Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علامہ اقبال ریسرچ سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے ، پی آر سی کا مطالبہ

جدہ .... ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی140ویں سالگرہ کے موقع پر مجلس ِ محصورین پاکستان(پی آر سی) کے زیر اہتمام مہران ریستوران میں ایک سادہ مگر پُروقار تقریب منعقد ہوئی جسکی صدارت معروف سعودی دانشور، کالم نویس اور سابق سفارت کار ڈاکٹر علی الغامدی نے کی جبکہ پاکستان رائٹر فورم کے صدر انجینئرسید نیاز احمد مہمان خصوصی تھے ۔دیگر مہمانوں میں پاکستان میڈیا گروپ کے صدر چوہدری رضوان رشید، سماجی راہنما اسرار احمدخان، انجینئر سید غضنفر حسن،سید نصیر الدین، سید وصی امام اور سید فیض احمد نجدی تھے۔ڈاکٹر علی الغامدی نے اپنے صدارتی خطبہ میںعلامہ اقبال کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔انھوں نے کہا کہعلامہ اقبال کو سیاسی مدبر کے طور پر اعلی مقام حاصل ہے۔ وہ صرف برصغیر کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے اپنا پیغام چھوڑ گئے ہیں۔جس سے دنیا استفادہ کرتی ہے۔ انھوں نے جب پاکستان کا تصور دیاتھا تو جناح بھی اس کے قائل نہ تھے ۔لیکن بعد کے حالات نے انھیں رائے بدلنے پر مجبور کر دیا اور وہ اقبال کے تصور کو لیکر آگے بڑھے اور تشکیل پاکستان کی قیادت کی۔انھوں نے کہا اس موقع پر ہمیں ڈھائی لاکھ محبِ وطن پاکستانی جو کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں۔فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ان کو وطن لاکر باعزت آباد کریں۔اس سلسلے میں OICاور WMLکو مددکرنا چاہیے۔ مہما ن خصوصی نیاز احمد نے کہا علامہ اقبال بنیاد پرست مسلمان تھے۔ ان کی شاعری قرآن و سنت کے پیغام میں ڈھلی ہوئی ہے۔برصغیر میں ایک مسلم ریاست کے قیام کا تصور بھی ان کے اسی مشن کا حصہ تھا۔انھوں نے کہا اقبال کے بڑے بھائی لا دینی فرقہ سے متاثر تھے۔لیکن علامہ اقبال کے دلائل اور فہم نے ان کو دین حقیقی پر واپس لائے۔انھوں نے اب تک محصور پاکستانیوں کی وطن نہ واپسی پر افسوس کا اظہار کیا۔معروف سماجی رہنما محمد اکرم آغا نے اقبال کی سوانح حیات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان کی دوراندیشی اور وسیع النظری نے پاکستان کو ممکن بنایا۔ہردلعزیزسماجی رہنما شمس الدین الطاف نے کہا کہ ہم آج تک حصول پاکستان کا مقصد حاصل نہ کرسکے کیونکہ ہم نے علامہ اقبال کی فکر کو بھلا دیا۔ معروف صحافی محمد امانت اللہ نے علامہ پر اپنا مضمون پڑھا۔انھوں نے کہاکہ ہم نے اقبال اور قائد کے بجائے اپنی نئی نسل کو دوسرے ا فکار میں روشناس کردیا۔ جس کی وجہ سے انھیں مقصد پاکستان کا ادراک نہیں۔ معروف مذہبی دانشورطارق محمود نے علامہ اقبال پر مقالہ پیش کیا جس میں علامہ کی فکر برائے ریاست و سیاست کو موضوع بنایا۔انھوں نے فرمایا کی جدا ہوں دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ، انھوں نے کہا کہ ہم پارلیمان میں ایسے لوگوں کو لائیں جو دین کو نافذ کریںاور مقاصد پاکستان کو حاصل کریں۔انھوں نے علامہ اقبال پر خصوصی کتاب ڈاکٹر غامدی اور دیگر مہمانوں کو پیش کی۔میمن سوسائٹی کے جنرل سکریٹری طیب موسانی پی آر سی کو تقریب منعقد کرنے پر مبارکباد دی۔انھوں نے کہا کہ ہم پچھلے 70سالوں میں وہ پاکستان نہیں بناسکے جس کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا۔ڈپٹی کنوینر حامد السلام خان نے کہا پی آر سی کا ایجنڈا ہے محصورین کی واپسی اور الحاق کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ کنوینر انجینئر سید احسان الحق نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم اقبال اور قائد کے مشن کو عملی طور پر نافذ نہیں کریں گے ہم پاکستان کا مقصد حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر علی الغامدی اور دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کیں جو حاضرین نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔1۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نئی نسل کی آگاہی کے لئے علامہ اقبال ریسرچ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔جہاں طلبہ فکر اقبال اور مقصد پاکستان کو صحیح طور پر سمجھ سکیں۔ 2۔ کشمیر میںہندوستان کے مظالم کو اجاگر کیا جائے۔ قیام امن کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کروائے۔3۔بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی منتقلی و آبادکاری کا فوری انتظام کیا جائے۔ ۴۔ سماجی اور خیراتی اداروں کو بھی ان محصورین کے کیمپوں میں خبر گیری کے فرائض ادا کرنا چاہیے۔ قبل ازیں تلاوت قرآن ِ پاک سے تقریب کا آغاز ہوا جس کی سعادت قاری فیصل مبین نے حاصل کی۔عربی میں نعت طارق محمود نے پیش کیا۔ممتاز عالم دین مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اکیڈمی جدہ کے چیئرمین بہجت ایوب نجمی نے عالم اسلام اور امتِ مسلمہ کے لئے دعا ئیںکی۔ نظامت کے فرائض معروف صحافی سید مسرت خلیل نے ادا کئے۔

شیئر: