Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ادب میں خطوط کی اہمیت ، لیٹر ٹو صادق علی خان کی اشاعت

 ڈاکٹر عابد علی۔ الخبر 
یوں تو دنیا میں خطوط پر مبنی بہت سی کتابیں شائع ہو چکیں جیسا کہ مرزا اسداللہ خاں غالب کی کتاب’’ ـعود ہندی‘ ‘ اور اردوئے معلی مولانا ابوالکلام آزادکی ’’غبار خاطر‘‘، پنڈت جواہرلعل نہرو کی ’’فادرز لیٹر ٹو ڈاٹرـ‘‘ چیسٹر فیلڈ نے ’’لیٹر ٹو سن‘‘، لیڈی میری ورٹلی ماونٹیگ نے اپنی کتاب جوخطوط پر مشتمل ہے ذہین، خودار مہذبانہ ترقیافتہ خواتین کی زندگی کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح پروفیسر صادق علی خاںنے جو کتاب لکھی ہے اس کا نام ’’ لیٹرز ٹو صادق علی خاں‘‘ ہے ۔ آپ جامعہ ملیہ دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور جامعہ ملیہ ملیر کراچی میں 14 سال لائبریرین رہے۔ 1964میںاعلیٰ تعلیم کے لیے لیڈز(لندن) گئے ۔ واپسی پر کراچی یونیورسٹی میں شعبہ لائیبریری انفارمیشن سائنس سے وابستہ رہے ۔ آپ کی خدمات مندرجہ ذیل ہیں۔
مجلس تعلیم ملّی پاکستان، لیڈز پبلک لا ئبریری انگلینڈ، ایسوسی ایٹ پروفیسر لائبریری انفارمیشن سائنس یونیورسٹی کراچی، سٹی لائبریرین آف کراچی میٹرو پولٹین کارپوریشن، سیکریٹری اینڈ پریزیڈنٹ PLAسندھ کونسل، سیکریٹری جنرل پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن۔
ڈاکٹر محمود حسین بانی مجلسِ تعلیم ملی کی وفات کے بعد آپ مجلس کے سیکریٹری رہے جبکہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی(مشہور سائنسدان) اور ڈاکٹر عطاالرحمٰن(ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیرمین)  مجلس کے صدر رہے۔
پروفیسرصادق علی خاں نے اپنی زندگی لائبریری سائنس کیلئے وقف کردی ہے ۔ ایجوکیشن اور لائبریری کو  موضوع بناتے ہوئے 15کتابیں لکھی ہیں۔لیٹرز ٹوصادق علی خاں آپکی پندرھویں کتاب ہے۔ اس کتاب میں جن خطوط کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں لائبریری سے متعلق اصلاحات اسکی ترویج و ترقی، لائبریری کے مسائل اور انکا حل کیسے نکالا جائے، کانفرنسوں  کا انعقاد، معلومات، اور legislation پر مبنی مواد ہے۔آپ کو لکھے گئے خطوط کے جواب میں خطوط آپ کوموصول ہوئے وہ ہیںجن میں ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ سے ڈاکٹر صاحب کا خط، این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے لائبریرین ، قائداعظم لائبریری لاہور کے ڈائریکٹر جنرل ائیر کموڈر انعام الحق، پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن اسلام آباد کے لائبریرین اختر این صدیقی، دی لائبریری ایسوسی ایشن آ ف آسٹریلیا کے ڈین، یونیورسٹی آف پشاور لائبریری کے اے یو خان، پروفیسر انیس خورشید کراچی یونیورسٹی ، ایشیا فاؤنڈیشن ، اٹلانٹا یونیورسٹی کے ڈین سزورجینا، منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسرعطاالرحمٰن ، NIPAکے اظہر رضوی، پنجاب یونیورسٹی کے بشیر احمد، برٹش لائبریری لندن کے ڈائریکٹر L.J.C.M، برٹش کونسل کراچی کے چیف لائبریرین جی رے ایوانس، آغاخان یونیورسٹی کے ڈین آف فیکلٹی David D.Ulamer، انڈیانا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کاسر، ملٹری سیکریٹری گورنر سندھ ونگ کمانڈر فہیم بیگ، ہمدرد فائونڈیشن، پروفیسر غفور احمد کراچی پورٹ ٹرسٹ افتخار نیازی، جواہرلعل نہرو یونیورسٹی دہلی کے گرجا کمار، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر جمیل جالبی، لائبریرین آف کانگریس واشنگٹن ڈی سیanes U- Biligton  Jلائبریری ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ Jeun Plas۔ جسٹس دوراب پٹیل چیئر سی اسٹبلشمنٹ  ڈویژن۔ سینٹرل لائبریری لندن، فلپائین لائبریری  ایسوسی ایشن کی سپریٹنڈنٹ Mrs. Lorito، ڈاکٹر محمود حسین وائس چانسلر ڈھاکا یونیورسٹی ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی محمود الحسن، IFLA نیدرلینڈ کے سیکریٹری جنرل Nargeet ، پروفیسر مشہور عالم شاہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی، احمد بلو یونیورسٹی نائیجیریا ، پروفیسر میر حسن جمالی بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ ، سینٹرل یونیورسٹی بہاولپورامریکن سینٹر لاہور، محمد سفیر رانا NIPA، سندھ یونیورسٹی معین الدین خان، القراء یونیورسٹی طائف سعودی عرب کے چیف لائبریرین محمد عادل عثمانی ، یونیورسٹی آف انجینیئرنگ ایند ٹیکنالوجی لاہور کے محمد رمضان ، مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو کی مسز ممتاز میمن ، نیشنل بک کونسل آف پاکستان کی ڈائریکٹر جنرل فہمیدہ ریاض، نیشنل لائبریری آف چائنا، پاکستان نیشنل سینٹر کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر نیلوفر عباسی، سندھ یونیورسٹی کی ڈاکٹر رضیہ احمد شیخ ، ایڈیٹر EISROPA پبلی کیشن لمیٹڈ انگلینڈ ، بوڈ لین لائبریری آکسفورڈ ،انڈیاآفس لائبریری لندن، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا۔پرانے زمانے میں کسی کا خط پڑھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ خط، چٹھی، پتر، لیٹر،نامہ، مکتوب کے نام سے جانے جانیوالے کاغذ پر لکھی تحریر کے بغیر کوئی دفتر یا ادارہ کام نہیں کر سکتا۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں خطوط خاص کر مکاتب سید سلیمان ندوی، مکاتب علامہ اقبال اور خطوط رشید احمد صدیقی پڑھائے جاتے تھے۔ در اصل خطوط بھی لٹریچر کی ایک قسم ہے اور ادب میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ ادیبوں دانشوروں کے لکھے ہوئے خطوط پر بہت ساری کتابیں آج بھی دنیا کی عظیم لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ مورخین اور سوانح نگاروں کی اکثر یت نجی خطوط پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور داخلی شہادتوں پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے۔اس کتاب میں لائبریرین شپ کے مستقبل کے بارے میں کافی مواد موجود ہے جس سے آنے والی نسلیں استفادہ کریں گی۔ اس کتاب میں 205خطوط شامل کئے گئے ہیں اور 485صفحا ت پر مشتمل ہے۔ آفسٹ پرنٹنگ کے ساتھ خورشید نشاں 115/216 درخشاں سوسائٹی ملیر کراچی سے شائع ہوئی۔ جسکی قیمت 550/= پاکستانی روپے مقرر کی گئی ہے۔ خطوط کو سنبھال کر رکھنا اور وہ بھی 50 سال سے زیادہ عرصہ پھر انہیں مرتب کرنا بڑی ہمت اور مشقت کا کام ہے جو  صادق علی خاں نے انجام دیا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ہیں یوں تو بے شمار وفا کی نشانیاں
لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمہارے خط
جیسے ہو عمربھر کا اثاثہ غریب کا
کچھ اس طرح سے میں نے سنبھالے تمہارے خط
 

شیئر: