احتجاج سے کیا ہوگا، یہ تو صرف وسیلہ ہے
ام مزمل۔جدہ
وہ حسن بے خبر تھی،وہ مبہوت تھا ۔رشتہ بھیجا تو وہاں سے انکار نہیں ہوا اور اب وہ اپنی سہیلی کو فون پر بتا رہی تھی۔کتنی عجیب بات ہے جس خواہش کو پوری کرنے کے لئے انسان اپنے پورے وسائل استعمال میں لاتا ہے اور جب اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو کسی اور معرکے کو سر کرنے کی جدوجہد میں پوری توانائی صرف کرنے میں دیگر ذمہ داریوںسے صرف نظر کرتا ہے۔
اس کی سہیلی نے سوال کیاکہ آخر ہوا کیا ہے؟ وہ بتانے لگی جب تک ہمارے والدین اس ملک میں تھے ،وہ سچ مچ اتنا ہی فرمانبردار بنا رہا کہ اس جیسا کوئی دوسرا نہ ہو گا اور اب کئی دنوں سے غائب ہے اور گھر پر پکانے کے لئے کچھ بھی نہیں کوئی سوچ سکتا ہے کہ جسے اتنی تگ وود سے اپنی زندگی میں شامل کیا جائے ، اسے اس حال میں شہر سے دور بیاباں میں اکیلے گھر میں تنہا اس صورت میں چھوڑ دیا جائے کہ اسکے کھانے پینے کا سامان بھی موجود نہ ہو۔ سہیلی نے کہا کہ شہر سے باہر تو اس وجہ سے گھر لیا تھا کہ کوئی وقت بے وقت مہمان آکر مبارکباد دینے کے بہانے ایسی کوئی بات نہ کرے جو اس نئے جوڑے میں دراڑڈال دے۔ وہ کہنے لگی کہ ایسی بے بسی سے تو اچھا تھا کہ میں اس شہر میں نہ آتی اور اگر آبھی گئی تھی تو اپنے والدین کے ہمراہ واپس چلی جاتی ، ان پریشان کن حالات سے تو بچ جاتی۔
سہیلی نے کہا تم اپنے شوہر کی غیبت مجھ سے کر رہی ہو اور میں سن بھی رہی ہوں۔ اس طرح میں بھی گناہگار بن رہی ہوں۔ اب میرے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کرنا کہ جس کی وجہ سے اپنی نیکیاں دوسروں کے اکاﺅ نٹ میں ٹرانسفر کرنی پڑیں۔ تم مجھے بتاﺅ کیا تمہارے پاس پینے کا پانی موجود ہے اور کیا گھر کا چولہا کام کر رہا ہے اور کیا تمہارے پاس کھجور ،خشک میوہ اور بسکٹ وغیرہ موجود ہیں؟ وہ جواب میں کہہ رہی تھی کہ ہاں یہ سب تو موجود ہے ۔ سہیلی نے کہاکہ قرون خیر میں بھی اسلام کی مقدس ہستیوںکے مبارک گھر وںمیں روزانہ چولھا نہیں جلتا تھا۔ بس ایسا ہی سوچو اور مالک حقیقی سے رابطہ مضبوط بناﺅ۔
وہ گھر میں چند موجود کتابیں ختم کر چکی تھی۔ آج اس نے ترجمے کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تھا اور ایک دنیا اس کے سامنے کھل رہی تھی۔ اس نے اس بات پر کبھی غور بھی نہیں کیا تھا کہ ہمارے ساتھ جو بھی حالات آتے ہیں وہ دراصل ہماری تربیت کرتے ہیں اور اسی کا اجر ملتا ہے ۔احتجاج کرنے سے کیا ہو گا یہ سب تو وسیلہ ہے ۔اصل بات تو یہی ہے کہ مالک حقیقی سے مدد مانگی جائے تو دروازہ کھلنے لگے گا اور اس کے لئے کوشش کرنا بھی درست ہے لیکن پہلے دعا کریں اور بہت ممکن ہے کہ قدرت ایسے وسائل پیدا کردے کہ جس مسئلے کے حل کے لئے احتجاج کیا جانا ہو، وہ خیال انکے ذہن میں خود آجائے اور مسئلہ حل ہو جائے۔
وہ آگیا تھا، بتا رہا تھا کہ کسی پریشانی میں گھر گیا تھا لیکن پوری امید تھی کہ وہ ہمت سے کام لے گی اور پریشان نہیں ہوگی۔اس نے سوچاکہ وہ اپنے رب کریم کی طرف سے نازل کی گئی کتاب مبین سے مستحکم رابطہ نہ جوڑتی کہ جس کی توفیق اسے مالک حقیقی نے دی تھی تو وہ پریشانی میں گرفتار رہتی۔ پریشان کن خیالات اسے مضطرب رکھتے۔
جاننا چاہئے ،ہر لمحہ انسان قدرت کی طرف سے دئیے گئے امتحانی پرچے کو اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق حل کرتا رہتا ہے جسکا نتیجہ آخرت میں نامہ¿ اعمال کی صورت میں ہر ایک کو ملے گا۔