کرکٹ کے میدان کاہیرو: ویرات کوہلی
ہندوستان نے کانپور ون ڈے میچ میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر لگاتار ساتویں بار دو طرفہ سیریز جیت کر وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے کپتان ویرات کوہلی اور ان کے لڑکوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کپتان کے طور پر لگاتار ساتویں سیریز جیت کے ساتھ ویرات کوہلی مہندر سنگھ دھونی کے بعد یہ کارنامہ انجام دینے والے دوسرے ہندوستانی کپتان بن گئے ہیں۔ کوہلی نے کانپور میں سیریز کے فیصلہ کن میچ میں میچ وننگ سنچری بنا کر اپنے ون ڈے میچوں کے کیریر کی32ویں سنچری بنانے کے ساتھ ساتھ سب سے تیز 9000رنز بنانے والے کھلاڑی ہونے کا بھی اعزاز حاصل کر لیا۔یہ ان کا 203واں ون ڈے میچ تھا ۔ اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ولیئرز کو حاصل تھا جنہوں نے205میچوں میں 9000رنز بنائے تھے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ویرات کوہلی ہی ہیں جن کی تسلسل کے ساتھ عمدہ بلے بازی اور کچھ گھریلو پچیں اور ان پر ہندوستانی اسپن کا جادو ٹیم انڈیا کو کرکٹ کے افق پر سب سے زیادہ دمکنے والا ستارہ بنا چکا ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ گھریلو سیریز میں بھی ٹیم انڈیا نے جب بھی پہلے بیٹنگ کی اور بڑا اسکور بنالیا تب بھی س اسکور کا دفاع کرنے میں ٹیم انڈیا ہمیشہ اتنے نشیب و فراز سے گزری اور اتنی بار شکست کی جانب بڑھتی دکھائی دی کہ ہندوستانی کرکٹ شوقینوں کا دل اچھل کر حلق میں آتا رہا۔وہ تو حریف ٹیم ہی اچانک خود بخود دباو¿ میں آگئی تو ہندوستان چند رنز سے جیت گیا ورنہ کئی مواقع ایسے آئے کہ میچ ہاتھ سے نکلتا ہی دکھائی دیا۔ویسے بھی کافی عرصہ سے بڑے اسکور کے میچ میں اگر ہندوستان نے پہلے بیٹنگ کی تو خود اس کا بڑا اسکور اس کی کمزوری بنتا رہا ہے۔2015-16کی سیریز میں ایسا آسٹریلیا کے خلاف لگاتار تین میچوں میں ہوا۔اس سیریز میں ہندوستان نے پرتھ میں کھیلے گئے پہلے میچ میں صرف3وکٹ پر 309رنز بنائے لیکن وہ اس کا دفاع نہ کر سکا اور پانچ وکٹ سے ہار گیا۔ تین روز بعد ہی ہندوستان نے دوسرے ون ڈے میچ میں بھی 8وکٹ پر 308رنز بنائے ۔لیکن اس کے بولرز اس اسکور کا بھی دفاع نہ کر سکے اور ہندوستان سات وکٹ سے ہار گیا۔دو روز بعد ہی ہندوستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پھر 295کا اسکور بنایا لیکن اس کا بھی اس کے بولرز دفاع نہ کر سکے اور آسٹریلیا نے پانچ میچوں کی سیریز مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ سیریز اپنے نام کر لی حالانکہ اس سیریز میں ٹیم انڈیا کے اس وقت کے معروف اورمیچ وننگ کہے جانے والے رویندر جڈیجہ اور روی چندر اشون جیسے اسپن بولرز ٹیم میں موجود تھے۔ایسی ہی صورت حال نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ سیریز میں بھی رہی۔پہلے ہی میچ میں جو ممبئی میں کھیلا گیا ٹیم انڈیا نے 8وکٹ پر280رنز بنائے لیکن نیوزی لینڈ نے محض چار وکٹ کے نقصان پر 281کا ہدف پورا کر لیا۔ سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ میں بھی جو کانپور میں کھیلا گیا کم و بیش ایسی ہی صورت حال رہی ۔ٹیم انڈیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 6وکٹ پر337رنز بنائے اور بمشکل تمام ٹیم انڈیا 6رنز سے جیت سکی۔ورنہ تو 47ویں اوور تک قسمت کی دیوی نیو زی لینڈ پر ہی سایہ فگن تھی ۔لیکن قسمت اچانک کیوی ٹیم سے روٹھ گئی اور اس نے ٹیم انڈیا کا اس وقت ساتھ دیا جب48ویں اوور میں کیوی ٹیم کو سیریز جیتنے کے لیے 13گیندوں پر 25رنز کی ضرورت تھی اور کریز پر پہلے میچ کے ہیرو لیتھم جارحانہ انداز سے بلے باز ی کرتے ہوئے 52گیندوں پر 65رنز بنا کر ٹیم انڈیا کے سر پر خطرہ بن کر منڈلا رہے تھے کہ بومر ہ نے لیتھم کو رن آو¿ٹ کر دیا اور کیوی ٹیم محض6رنز سے ہار گئی۔اس سیریز کی جیت کے باوجود کمزور مڈل آرڈر سلیکٹروں کی نیند توڑنے کو کافی ہے کیونکہ یہی مڈل آرڈر جو ہاردیک پانڈیا، دنیش کارتک، مہندر سنگھ دھونی، کیدار جاڈھو اور منیش پانڈے پر مشتمل ہے دونوں اوپنرز اور ویرات کوہلی کے آو¿ٹ ہوتے ہی لوور مڈل آرڈر نہیں بلکہ ٹیل اینڈرز کا ٹولہ نظر آنے لگتا ہے اور اکثر و بیشتر آخری دس اووروں میں باقی چھ سات کھلاڑی بھی آو¿ٹ ہوجاتے ہیں چونکہ کافی عرصہ سے ویرات کوہلی ہی ٹیم کی نیا پار لگا رہے ہیں۔ اس لیے نمبر چار اور پانچ پر کوئی بلے باز مستقل جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ جس کا نقصان کئی اہم میچوں میں کوہلی کے جلد آو¿ٹ ہوجانے سے اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح چمپینز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان کے خلاف ہو چکا ہے۔مڈل آرڈر کس قدر کمزور ہے اس کا اندازہ حالیہ سیریزمیں مڈل آرڈر کے بلے بازوں کی کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔جو اتنی خراب رہی کہ جب یہ حال بے جان اور ٹھوس پچوں پر ہے تو جب یہی کھلاڑی بیرون ملک کھیلیں گے تو ٹیم انڈیا کے لیے کتنے مفید ثابت ہوں گے اس کا اندازہ ابھی سے لگایا جا سکتا ہے۔دنیش کارتک نے تین میچوں میں صرف ایک ہاف سنچری کے ساتھ محض105رنز بنائے۔مہندر سنگھ دھونی نے اتنے ہی میچوں میں صرف68رنز بنائے۔ شیکھر دھون نے تین میچوں میں 91رنز بنائے ۔ اسمیں بھی ایک اننگز 68رنز کی ہے جو کانپور کی بے جان پچ پر کھیلی گئی۔ کیدار جاڈھو تین میچوں میں صرف30رنز ہی بنا سکے۔اور کپل دیو ثانی آل راو¿نڈر قرار دیے جانے والے ہاردک پانڈیا تین میچوں میں صرف54رنز ہی بنا سکے اور دو وکٹ ہی لے سکے۔اسی طرح رویندر جڈیجہ اور آر اشون کی جگہ ون ڈے میچوں کی ٹیم میں مستقل جگہ پانے والے چار اسپنرز کلدیپ یادو، یجویندر چاہل، اکشر پٹیل اور کیدار جادھو مل کر محض 6وکٹ ہی لے سکے۔ جب ان اسپنروں اور مڈل آرڈر کا ہوم سیریز میں اور اپنی من پسند پچوں پر یہ کارکردگی ہے تو بیرون ملک خاص طور پر جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انگلستان اور نیوزی لینڈ میں تو یہ ٹیم انڈیا کی فتح کا گراف اوندھے منھ گرا دیں گے۔اس لیے ان حالیہ کامیابیوں کو ٹیم انڈیا کی معراج نہ سمجھا جائے۔