Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک شام ڈاکٹر ماجد دیو بندی کے نام

جدہ ( امین انصاری) نارتھ انڈین فریٹرنیٹی فورم جدہ نے ہندوستان کے مشہور و معروف شاعر  ڈاکٹرماجد دیوبندی کی جدہ آمد پر ایک شعری نشست "   ایک شام ڈاکٹر ماجد دیوبندی کے نام" کے عنوان سے منعقد کی ۔ اہل ذوق اور  اہل علم کو دعوت سخن دی گئی ۔ فریٹرنیٹی فورم مملکت میں جہاں  تارکین وطن کے مسائل اور ان کے حل کی کوششوں میں سرگرداں ہے وہیں وہ وطن عزیز سے آنے والے علمی ، ادبی اور سماجی شخصیات کی مملکت آمد پر ان کی پذیرائی کیلئے تقاریب کا انعقاد عمل میں لاتی ہے ۔گزشتہ دنوں ہندوستان کے شہر یافتہ شاعر نواز دیوبندی کی جدہ آمد پر بھی فورم نے شعری نشست کا اہتمام کیا تھا  جسے لوگوں نے خوب سراہا ۔ اس بار ماجد دیوبندی کی جدہ آمد کو غنیمت جانتے ہوئے فورم نے اہل اردو کو ایک بار پھر یکجا کیا ۔ اس موقع پر نارتھ انڈین فریٹرنیٹی فورم نے ماجد دیوبندی کا  ایک مختصر تعارفی  بروشر شائع کیا  جس میں ان کی شاعری کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا  گیا ۔ فورم نے کہا کہ ڈاکٹر ماجد دیوبندی اردو ادب اور اردوزبان کی بقاء اور اس کی ترویج کے لئے سرگرداں ہیں۔ ان کے فلاحی اور تنظیمی کام وسیع پیمانے پر جاری ہیں ۔ ماجد دیوبندی جب نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تو ان کا کلام سچے اور پکے  عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور جب وہ غزل کہتے ہیں تو ان کی شاعری حالات حاضرہ سے لیکر محبوب سے گفتگو تک کا احاطہ کرتی ہے ۔ انہوں نے قرآن مجید کی عظمت بیان کی تو یوں کہا۔ 
ہر لفظ کو سینے میں بسالو تو  بنے بات
طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے 
ماجد دیوبندی نے  جب نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم لکھی تو کہا کہ 
آقا کے مدینے کی ہر چیز مثالی ہے 
ذرے بھی نرالے ہیں مٹی بھی نرالی ہے 
سرکار کے کہنے سے مسجد میں اذاں دینا 
سرکار بھی سنتے ہیں  کیا شان  بلالی ہے 
جب غزل میں اتحاد کی بات کہی تو یوں گویا ہوئے ۔
جہاں میں اک مثال تھی ، ہمارے اتحاد کی 
الگ الگ ہوئے تو ہم ذرا سے ہوکے رہ گئے 
ماجد جب ماضی کو جب یاد کرتے ہیں تو یوں ہم کلام ہوتے ہیں  
ہم نے تو بنائے ہیں سمندر میں بھی راستے 
یوں ہم کو مٹانا کوئی آسان نہیں ہے 
ڈاکٹر ماجد دیوبندی جب انقلابی اشعار پڑھتے ہیں تو سامعین میں جوش اور ولولہ ٹھاٹھے مارنے لگتا ہے  اور جب وہ غزل میں  محبوب سے  باتیں کرنے لگتے ہیں تو  یہ انداز شرکاء محفل کو خیالات کے بھنور میں گھیر لیتا ہے ۔  یہی وہ وقت ہوتا ہے جہاںموصوف  کا کلام اور ان کی شخصیت لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنالیتی ہے اور وہ لوگوں کے پسندیدہ شاعروں کی فہرست میں داخل ہوجاتے ہیں۔
