Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پدماوتی پرسیاسی تنازعہ

معصوم مرادآبادی
200کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی فلم’ ’پدماوتی‘‘ کا مستقبل فی الحال تاریکی میں ڈوبتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس فلم کو راجپوتوں کی توہین قرار دے کر جن لوگوں نے مخالفت کا طوفان کھڑا کیا تھا، وہ یقینا اب خوش ہوں گے کیونکہ فلم کو ریلیز کرنے والی کمپنی نے خود ہی اس کی نمائش سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ فلم تو ڈبوں میںبند کردی گئی ہے لیکن اس پر عوامی حلقوں میں بحث ومباحثے کا دور جاری ہے۔ اس فلم کے خلاف جس بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی کی گئی ہے، اسکے نتیجے میں فلم دیکھنے کی خواہش رکھنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ جس چیز کی حد درجہ مخالفت ہوتی ہے یا جس پر پابندی لگتی ہے، اسے دیکھنے کا اشتیاق لوگوں میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ فلموںکا کاروبار کرنے والوں نے یہ اندازے لگائے تھے کہ اگر’ ’پدماوتی‘‘ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق یکم دسمبر کو ریلیز ہوئی توپہلے ہی ہفتے میں ڈیڑھ سوکروڑ کا کاروبار کرلے گی جس سے ٹیکس کی صورت میں حکومت کو اچھی خاصی آمدنی ہوگی لیکن فلم ریلیز ہونے کی نوبت ہی نہیں آئی اور سرکاری خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔ ظاہر ہے جب معاملہ ووٹ بینک کی سیاست میں الجھا ہو اور ہمارے سیاست داں چناؤ کے میدان میں شکست وریخت سے دوچار ہورہے ہوں تو انہیںسرکاری خزانے کاخیال نہیں ہوتا۔ فی الحال ہندتو کی لیباریٹری گجرات میں اسمبلی انتخابات سرپر ہیں اور حکمراں جماعت کے پاس کوئی ایسا موضوع نہیںہے جس کے بل پر وہ ناراض ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرسکے۔ لہٰذا ایسے میں ’’پدماوتی‘ ‘کا تنازع حکمراں جماعت کے لئے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بن کر سامنے آیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ’’پدماوتی‘ ‘ کو راجپوت فرقے کی توہین قرار دے کر اس پر پابندی کی سب سے پہلی آواز بھی گجرات سے ہی بلند ہوئی اور یہ الیکشن کمیشن سے ہوتی ہوئی سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے ’’پدماوتی‘‘ پر پابندی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلموں پر رائے زنی کرنے کا کام سینسر بورڈ کا ہے سپریم کورٹ کا نہیں۔ 
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی کی بات پر یقین کیاجائے تو ’’پدماوتی‘‘پر پیدا ہونے والا تنازع ایک سیاسی جماعت کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہے اور یہ اظہار رائے کی آزادی کو ختم کرکے ملک میں سپرایمرجنسی نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بات یوں بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ ’’پدماوتی‘‘ کی مخالفت میں حکمراں جماعت کے لیڈروں نے تمام حدیں عبور کرلیں۔ یہاں تک کہ ہریانہ بی جے پی کے میڈیا انچارج سورج پال نے تو ’پدماوتی‘ کا رول اداکرنے والی اداکارہ دیپکا پڈوکون کا سرقلم کرنے والوں کو 10 کروڑ روپے دینے کااعلان کرڈالا۔ اترپردیش کے شہر بریلی میں فلم کی ہیروئن دیپکا پڈوکون اور ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کے ایک سو50 پتلوں کو اجتماعی طورپر نذرآتش کیاگیا۔ یہاں تک کہ راجپوتوں کے وقار کی لڑائی لڑنے والی ایک تنظیم نے اداکارہ دیپکا کو زندہ جلانے والے کو ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ ان اعلانات کے نتیجے میں ممبئی پولیس نے دیپکا پڈوکون کو سیکیورٹی فراہم کی ہے۔ مدھیہ پردیش ، راجستھان اور اترپردیش جیسی بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے ’پدماوتی‘ پر پابندی کی پرزور حمایت کی ہے اور اپنی اپنی ریاستوں میں اس کی ریلیز پر پابندی عائد کردی ہے۔ 
