سعودی اخبار المدینہ میں جمعہ یکم دسمبر 2017 ءکو شائع ہونیوالے کالم کا ترجمہ پیش خدمت ہے
روشن چراغ نہ بجھا ہے اور نہ کبھی بجھے گا
اسامہ حمزہ عجلان ۔ المدینہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزِ ازل ہی میں اہل جنت اور اہل دوزخ کا فیصلہ کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے روزازل ہی میں اہل جنت کو حضرت آدم علیہ السلام کے دائیں جانب اور اہل دوزخ کو انکے بائیں طرف کھڑا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت و مہربانی سے اہل جنت کی صف میں شامل رکھے۔ اللہ تعالیٰ سے اس بات سے ہم پناہ مانگتے ہیں کہ ہم اور ہمارے اہل و عیال اہل دوزخ میں سے ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کی بدولت ہر انسان کی تخلیق کا فیصلہ روز ازل ہی میں ہوچکا تھا۔ تب سے اب تک تمام انسان آبائو اجداد کی پشت سے یکے بعد دیگرے اس دنیا میں منتقل ہوتے چلے آرہے ہیں۔ انسان ماں کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ دنیا میں زندگی گزارتا ہے۔اسکے بعد مر جاتا ہے، پھر برزخ کی زندگی پیش آتی ہے۔ انبیاء اور شہدائے کرام کے جسم برزخ کی زندگی میں محفوظ رہتے ہیں۔ اسکی کیا شکل ہوتی ہے اسکا علم ہمیں نہیں اللہ کو ہی ہے۔
قیامت کے دن حضرت عزرائیل علیہ السلام صور پھونکیں گے جس پر دنیا میں پائے جانے والے تمام جاندار موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام دوسرا صور پھونکیں گے تو تمام مردے زندہ ہوکر کھڑے ہوجائیں گے۔ انکے جسم لافانی شکل میں تیار ہونگے۔ حساب کتاب ہوگا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر بندے کے اچھے برے اعمال کا حساب کتاب لیں گے۔ حساب کا دن بڑا مشکل ہوگا۔ ہر کس و ناکس اپنے انجام کے حوالے سے انتہائی پریشانی میں مبتلا ہوگا۔ یوم الحساب میں پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی رب العالمین کے حضور شفاعت کی جسارت نہیں کریگا۔ نہ کوئی انسان اسکی جرأت کریگا نہ کوئی مقرب فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حضورلب کشائی کی ہمت کریگا۔ نہ کوئی پیغمبر اور نہ نبی اسکی ہمت کرسکے گا کہ اللہ تعالیٰ سے کسی کی شفاعت کرسکے۔ اس روز صرف پیغمبر اسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے دربار میں امتیوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو شفاعت کبریٰ اور شفاعت صغریٰ کا اعزاز عطا کررکھا ہے۔ حساب کتاب کے بعد ہر انسان کے حتمی انجام کافیصلہ صادر ہوگا۔ اہل جنت کو ہمیشہ کیلئے جنت اور اہل دوزخ کو ہمیشہ کیلئے دوزخ میں داخل کردیا جائیگا۔ اہل ایمان جو گناہ گار ہونگے انکا دوزخ میں قیام عارضی ہوگا۔ دوزخ کے دائمی باسی کافر اور مشرک ہی ہونگے ۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بناکر ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ امتی ہونے کی بدولت ہمارا دائمی مسکن جنت ہے دوزخ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے۔ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پیدا نہ ہوتے ، منصب نبوت پر سرفراز نہ ہوتے تو اسلام کی روشنی نہ پھیلتی، روشن چراغ نہ ہوتا، کفر و شرک اور دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ نہ ملتا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور انہیں ہماری ہدایت کیلئے پیغمبر بناکر بھیجا۔ ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن خوشی کا اظہار کرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے ،اسے اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنائے، پورے سال اللہ تعالیٰ سے تقرب حاصل کرے، ہر ہفتہ پیر کے دن روزہ رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر اظہار مسرت کا اہتمام کرے۔
کفار برزخ کی زندگی کا عقیدہ نہ رکھنے اور قیامت پر ایمان نہ لانے کے باعث مایوسی کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ وہ برزخ کی زندگی کا بھی عقیدہ رکھتے ہیںاور یوم حشر کو بھی مانتے ہیں، اسی لئے وہ مایوس نہیں ہوتے۔
عام انسان ازل سے حشر تک ایک انسان کی پشت سے دوسرے انسان کی پشت میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں زندگی کی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی شان عام انسانوں سے اس حوالے سے یکسر مختلف ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے ساتھ خصوصی معاملہ کرتے ہیں۔ وہ آسمانی پیغام کی بدولت دنیا بھر کے انسانوںکے ذہنوں میں لازوال بن جاتے ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کو حقیقی تناظر میں نہیں لیتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’تم لوگ میری مداح سرائی اس طرح نہ کرو جس طرح کہ نصرانیوں نے مسیح ابن مریم کی ،کی تھی۔‘‘
اس ارشاد رسالت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بجا طور پر جائز ہے البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ِ الوہیت پر فائز کرنا کسی طور جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی بات سے منع کیا ہے کہ ہم عیسائیوں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام علوہیت پر فائز کردیں۔ جہاں تک مداح سرائی کا تعلق ہے تو اسکی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس پر اجر و ثواب بھی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