انڈین فریٹرنیٹی فورم کے عہدیداروں نے کہا کہ ماجد کی شاعری سر چڑھ کر بولتی ہے یہی وجہ تھی کہ 1993ء میں انہیں" صدر جمہوریہ "ایوارڈ اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر شنکر دیال ِشرما کے ہاتھوں عطا کیا گیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے بے شمار قومی اور بین الاقوامی  ایوارڈ حاصل کئے ۔
2000ء  میں ان کی شہر آفاق غزل " لہو لہو آنکھیں " منظر عام پر آئی تو وقت کے مورخ، دانشور ، شاعر ، ادیب اور فلاسفر جس میں خاص کر پروفیسر جگن ناتھ آزاد ، پروفیسر شمیم حنیف ، پروفیسر گوپی چند نارنگ ، ڈاکٹر بشیر بدر ، پروفیسر ملک زادہ منظور ، مظہر امام  اور ندا فاضلی جیسی نامور شخصیات نے ستائش کی اور ان کے کلام کو سراہا ۔ موصوف نے 2006  ء میں اپنا نعتیہ مجموعہ کلام " ذکر  رسول "  شائع کیا ۔ اس وقت کے ہندوستانی  وزیر اعظم آئی کے گجرال نے بہترین خدمات پر انہیں ایوارڈ سے نوازا ۔وہ بے شمار تنظیموں اور فلاحی اداروں سے منسلک ہیں اور اپنی قابلیت سے انکی سرپرستی اور رہنمائی کررہے ہیں ۔ وہ ایک اردو میگزین " آدبی میزان " کے ایڈیٹر بھی ہیں ۔ انڈین فریٹرنیٹی فورم نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے ایسی ہمہ گیر شخصیت آ ج ہمارے درمیان ہے  ہم ان کا استقبال کرتے ہیں اور انہیں عمرہ کی مبارکباد دیتے ہیں ۔ 
ماجد دیوبندی نے کہا کہ جدہ میں کلام سناتے ہوئے مجھے بے حد مسرت ہوتی ہے کیونکہ اس شہر سے حرمین کی قربت ہے ۔ انہوں نے حمد اور نعت شریف سے ابتداء کی اور سامعین کے قلوب کو گرما دیا ۔ بعدا زاں انہوں نے مسلسل 2گھنٹے تک اپنی شہرہ آفاق غزلیات سے نواز اور پھر فرمائش پر مزید غزل کے اشعار پیش کرتے رہے اور خوب داد سمیٹی ۔اس موقع پر انہوں نے نارتھ انڈین فریٹرنیٹی فورم کے ذمہ دارا کا شکریہ ادا کیا جنہو ںنے اہل علم کے درمیان انہیں اپنا کلام سنانے کا موقع فراہم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ فورم جہاں قوم و ملت کی فلاح و بہبود کا کام کررہی ہے وہیں وہ اردو کی بقا  اور اس کی ترویج کے سرگرداں ہے ۔اردو کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کی حفاظت کریں اور آنے والی نسلوں کو اردو سے روشناس کرائیں ۔ ان کے کلام سے چند اشعار قارئین کی نظر کرتے ہیں۔
اللہ میرے رزق کی برکت نہ چلی جائے 
دو روز سے گھر میں میرے مہمان نہیں ہے 
۔۔۔۔۔۔۔
تم گئے تو سحر ہوئی نہ نصیب
رات ہی آئی روز رات کے بعد
ناخلف کو بھی پیار کرتی ہے
ماں فقط ماں خدا کی ذات کے بعد 
کچھ تعلق رہا نہ دنیا سے 
ماجد ان سے تعلقات کے بعد 
۔۔۔۔۔۔
سخن میرا  جوہر سو بولتا ہے 
میرے الفاظ میں تو بولتا ہے 
غزل کا شعرتب ہوتا ہے روشن
کہ جب کاغذ پر آنسوں بولتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمحہ میں اسے بخش دیا آقا
حندہ جب حلقہ ایمان میں آجاتی ہے 
اپنے بندوں کو تباہی سے بچانے کیلئے 
جب بھی کشتی میری طوفان میں آجاتی ہے 
جسم کمزور ہو کتنا بھی کسی مومن کا 
اک توانائی سی رمضان میں آجاتی ہے 
 
 
 
 
 

شیئر: