رام مندر بنانے کیلئے پیسے کا کھیل اپنے عروج پر ہے اور جولوگ اس معاملے میں مذاکرات کا ڈرامہ رچارہے ہیں
یوپی کے بھگواپوش وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کی مہم کاآغاز ایودھیا سے’ ’جے شری رام‘‘ کے نعروں کے ساتھ کیا ہے۔ جب جب بی جے پی کی سیاسی حالت خراب ہوتی ہے تو وہ رام مندر کے نعرے بلند کرنے لگتی ہے۔ ایودھیا کا تنازع ایک ایسا موضوع ہے جو بی جے پی کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے بہت راس آتا ہے اور وہ اسے ہر انتخابات کے موقع پربھنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ بی جے پی کی پوری سیاسی پونجی یہی تنازع ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقا م پر رام مندر کی تعمیر کے خونی کھیل نے ہی بی جے پی کو عروج بخشا تھا اور وہی بابری مسجد کی شہادت کیلئے براہ راست ذمہ دار بھی ہے۔
جب بابری مسجد کا وجود قائم تھا تو مسلمانوں کیخلاف نفرت پھیلاکر سیاست کی روٹیاں سینکی جاتی تھیں اور اسکے بعد وہاں عظیم الشان رام مندر کے نعرے پر ووٹ مانگے جانے لگے ہیں۔ بی جے پی بظاہر ترقی اور وکاس کی بات کرتی ہے لیکن اس کی نگاہ ہمیشہ ایسے فرقہ وارانہ موضوعات پر مرکوز رہتی ہے جن کے ذریعے وہ ملک میںمنافرت پھیلاکر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرسکے۔ 2014کے انتخابات میں وزیراعظم نریندرمودی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے اور انہیں جو سنہری خواب دکھائے گئے تھے، وہ پوری طرح جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔ ملک کے عوام مودی سرکار کے ناعاقبت اندیشانہ معاشی فیصلوںاور عوام دشمن پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں اور وہ 2019 کے عام انتخابات میں مودی سرکار کو سبق سکھانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ مودی سرکار عوامی مخالفت کے اس سیلاب کو روکنے کیلئے ہمیشہ کی طرح ایک ایسے موضوع کی تلاش میں ہے جس کی بنیاد پرلوگ اپنے بنیادی مسائل بھول جائیں اور مذہبی جذبات کی رو میں بہہ کر ایک بارپھر اقتداربی جے پی کو سونپ دیں۔ ظاہر ہے بی جے پی کے پاس را م مندر سے بڑا جذباتی موضوع کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا لہٰذا اس مو ضوع کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حکومت کے سامنے رام مندر کی تعمیر میں سب سے بڑا رخنہ مسلمان ہیں جن کے پاس بابری مسجد کا حق ملکیت ہے لہٰذا جب تک مسلمان بابری مسجد کی اراضی سے دستبردار نہیں ہوجاتے اس وقت تک وہاں رام مندر تعمیر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا حکومت نے درپردہ ایک ایسی حکمت عملی تیار کی ہے جس کی رو سے وہ مذاکرات کے ذریعے عدالت سے باہر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔ اس کام کیلئے بعض ایسے نام نہاد مسلمانوں کو خرید لیاگیا ہے جو ضمیر اور ضرورت کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتے۔ مودی سرکارنے خود پس منظر میں ر ہ کر ایک مذہبی رہنما شری شری روی شنکر کو آگے کردیا ہے جو ان نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈرامہ رچارہے ہیں جن کا اس تنازع سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔
شری شری روی شنکر بظاہر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک غیر جانبدار مذاکرات کار کے طورپر اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ بات بھی سبھی کو معلوم ہے کہ شری شری روی شنکر بنیادی طورپر آر ایس ایس کے آدمی ہیں اور ان کابنیادی مقصد زرخرید مسلمانوں سے مذاکرات کا ڈرامہ رچاکر انہیں بابری مسجد کی اراضی سے دستبرداری کیلئے آمادہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں یوپی شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی اور بعض دیگر خودساختہ پیروکاروں سے انہوں نے مسلمانوں کا نمائندہ بتاکر مذاکرات شروع کردیئے ہیں۔ شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین کا دعویٰ ہے کہ بابری مسجد کو مغل بادشاہ بابر کے جس سپہ سالار میرباقی نے تعمیر کرایا تھا وہ شیعہ تھا لہٰذا بابری مسجد شیعوں کی ملکیت ہے اور اس کا فیصلہ شیعہ ہی کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود شیعہ فرقہ کے بڑے رہنماؤں نے وسیم رضوی کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ایک بے کردار شخص قرار دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وسیم رضوی نے بے غیرتی کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے ایران سے ایک ایسا فتویٰ بھی منگوالیاہے جو انہیں بابری مسجد سے دستبردار ہونے کا اختیار دیتا ہے۔ ایک اور صاحب خود کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا وارث قرار دے کر میدان میں کود پڑے ہیں اور خود کو بابری مسجد کی سوداگری کیلئے پیش کررہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کے اس ڈرامے سے شری شری روی شنکر کو کیا حاصل ہوگا کیونکہ وہ جن لوگوں سے بات چیت کررہے ہیں ان کی مسلمانوں میں کوئی حیثیت نہیں۔ دوسری طرف خود ہندو فریق بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ عدالت میں سنی سینٹرل وقف بورڈ ہی بابری مسجد کے مقدمے کا پیرو کار ہے لہٰذا اس سے بات چیت کے بغیر کوئی حل نہیں نکلے گا۔ اس دوران ایک ٹی وی چینل کے اسٹنگ آپریشن میں یہ دعویٰ کیاگیاہے کہ مندرکی تعمیر کیلئے سنی وقف بورڈ کو 20کروڑ روپے تک کی پیشکش کی گئی ہے۔ اسٹنگ آپریشن میں نرموہی اکھاڑہ کے مہنت دینندر داس مندر کے بدلے پیسے کی پیشکش کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سمجھوتہ یہی ہوگا کہ آپ پیسے لے کر ہٹ جاؤاور مندر بننے دو۔ اسٹنگ میں داس یہ بھی کہتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں کہ سنی وقف بورڈ سے بات چیت کی جائیگی اور مقدمے میں خرچ پیسے بھی دیئے جائیں گے۔ اس درمیان نرموہی اکھاڑے نے وشوہندوپریشد پر یہ سنسنی خیزالزام بھی لگایا ہے کہ وہ مندر کے نام پر 1400 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا ملزم ہے۔ نرموہی اکھاڑے کی طرف سے بات کرتے ہوئے سنت سیتا رام نے کہاکہ وشوہندوپریشد نے گھرگھرجاکر ایک ایک اینٹ مانگی ،پیسہ جمع کیا اور اس پیسے کو کھاگئے۔ ان اطلاعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رام مندر بنانے کیلئے پیسے کا کھیل اپنے عروج پر ہے اور جولوگ اس معاملے میں مذاکرات کا ڈرامہ رچارہے ہیں، وہ بھی بظاہر سِکوں کی جھنکار پر رقص کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
شری شری روی شنکر نے جو پہل کی ہے اس کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اکھاڑہ پریشد کے سابق صدر مہنت گیان داس ان کیخلاف کھلے عام بیان دے رہے ہیں۔ بابری مسجد کی ملکیت کا مقدمہ فی الوقت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے جہاں5دسمبر سے یومیہ سماعت شروع ہونے والی ہے۔