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جولوگ ’’پدماوتی‘ ‘کی مخالفت میں زمین آسمان ایک کررہے ہیں، کیا انہوں نے فلم دیکھی ہے؟ یہ سوال اسلئے اہمیت کا حامل ہے کہ کسی فلم کو دیکھے بغیر اسکے بارے میں رائے زنی کرنا یا اس پر پابندی کا مطالبہ کرنا کہاں تک درست ہے۔ ملک کے جن چنندہ صحافیوں کوفلم سازوں نے یہ فلم دکھائی ہے، ان کا کہنا ہے کہ فلم میں کوئی بھی قابل اعتراض بات نہیں ۔ ہندی کے ایک بڑے صحافی وید پرتاپ ویدک نے اپنے مضمون (مطبوعہ ’دینک بھاسکر‘ 18نومبر) میں لکھا ہے کہ انہیں شروع سے آخر تک فلم میں کوئی بھی قابل اعتراض سین نظر نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ محض افواہوں کی بنیاد پر فلم کی مخالفت کرنا جمہوریت کا مذاق ہے۔ ’پدماوتی‘ یا رانی پدمنی صرف راجستھان ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ایک بہادر مہارانی کے طورپر معروف ہے۔ عہد وسطیٰ کے مشہور شاعر ملک محمد جائسی نے اپنی عظیم تخلیق ’پدماوت‘ میں چتوڑ کی اس مہارانی کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کی ہے کہ وہ ہندوستانی عورت کا ایک آئیڈیل بن گئی ہے۔ سنجے لیلا بھنسالی نے اپنی فلم میں ’پدماوتی‘ کے اس کردار کو بڑی مہارت اور چابکدستی سے پیش کیا ہے۔ مخالفین کا الزام ہے کہ فلم ساز نے ’پدماوتی‘ کو علاء الدین خلجی کے عشق میں گرفتار دکھایا ہے جس سے ’پدماوتی‘ کی توہین ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب ملک میں’لوجہاد‘ کیخلاف تلواریں میان سے باہر ہوں تو تاریخی رزمیہ پر بنی کسی فلم میں ایک ہندو مہارانی اور مسلم بادشاہ کا عشق کیونکر برداشت ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے اور ’پدماوتی‘ کا جھکاؤ ذرّہ برابر بھی علاء الدین خلجی کی طرف نظرنہیں آتا۔ فلم میں سلطان علاء الدین خلجی (اداکار رنویر سنگھ) کو ایک ولن کے طورپر پیش کیاگیا ہے۔ انہیں ایک تباہی پھیلانے والے بے کردار بادشاہ کے طورپر دکھایاگیا ہے۔ علاء الدین اس فلم میں وحشی، بدکردار ، مغرور ، حاسد اور خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے چچا جلال الدین کا قتل کرتے ہیں اور اپنی چچازاد بہن سے زبردستی شادی رچاتے ہیں۔ انہیں ہم جنس پرست بھی دکھایاگیا ہے۔ اس فلم پر اگر کسی کو اعتراض ہوتا تو وہ مسلمان ہوسکتے تھے کیونکہ اس فلم میں علاء الدین خلجی کے کردار کو مسخ کردیاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علاء الدین خلجی (1296 تا1316) خلجی خاندان کے سب سے زیادہ طاقتور حکمراں تھے ۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اہم اصلاحی کام انجام دیئے اور ہندوستان کو خوشحال بنایا۔ ان کی فتوحات میں بہت سی ہندو ریاستیں بھی شامل تھیں جس کی وجہ سے ہندتو وادی انہیں ولن کے طورپر پیش کرتے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان، علاء الدین خلجی کا مقروض ہے کیونکہ ان کی فوجی مہارت اور مزاحمت کی وجہ سے منگولوں کو ایک بار نہیں بلکہ 5 مرتبہ شکست فاش سے دوچار ہونا پرا۔ منگول علاء الدین خلجی کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ اگر خلجی منگولوں سے شکست کھاجاتے تو آج ہندوستان کی تصویر قطعی مختلف ہوتی کیونکہ منگول ہندوستان کی ثقافت اور پہچان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے۔ علاء الدین خلجی جیسے بادشاہ کی کردار کشی پر خاموشی اور ’پدماوتی‘ کی بہادری کے قصوں پر واویلا سمجھ سے بالاتر ہے۔ 
 

شیئر: