، ظلم و ستم، قتل و غارتگری اورغاصبانہ قبضے کی سرگرمیوں پر خرچ ہوتی رہیگی تب تک ایران کی معیشت اپنی حقیقی حالت پر بحال نہیں ہوگی۔ دنیا ایرانی نظام کے خلاف نئے دور میں داخل ہوچکی ہے کیونکہ عالمی برادری کو یہ یقین ہوچکا ہے کہ ایرانی نظام تخریب کاری کی حکمت عملی پر ہی عمل پیرا رہیگا اور اس سے کسی بھی حالت میں دستبردار نہیں ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