کہاجاتا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی رواداری کی روایت بہت قدیم ہے اور یہاں کے باشندے صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ میل محبت سے رہتے آئے ہیں۔ تاریخی کتابوں میں ایسے لاتعداد واقعات درج ہیں جن میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی مدد ہی نہیں کی بلکہ ایک دوسرے کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کردیں ۔آج بھی اس قسم کے واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ایسے تکلیف دہ واقعات بھی سامنے آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے 2بڑے فرقوں کے درمیان نفرت کی ایسی دیواریں کھڑی ہوگئی ہیں جنہیں عبور کرنا آسان نہیں ۔
آج ہمارا ملک فرقہ وارانہ منافرت اور دشمنی کی انتہاؤں کو چھورہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف اکثریتی فرقے کی طرف سے جس قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ کیاجارہا ہے ،وہ یقینا اس ملک کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ۔ حال ہی میں بی جے پی کے اقتدار والی ریاست راجستھان میں ایک غریب مسلمان مزدور کے ساتھ ہونے والی وحشت وبربریت نے سبھی کے رونگٹے کھڑے کردیئے ہیں۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس واقعہ کی سبھی نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے لیکن اس کے بعد کے واقعات نے ایک بالکل مختلف اور پریشان کن تصویر پیش کی ہے۔
راجستھان کے راج سمند شہر میں بنگالی مزدور افرازالحق کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں نذرآتش کرنے اور پھر اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال کر ’جہادیوں‘ کو اپنے انجام سے باخبررہنے کی دھمکی دینے والا وحشی درندہ شمبھولال فی الحال پولیس کی تحویل میں ہے اور اس کے خلاف قتل اور ثبوتوں کو مٹانے کا مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ایک طرف جہاں پولیس اس درندے کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے تو وہیں دوسری طرف راجستھان میں ایک ایسا طبقہ سامنے آیا ہے جو شمبھولال کو باعزت بری کرانے اور اس کے اہل خانہ کو مالی مدد پہنچانے کے لئے باقاعدہ چندہ جمع کررہا ہے۔
راجستھان پولیس نے شمبھولال کی اہلیہ کے نام سے چلنے والے ایک ایسے بینک اکاؤنٹ کو منجمد کیا ہے جس میں چند روز کے اندر 3 لاکھ روپے کا چندہ جمع ہوچکا ہے۔ یہ رقم شمبھولال کو قانونی مدد فراہم کرنے اور اسکے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے جمع کی گئی ہے۔ پورے ملک سے 516 عطیہ دہندگان نے نیٹ بینکنگ کے ذریعے شمبھولال کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں یہ رقم جمع کرائی ہے۔ انگریزی روز نامہ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع شدہ تفصیلات کے مطابق پولیس نے 2ایسے تاجروں کو بھی گرفتار کیا ہے جنہوں نے شمبھولال کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں اپنی طرف سے امدادی رقم جمع کرکے اس کی رسید سوشل میڈیا پر ڈالی تھی تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب حاصل ہو۔ اودے پور پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے والے لوگوں سے شمبھول لال کے رابطوں کی جانچ کررہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اودے پور ضلع میں شمبھولال کی حمایت میں بعض ہند گروپوںکی طرف سے ریلی نکالی گئی اور مظاہرین نے دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود کورٹ چوراہے پر پُرتشدد مظاہرہ کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مظاہرے کے دوران شرپسند پیچھے کی بلڈنگ سے کورٹ کی چھت پر چڑھ گئے اور انہوں نے وہاں سے قومی پرچم ہٹاکر بھگوا جھنڈا لہرادیا۔ شرپسندوں نے عدالت کے اندر بھی دھاوابولا اور وہاں موجود پولیس فورس کے لوگوں سے ہاتھاپائی کی۔ پولیس اور مظاہرین میں جھڑپوں کے دوران کئی افسر اور جوان زخمی ہوگئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شمبھولال کی حمایت میں سڑکوں پر اترنے والے ہندتو وادی وہاں مکمل جنگل راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔
درندہ صفت شمبھولال نے افرازالحق کو جس بربریت اور وحشت کے ساتھ قتل کرکے اس کی لاش کو نذرآتش کیا تھا اور جس طرح انسانیت کو شرمسار کرنے والی اس واردات کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیاپر ڈالی تھی اُس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس درندگی اور بربریت کو ہر شخص مسترد کردے گا ۔ یہاں تک کہ ابتدا میں شمبھولال کی اہلیہ نے بھی اپنے درندہ صفت شوہر کیلئے عبرتناک سزا کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس واردات کے چندروز بعد ہی شمبھولال کی حمایت اور تعریف میں ہندتووادی پوری بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ سب سے پہلے راج سمند علاقے کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شمبھولال کی درندگی کو خراج تحسین پیش کیاگیا اور اسے ہندتو کا محافظ قرار دیاگیا۔ اس گروپ میں بی جے پی کے مقامی ممبرپارلیمنٹ اور ممبراسمبلی بھی شامل تھے۔ اسکے بعد سوشل میڈیا پر شمبھولال کو بری کرانے کے لئے قانونی مدد پہنچانے اور اس کے گھر والوں کو راشن پانی فراہم کرنے کی اپیلیں منظرعام پر آنے لگیں۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ اور فسطائی طاقتوں نے ایک ایسی ذہنیت کو منصوبہ بند طریقے سے فروغ دیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ہر ظلم اور زیادتی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس انسانیت دشمن ذہنیت کو خوراک پہنچانے والے لوگ حکمراں جماعت میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ آپ ذرا پیچھے کی طرف جائیں تو نظر آئے گا کہ مظفرنگر کی قتل وغارتگری کے ملزمان کو آگرہ کی بی جے پی ریلی کے دوران پگڑیاں باندھ کر حوصلہ افزائی کی گئی تھی ۔
دا دری میں محمد اخلاق کے قاتلوں کو قانونی امداد پہنچاکر ہائی کورٹ سے ضمانت دلانے والے لوگ بھی وہی تھے جو آج شمبھولال کے لئے چندہ جمع کررہے ہیں۔
محمد اخلاق قتل کیس کے ملزمان کو حکومت ہند کے ایک ذیلی ادارے میں ملازمتیں بھی ایک خاص مقصد کے تحت دلائی گئی تھیں۔
الور میں پہلو خان کے قاتلوں کو کمزور پیروی کی بنیاد پر بری کیا جانا بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اگر آپ تھوڑا اور دور جانا چاہیں تو سادھوی پرگیہ ، سوامی اسیماننداور کرنل پروہت جیسے دہشتگردی کے ملزمان کو کلین چٹ بھی اسی ذہنیت نے دلوائی تھی۔ اس قسم کے درجنوں واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں جن میں فرقہ وارانہ منافرت اور قتل وغارتگری کا ارتکاب کرنے والوں کو بھرپور قانونی، اخلاقی اور مالی مدد مہیا کرائی گئی ہے۔ اگر ملک میں قتل اور دہشتگردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرموں کے ساتھ ہمدردی کا یہی چلن برقرار رہا تو پھر اس ملک سے انصاف کا جنازہ نکل جائے گا۔