آئندہ نسلوں کا حشر آئندہ نسلیں جانیں
میری تربیت اس ماحول میں ہوئی جہاں روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرجاتا تو اسے چوم کر واپس چنگیر میں رکھ دیا جاتا۔بوٹی یا آلو نیچے گر جاتا تو اسے دھو کے کھا لیا جاتا۔مگر وہ ماحول ، وہ دنیا ، وہ تربیت کچھ اور تھی۔
پاکستان کے شہروں میں ایسا کون شخص ہے جس نے ایک بار بھی یہ منظر نہ دیکھا ہو کہ کوئی بوڑھا ، جوان ، بچہ ، عورت ، لڑکی کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی سبزی یا پھل کو الٹ پلٹ کر قابلِ خورد ٹکڑا تلاش کر رہے ہوں اور پاس ہی ایک کتا یا بلی بھی اسی کام میں مصروف ہو۔
ہم میں سے لاکھوں لوگ روزانہ یا تو کسی ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں ، یا کسی تقریب میں جبلی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بریانی اور قورمے کے پہاڑ اپنی پلیٹ میں بناتے ہیں اور آدھا پہاڑ اسی پلیٹ میں چھوڑ کے میٹھے پر لپک پڑتے ہیں۔کبھی سوچا کہ جو کھانا ضائع ہوتا ہے یا استعمال نہیں ہو پاتا وہ کہاں جاتا ہے ؟
عالمی ادارہِ خوراک نے چار برس پہلے غیر استعمال شدہ کھانے کے بارے میں جامع رپورٹ شائع کی۔اس کے مطابق دنیا میں ہر رات لگ بھگ87 کروڑ افراد بھوکے سوتے ہیں ( ممکن ہے اب یہ تعداد بڑھ کے ایک ارب تک جا پہنچی ہو )۔رپورٹ کے مطابق ہم ہر سال 750 ارب ڈالر مالیت کا1.3 ارب ٹن کھانا ضائع کر دیتے ہیں۔ اس مسترد کھانے کے گلنے سڑنے سے سالانہ3.3 بلین ٹن گرین ہاؤس گیسز پیدا ہو کر خلا میں پہنچتی ہیں اور عالمی درجہ حرارت کے اضافے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔
جو ایک تہائی کھانا ہم ضائع کر دیتے ہیں اس کی تیاری میں جتنا پانی خرچ ہوتا ہے وہ روس کے سب سے بڑے دریا وولگا کے سالانہ بہاؤ کے برابر ہے۔ایک کلو چاول جو استعمال ہوئے بغیر ضائع ہوگیا اس کی پیداوار پر 2 ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔ایک کلو بیف جو ہم کوڑے میں پھینک دیتے ہیں اس کی نمو پذیری پر15ہزار لیٹر پانی صرف ہوتا ہے۔
جو کھانا ہم کبھی چکھتے بھی نہیں اسے پیدا کرنے میں کل عالمی زرعی رقبے کا28 فیصد استعمال ہوتا ہے اور اسے قابلِ خورد بنانے پر42 ارب ڈالر کا ایندھن صرف ہوتا ہے۔
پاکستان میں2013ء کے قومی غذائی سروے کے مطابق 58 فیصد خاندانوں کو یا تو پوری خوراک نہیں ملتی یا ناقص خوراک ملتی ہے۔5 برس سے کم عمر کا ہر چوتھا پاکستانی بچہ ناکافی غذائیت کا شکار ہونے کے سبب فطری جسمانی و ذہنی نشوونما سے محروم ہے۔ پاکستان نے ازخود اقوامِ متحدہ سے2000ء میں وعدہ کیا کہ اگلے پندرہ برس میں ناکافی غذائیت کے بحران کو کم از کم 50 فیصد تک کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔اب یہ ہدف2030ء تک بڑھا دیا گیا ہے۔
جرمن واچ گلوبل کلائمٹ انڈیکس کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی ابتری کے نتیجے میں پانی کی کمی کے سبب2030ء تک زرعی پیداوار میں پچاس فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔مگرالمیہ یوں ہے کہ رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لئے بنجر قطعات بسانے کے بجائے پھیلتے شہروں اور قصبوں کے نزدیک کی زرخیز زرعی زمینوں کو ہی مڈل کلاس رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ فوراً کروڑ پتی بنا جائے۔آئندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہوگا آئندہ نسلیں جانیں۔
اور آئندہ نسل کا انتظار کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے ؟ پاکستان میں دنیا کے بہترین پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔لیکن درجہ اول کی معیاری زرعی اجناس بیرونِ ملک برآمد ہو جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کو صرف بی اور سی درجے کا پھل اور سبزی درجہ اول کے نرخوں پر میسر ہے۔
ان حالات میں کاشتکار بھی کیوں نہ نقد آور فصلوں میں دلچسپی لے جب وہ دیکھے کہ آڑھتی اس سے5 روپے کلو آلو خرید کر منڈی میں 10 روپے کلو سپلائی کررہا ہے اور منڈی سے پرچون والا وہی آلو خرید کے اس صارف کو بیس تا پچیس روپے کلو بیچ رہا ہے جو صارف بذاتِ خود ناکافی غذائیت کے نرغے میں ہے۔یعنی کھیت سے آلو ڈھائی سو فیصد زائد قیمت پر صارف کے کچن تک پہنچ رہا ہے۔اس فارمولے کو آپ ہر سبزی اور پھل پر لاگو کر لیں۔ اگر حکومت مڈل مین کو بیچ میں سے نکال کر فارمر اور کنزیومر کو براہ راست رابطے کی سہولت فراہم کرے جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان ہے تو کاشتکار کو بھی اپنی فصل کی اچھی قیمت مل سکتی ہے اور صارف کو بھی یہ اشیا آدھی قیمت میں دستیاب ہوسکتی ہیں۔مگر حکومت یہ غیر ضروری کام کرے کیوں ؟
بچے کی جسمانی وذہنی نشو و نما میں دودھ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔پاکستان دودھ کی پیداوار کے عالمی چارٹ میں پانچویں نمبر پر ہے۔اس کے باوجود کوئی یہ المیہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ سب سے کم دودھ پاکستانی بچے کو ہی میسر آتا ہے اور اس کے اثرات جسم تاحیات بھگتتا ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں گاؤں سے ساٹھ روپے کلو دودھ خرید کے اسے ڈبہ پیک کر کے اسی کسان کو ایک سو بیس روپے فی کلو میں واپس کر رہی ہیں۔مگر ادھار کا مارا اور ترس ترس کے پیسے وصول کرنے کا عادی خوار کسان ملٹی نیشنل کارپوریشن سے ساٹھ روپے نقد اور فوری ملنے پر خوش ہے۔
کہنے کو پاکستان غذائی توانائی کے خزانے یعنی کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے عالمی رینکنگ میں پانچویں نمبر پر ہے مگر مکران کی بیگم جنگی کھجور کو پیک کر کے مارکیٹ کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور ایرانی کھجور ہر جگہ دستیاب ہے۔
بچپن میں جو دیسی رسیلی ناشپاتی کھائی اس کا سوچ کے آج بھی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔لیکن اب اس ناشپاتی کو چین سے آنے والی ناشپاتی نے بری طرح بیدخل کردیا ہے۔یہ سینکڑوں میں سے چند مثالیں ہیں۔گویا ہمارا حقِ انتخابِ غذا بھی اب غیروں کے ہاتھوں مقامی کاروباریوں کے توسط سے گروی ہو گیا۔