Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلسلہ نہ چھوڑیں گے ہم بھی گھر بنانے کا

جبیل میں"بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم" کا جشنِ غالب،عالمی مشاعرہ
ادب ڈیسک
مشاعرے ہماری تہذیب و ثقافت کا حصہ اورزبان و ادب کے فروغ کا باعث ہیں۔مشاعرے پاک و ہند کی حدود سے نکل کر اردو کی نئی بستیوں میں پہنچ چکے ہیں۔یوں زبانِ اردو کی مہک نے ساری دنیا کو مہکا دیا ہے۔ مشرق ِ وسطیٰ میں سعودی عرب بھی اردو کی نئی بستیوں میں شامل ہے۔
منطقہ شرقیہ کی ایک نمایاں تنظیم  بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم نے جشنِ غالب کے سلسلے میں جبیل میں شاندار عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا جس میں ہندوستان و پاکستان اور خلیجی ممالک سے اردو شعرائے کرام نے شرکت کی اور اس بزمِ ریختہ کو یادگار بنا دیا۔ مشاعرے کی صدارت بین الاقوامی شہرت کے حامل ارضِ مقدس کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر سید نعیم حامدعلی الحامد نے کی ۔ انڈین ایمبیسی، ریاض کے فرسٹ سیکریٹری ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی مہمان خصوصی کی نشست پر جلوہ افروز تھے۔مزاح گو شاعر سلیم حسرت نے عبوری نظامت کی ذمہ داری انجام دی۔تقریب دوحصوں پر مشتمل تھی ۔ پہلے حصے میںبھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم کے اغراض و مقاصدبیان کرتے ہوئے مرزا غالب کے فن پر روشنی ڈالی گئی اور ایوارڈز تقسیم کئے گئے جبکہ دوسرے حصے میں یاد گار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔مہمانِ خصوصی نے شمع روشن کی۔چار مختلف ہالز میں پروجیکٹرز لگا کر خواتین کے بیٹھنے کے لئے علیحدہ انتظام کیا گیاتھا۔
مزید پڑھیں:الخبر میں ایوب صابر کے لٹھ مار پر تنقید
بزم کاباقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام  پاک سے ہوا جس کی سعادت نامور شاعر و ایریا گورنر ٹوسٹ ماسٹرز کلب وقار ضیا نے حاصل کی۔ بھوپال این آر آئیز کے ڈائریکٹر سید اقبال حسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا دوسرا سالانہ مشاعرہ ہے ۔ ہم اس میں تمام معزز شعرائے کرام ،مہمانان اور سعامعین کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ہم نے پچھلے ایک سال میں کئی سنگِ میل حاصل کئے ہیں۔بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم کے تین مقاصد ہیں ۔ پہلا فروغِ تعلیم،دوسرا فروغِ اردو اور تیسرا ہاکی کافروغ ہے۔ اس کے بعد بھوپال این آر آئیز کے صدر ،علمی ادبی اور سماجی شخصیت شہریار محمد خان کو خطاب کی دعوت دی گئی ۔انہوں نے مہمانان کا استقبال کرتے ہوئے کہاکہ نیلسن منڈیلا نے کہا تھاکہ تعلیم کے ذریعے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردا ر ادا کرتی ہے۔ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ راہنما ہی قوم کو ترقی کی منزل سے ہمکنار کر سکتا ہے۔تعلیم اندھیرے سے روشنی تک کا سفر ہے ۔ہمارا یقین ہے کہ طلباءاور طالبات کو تعلیم کے یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔ہم طلبا کی رہنمائی کے لئے سیمینار اور ورکشاپس کا اہتمام کرتے ہیں جہاں اُن کا رحجان دیکھ کر شعبہ جات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اِن نمائشوں کے ذریعے اُن کی شخصیت سازی کی جاتی ہے۔ ہم اُن کی جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لئے اپنے قومی کھیل ہاکی کو فروغ دے رہے ہیں۔اِس کے بعد شہریار محمد خان نے بھوپال این آر آئیز کے ڈائریکٹرز منصور صدیقی، رشید خان، رفعت اقبال فاروقی، سید اقبال حسین، بابر خان اور امین خان کو شہ نشین پر خوش آمدید کہا۔ بعدازاںمہمانِ خصوصی حفظ الرحمن اعظمی اور تمام ڈائریکٹرز نے تالیوں کی گونج میں سالانہ مجلے ”بھوپال این آر آئیز ورلڈ“ کی رونمائی کی۔اِس موقع پر ارشد رضا کے شعری مجموعے ”سٹی آف ہارٹ“ کی بھی رونمائی کی گئی۔ شہریار محمد خان نے اعلان کیا کہ آج جشنِ غالب میں خود مرزا غالب بھی تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی نامور شاعر سید باقر علیگ ،مرزاغالب کے حلئے میں پیرانہ سالی سے مغلوب ہستی کی طرح آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے سامعین کو فرشی سلام پیش کرتے اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ سامعین نے پُرجوش انداز میں اُن کا استقبال کیا۔
سید باقر علیگ نے مرزا غالب کے لہجے میں کہا کہ میں بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہاں بلایا ۔ اس جشن میں نئی نسل کا مرزا غالب سے تعارف مقصود ہے کیونکہ نئی نسل ہم سے ناآشنا ہوگئی ہے۔اردو شاعری کا تذکرہ مرزا غالب کے پیغام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ 1797ءمیں آگرہ میںہماری پیدائش ہوئی۔ہم 5سال کی عمرکو پہنچے تو والد کا انتقال ہو گیا اور8 سال کے ہوئے تو ہمارے چچا بھی رحلت فرما گئے۔اُس کے بعد نانا نے ہماری پرورش کی ذمہ داری اٹھائی۔معاشی حالات میں تنگدستی کی وجہ سے ہماری تعلیم مکمل نہ ہو سکی لیکن شاعری میں ہماری دلچسپی برقرار رہی۔13برس کی عمر میں شادی ہو گئی اور 15سال کی عمر میںہم دہلی جا بسے۔ دہلی میں شاعری کا عروج تھا اور ہم نے وہاں اپنا ایک الگ مقام پید ا کیااور ہماری محنت سے ہمارا مقام آسمان تک جا پہنچا۔ہمیں اپنی فارسی شاعری پر بڑا ناز تھا لیکن اردو شاعری ہی ہماری شہرت کا باعث بنی۔ اس کے بعد سید باقر علیگ نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالی اور بہترین انداز میں ادا کی۔ محمد ایوب صابر نے مرزا غالب کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مرزا غالب نے شورش زدہ دور میں شاعری کا آغاز کیا۔ اس لئے تفکر اور گیرائی ان کی دامن گیر ہوگئی۔ان کی شاعری کا کمال صرف حسنِ بیاں ہی نہیں تھا بلکہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے ۔یہی گہرائی اور گیرائی ان کی شاعری کا طرہ امتیازہے ۔ غالب نے جس پُر آشوب دورمیں آنکھ کھولی ۔اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر تھاجس نے اُن کی نظر میں گہرائی اوروسعت پید ا کردی۔غالب کی شاعری میں وہ آفاقی وسعت ہے جس کو ناپنے کی کوشش گزشتہ ایک صدی سے ہورہی ہے اور آئندہ کئی صدیاں اِس عرق ریزی پر محیط ہوں گی۔ اُن کی شاعر ی کے اتنے رنگ اور زاویے ہیں کہ ہر رنگ اپنے اندر کسی دوسرے رنگ کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر زاو یہ فکر کسی دوسرے پہلو کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اس ست رنگی قوسِ قزح کی دلکشی اور جاذبیت کو اہل فکرو نظر نے آسمانِ ادب کا مبہو ت کُن منظر قرار دیا ہے۔
مہمانِ خصوصی حفظ الرحمن اعظمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں اردو ادب کے حوالے سے منعقد ہ جشنِ غالب کا حصہ بن سکا ہوں۔اردو زبان و ادب کے فروغ کے حوالے سے بھوپال این آر آئی کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔اردو میری مادری زبان ہے لیکن میں اردو زبان کو اِس سے بھی اعلیٰ اور ارفع مقام دینے کی کوشش کرتا ہوں ۔جس تہذیب، ثقافت اور مذہب سے ہمارا رشتہ ہے اُس میں بھی ماں کا درجہ بہت عظیم ہے۔میرے لئے اردو زبان کی اہمیت اِس لئے بھی زیادہ ہے کہ میری ماں نے مجھ سے پہلی بار اردو میں خطاب کیا تھا۔ اس لئے اردو سے میرا جذباتی رشتہ ہے۔بھوپال کا اردو زبان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس لئے اردو زبان کی خدمت بھوپال این آر آئیز کا موروثی حق ہے جیسا کہ دہلی، حیدر آباد اور لکھنو اردو کے مراکز مانے جاتے تھے۔جب اِ ن مراکز کو مالی امداد کی ضرورت ہوتی تھی تو ریاست بھوپال امداد کے لئے پیش پیش ہوتی تھی،چونکہ میرا تعلق اعظم گڑھ سے ہے اور اعظم گڑھ میں دارالمصنفین جسے ہم شبلی اکیڈمی کے نام سے جانتے ہیں، اس ادارے نے ادب، صحت، مذہب ،سیاست غرض ہر شعبہ ہائے زندگی پر سیکڑوں کتب نہ صرف تصنیف کیں بلکہ اُن کو زیورِ طباعت سے آراستہ کر کے نشرو اشاعت کی ۔ریاست بھوپال سے ہر سال 2160روپے کی امداد شبلی اکیڈمی کو جاتی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے بعد بھی جب یونیورسٹی کو مالی تعاون کی ضرورت ہوتی تھی تو ریاست بھوپال سے خطیر رقم ارسال ہوتی تھی۔اس لئے بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم نے اپنی روایات کو زندہ رکھا ہواہے۔ 
اب ایوارڈز دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کاروانِ بھوپال ایوارڈ2017مہمان خصوصی ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی کو تعلیمی میدان میں نمایاں خدمات پر دیا گیا۔ کیف بھوپالی ادبی ایوارڈ 2017 ادب میں نمایاں خدمات پر اقبال احمد قمر کو دیا گیا۔ بھوپال این آر آئی بیسٹ ایجوکیشن ایوارڈ 2017ڈاکٹر صدیق احمد کو دیا گیا۔لائف اچیومنٹ ایوارڈ 2017فٹ بال میں نمایاں خدمات پر ڈاکٹر عبدالسلام کنعیان کو دیا گیا۔
مزید پڑھیں:جون ایلیا، ایک مفکر اور حساس شاعر
اس مرحلے پر سامعین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ سامعین شعرا کو سننے کے لئے بے تاب تھے۔ جب پاپولر میرٹھی ، ماجد دیوبندی اور منظر بھوپالی شہ نشین پر موجو د ہوں تو سامعین کی بے قراری سمجھ میں آتی ہے۔ پرُجوش تالیوں کی گونج میں شعر ی نشست کا آغاز ہوا۔ شعرا بھی سامعین سے ہم کلام ہونے کے لئے بے تاب تھے۔ شعراءنے کلام کا آغاز کیا تو سامعین کے بے قرار چہروں پر خوشی کے آثار نمودار ہوئے۔شعراءنے اپنی اپنی شعر ی زنبیل سے اشعار کے موتی نکال کر سامعین پر نچھاور کرنا شروع کئے۔ الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ پہلے مقامی شعراءنے اپنا کلام سنایا اور مشاعرے کا ماحول بن گیا۔اس کے بعد خلیجی ممالک سے آئے ہوئے شعرا ءنے اپنے فن کا جادو جگانا شروع کیا، اب مشاعر ہ عروج پر پہنچ چکا تھا لیکن سامعین کی بے قراری ابھی تک باقی تھی ۔ اب پاپولر میرٹھی ، منظر بھوپالی اور ماجد دیوبند ی نے اپنا کلام سنایا تو سامعین نے دل کھول کر دا د دی۔ جبیل کی فضا میں ایک کامیاب اور یادگار مشاعرے کی کارروائی جاری تھی۔کاروانِ بھوپال نے ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا تھا۔ سامعین نے آخر تک بزم میں شریک رہ کر مشاعرے کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔
رات کا تیسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔مشاعرہ اپنی آب و تاب سے جاری تھا۔ رمیض مرزا، سید باقر علیگ، سلیم حسرت، سید شیراز مہدی ضیا، محمد ایوب صابر، سہیل ثاقب، اقبال احمد قمر، اشعرحسن، اقبال طارق، سید اعجاز پاپولر میرٹھی، منظر بھوپالی، ڈاکٹر ماجد دیوبندی اور سیدنعیم حامدعلی الحامد نے اپنا کلام پیش کیا۔ رفعت اقبال فاروقی نے انڈیا، پاکستان خلیجی ممالک اور مملکت سعودی عرب کے طول و عرض سے آئے ہوئے شعراء،مہمانان اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کاروانِ بھوپال کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے اور اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ امید ہے کہ آپ اِسی طرح ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔مزید معلومات کے لئے ہماری ویب سائٹ اور فیس بک پیج دیکھ لیجئے گا۔ا س طرح یہ یاد گار مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔ عامر اقبال، ارشد محسن بھوپالی، انجم خان، محمد شاداب خان، شاہد اعظمی، فیصل ظہیر خان، طاہر خان،انتخاب عالم، سید اطہر حسین، سید اشفاق حسین، فیضان ارشد، ایاز عرفان جعفری ، سید فیض علی، فیصل محمد اسلم، عرفان جعفری ، نغمہ صدیقی، طاہرہ رشید، حمیرا صدیقی، شبیہ بابر، صوفیہ ظہیر خان، شہلا اقبال، عفت عرفانہ، مسرت فرید، دیبہ شاہد، عرشیہ عامر، عروج فاطمہ صدیقی، ارفع بابر خان اور دوسرے مہمانان کی شرکت نے مشاعرے کو رونق افروز کیا۔سامعین کے ادبی ذوق کی تسکین کے لئے مشاعرے میں پیش کی گئی شاعری سے انتخاب حاضر خدمت:
٭٭سید باقر علیگ:
نہ ہندو ہیں نہ مسلم ہیں نہ اُن کا دین نہ مذہب
نظر آتے ہیں جو خبروں میں اکثر سُرخیاں بن کر
ہزاروں چہروں میں اُس کا ہی چہرہ ہے ستم ایجاد
مگر وہ سامنے آ تا ہے میرا مہرباں بن کر
٭٭٭
تم نہ آﺅ تو رات کچھ بھی نہیں
روشنی کی برات کچھ بھی نہیں
ساتھ ہو تم تو ساتھ ہے دنیا 
تم نہیں ہو تو ساتھ کچھ بھی نہیں
٭٭رمیض مرزا:
ہر غزل کا محور بس تمہی ہو کیا
دل کی گلیوں کے رہبر بس تمہی ہو کیا
امیدِ عشق میں گھر سے نکل پڑتا ہوں
یہاں حُسن کا پیکر بس تمہی ہو کیا
٭٭سلیم حسرت:
ناز نخرے بھی ہم اُٹھاتے ہیں
پیر بیگم کے ہم دباتے ہیں
تن کے پھرتے ہیں سامنے سب کے
گھر میں جورو کے جوتے کھاتے ہیں
٭٭٭
بیوی سے آنکھ لڑاﺅ تو کوئی بات بنے
سالے پہ رعب جماﺅ تو کوئی بات بنے
ڈانٹنا بچوں کو حسرت ہے کہاں کوئی کمال
ساس کو اپنی ڈراﺅ تو کوئی بات بنے 
٭٭شیراز مہدی ضیا:
غالب کا شعر راہِ ادب پر رواں دواں
غالب کا شعر ارضِ ادب کا ہے آسماں
غالب کا شعر خود میں ہے اک پوری داستاں
غالب کا شعر جتنا عیاں اتنا ہے نہاں
غالب کا شعر چہروں پہ رونق سجاتا ہے
موضوعِ عام کو وہ پر ی وش بناتا ہے
غالب کا شعر ہے دلِ نادان کی دوا
حد سے گزر کے بنتا ہے جو درد کی دوا
٭٭محمد ایوب صابر:
یہ دھرتی ہے مرا اعزاز میں ٹھہرا زمیں زادہ
زمیں دو گز کی خاطر وسعت ِ افلاک چھوڑ آیا
تلاشِ رزق میں نکلا تو خود کو کھو دیا میںنے
میں اکثر سوچتا ہوں کیوں وطن کی خاک چھوڑ آیا
٭٭٭
جس میں بیو ی کھیر کھائے شوق سے
چاٹتا ہے وہ پیالا زن مرید
ڈنڈا لے کے اُس کو صابر ڈھونڈتا
لفظ جس نے بھی نکالا زن مرید 
 ٭٭سہیل ثاقب:
سچ جو کہتاہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے
خود سروں کی مجھے دانائی سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کون سے منظر کو اتارے دل میں
اِس بھٹکتی ہوئی بینائی سے ڈر لگتا ہے
٭٭٭
 اپنا انکار بھی اقرار پہ رکھ دیتی ہو
تم توشرطیں بھی عجب پیار پہ رکھ دیتی ہو
٭٭اقبال احمد قمر:
نیا منظر سجایا جا رہا ہے
ہمیں جبراً دکھایا جا رہا ہے
محبت تھی کبھی لیکن میری جاں
بس اب رشتہ نبھایا جا رہاہے
٭٭٭
دل کی حالت پہ اگر پردہ بھی ڈالے کوئی 
دل یہ چاہے کہ وہی بات اچھالے کوئی
اتنا مشکل بھی نہیں ہوں کہ کبھی ہاتھ نہ آﺅں
اتنا آساں بھی نہیں ہوں کہ اُٹھا لے کوئی
٭٭اشعر حسن:
آگ سی جل رہی ہے سینے میں
اک تپش پل رہی ہے سینے میں
ہُو کا عالم ہے اور دبے پاﺅں
خا مشی چل رہی ہے سینے میں
٭٭٭
وہ ابّا کا بہت ہی دیر تک سینے سے لگنا تھا
مرا معصوم سے بچے کا بانہوں میں سمٹنا تھا
وہ امی کا مری خاطر سبھی کھانے بنانا تھا
میرا سر گود میں لے کر مجھے لوری سنانا تھا
وہ سب کتنا سہانا تھا 
٭٭اقبال طارق:
اپنی آنکھوں میں اب کھٹکتے ہیں
 چشمِ یاراں کا خواب تھے جب تھے
اب میسر کہاں ہیں خود کو بھی
ہاں ترے بے حساب تھے جب تھے
٭٭٭
وہ نیند خواب ہوئی ،آسمان خواب ہوا
وہ گھر خیال ہوا ،وہ مکان خواب ہوا
جہاں کے لوگ محبت کا استعار ہ تھے
جو پیار پیار تھا، اپنا جہان خواب ہوا
٭٭منظر بھوپالی:
ہمارے سر پھر ے جذبات قید ی بن نہیں سکتے
ہواﺅں کے لئے کیوں آپ زنجیریں بناتے ہیں
یقیں ہے مجھ کو بازی جیتنے کا ،فتح میری ہے
میں گلدستے بناتا ہوں وہ شمشیریں بناتے ہیں
٭٭٭
تمہارے وعدوں کا قد بھی تمہارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے
٭٭٭
میں اُس کے ہاتھ کی سو سو بلائیں لے لوں گا
کوئی چراغ جلادے اگر ہوا کے بغیر 
 ٭٭ماجد دیوبندی:
یہ تو سچ ہے کہ مکینوں سے مکاں زندہ ہیں
سوچنا یہ ہے کہ ہم لوگ کہاں زندہ ہیں
حکم یہ ہے کہ شہیدوں کو نہ مردہ سمجھیں
صرف ہو جاتے ہیں نظروں سے نہاں، زندہ ہیں
٭٭٭
 سلسلہ نہ چھوڑیں گے ہم بھی گھر بنانے کا
لا کھ خوف طاری ہو زلزلوں کے آنے کا
دوستو! شہادت کے ہم ازل سے عادی ہیں
مشغلہ ہمارا ہے حق پہ سر کٹانے کا
٭٭٭ 
سامانِ تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر، یہ مری شان نہیں ہے
اللہ، مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے 
٭٭پاپولر میرٹھی:
فنکار ہم ہیں ذہن کے اونچی اُڑان ہے
دنیا یہ جانتی ہے ہماری جو شان ہے
بیگم کہو گی ہم کو کہاں تک بُرا بھلا
بس چُپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
٭٭٭
کسی جلسے میں لیڈر نے یہ اعلان فرمایا
ہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہو جاﺅ
یکا یک لاﺅڈ اسپیکر سے گونجا فلم کا نغمہ
وطن کی آبرو خطر ے میں ہے،ہشیار ہو جاﺅ
٭٭٭
خوشی کی بھیڑ میں صدموں کے بم نہیں ملتے
نئے زمانے کے نیتا کو غم نہیں ملتے
جسے بھی ملنا ہو ہم سے کبھی ابھی مل لے
چناﺅ جیتنے کے بعد ہم نہیں ملتے
٭٭نعیم حامدعلی الحامد:
بے گنا ہ جب بھی سرِ دار نظر آتے ہیں
اک نئے دو ر کے آثار نظر آتے ہیں
صرف دشمن کی شجاعت ہی نہیں ہے فاتح
اپنی صف میں کئی غدار نظر آتے ہیں
٭٭٭
خلوصِ دل کا زمانے میں کال ہے کہ نہیں
تو ایسے دور میں جینا کمال ہے کہ نہیں
ہمیں تو سارے جہاں کا خیال رہتا ہے
کوئی ہمارا بھی پُرسانِ حال ہے کہ نہیں
٭٭٭
گھر بنایا تھا جو ہم نے سر چھپانے کے لئے
اُس میں ترسائے گئے ہیں دانے دانے کے لئے
کر دیا مجبور تم نے اِس لئے کہنا پڑا
ورنہ ہم احساں نہیں کرتے جتانے کے لئے
 

شیئر: