Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمت ، محبت اور قربانی کی منہ بولتی تصویر

یہ سہاگنیں سمجھتی ہیں شوہرکے دل میں ان کی محبت تنہا نہیں، حُبِ وطن شریک ہے
اُ م دانیال۔مشی گن
سردیوں کی شام تھی۔ وہ ایک لمحے کواس کو دیکھ کر رک سی گئی۔ سفید دوپٹے کے ہالے میں کاندھوں تک کالی شال لپیٹے اس کا چہرہ اتنا پروقار اور سکون لئے ہوئے تھا کہ ایک لمحے کو وہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسی کیا بات ہے اس چہرے میں کہ اس سے ملنے اور بات کرنے کو دل چاہنے لگا۔ وہ جو اپنے بارے میں یہ جانتی تھی کہ کبھی کوئی خاص شخصیت بھی اس کو مرعوب نہیں کر سکی۔ جب لڑکیاں ہیروز اور کرکٹرز کے پیچھے دیوانوں کی طرح بھاگتی تھیں، تب بھی وہ دور ہی رہتی تھی۔ وہ ان کی خداداد صلاحیتوں کی قدر کرتی تھی لیکن انہیں اپنے جیسا انسان سمجھتی تھی تو آج کیوں محسوس ہونے لگا کہ کچھ تو ہے جو اس کو مرعوب کر رہا ہے۔ شایدیہ سب کچھ اس کے چہرے کے وقارکا سبب ہے ۔
وہ آگے بڑھی ، دعا سلام کے بعد اس کے بارے میں کچھ بات چیت کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ کھڑی سہیلی نے بتایا کہ وہ ایک وقت میں کالج میں ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ جب فائنل ایئرمیں اس کی پڑھائی ختم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی کی منگی، کسی کا نکاح اور کسی کی شادی کی تیاریاں شروع تھیں کیونکہ عموماً لڑکیوں کی تعلیم ختم ہوتے ہی ماں باپ یہ ذمہ داری پوری کرنا چاہتے ہیں۔ بعد میں وہ اپنا کریئر ساتھ لے کر چلیں یا کوئی ذمہ داریوں میں الجھ کر کریئر کو خیرباد کہہ دے تو یہ آنے والے وقت پر منحصر ہوتاہے۔ بہر حال سب ہی لڑکیاں ان تین ، چار امکانات کی عادی ہوتی ہیں۔ 
وہ لڑکی کہیں باہر نہیں جا رہی تھی ۔کسی خالہ زاد یا ماموں زاد سے شادی نہیں کررہی تھی بلکہ وہ ایک آرمی افسر سے شادی کر رہی تھی۔ اور لڑکیاں اس کی قسمت پر رشک کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ہمت کی داد بھی دے رہی تھیں کیونکہ مشہور تھا کہ آرمی افسر کی بیگمات بڑے ٹھاٹ سے رہتی ہیں کیونکہ انہیں بیٹ مین تو ملتے ہی ہیں لیکن یہ سب دور سے نظر آنی والی چیزیں ہیں۔ جب آپ قریب سے دیکھیں اور سمجھیں کہ یہ خواتین جو کسی آرمی افسر کی یاایئر فورس کے پائلٹ کی یا بحریہ کے کسی فوجی جوان یا کپتان کی شریک حیات ہوتی ہیں ، یہ سچ مچ ہمت ، محبت اور قربانی کی منہ بولتی تصویر ہوتی ہیں۔ ایک فوجی جو وطن کی محبت سے سرشار سرحدوں پر وطن و قوم کی خدمت کر رہا ہوتا ہے، یہ خواتین اپنے گھروں میں اپنے شوہر کی ذمہ داریوں کو انتہائی احسن طریقے سے نبھا رہی ہوتی ہیں۔ والدین اور بچوں سب کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لیتی ہیں ۔ روزمرہ زندگی گزرتے ہوئے بھی ایک بڑا مقصدہمیشہ ، ہر لمحے انکے پیشِ نظر رہتا ہے کہ ان کے شوہر وطن کے لئے قربانی دے رہے ہیں تو کچھ فرض ان کابھی بنتا ہے۔ ان سے دور رہ کربھی ان کے لئے راحت و سکون کا سامان فراہم کرنا او رہر لمحے ہمت اور جرا¿ت کی تصویر بنے رہنا او ران کی ہمت اور حوصلے کو مہمیز دینا ان خواتین کا شعارِ زندگی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ایک دھڑکا بھی ان کے دامن گیر رہتا ہے کہ کچھ معلوم نہیں کب اور کس وقت وطن کو ان کے سہاگ کی قربانی کی ضرورت پڑجائے اور وہ کسی محاذ سے شہید بن کر واپس آئیں۔ یہ سہاگنیں اس کے لئے بھی تیار رہتی ہیں۔ یہ ہمت اور عزم ، یہ جذبہ¿ قربانی، بلا شبہ وطن کی محبت ہی عطا کرتی ہے ۔ وہ اس حقیقت کو اپنی سوچ کی بنیاد بنا لیتی ہیں کہ شوہرکے دل میں ان کی محبت تنہا نہیں بلکہ حُبِ وطن اس محبت میں شریک ہے۔وہ اس شراکت کو بصد افتخار قبول کرتی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ ان کا ہمسفرصرف انہی کی عفت و عصمت کا محافظ ہی نہیں بلکہ ناموسِ وطن کا پاسبان بھی ہے۔ یہ ایسا جذبہ¿ قربانی ہے کہ اگر اس کا عشر عشیر بھی پاکستانی خواتین میں پیدا ہوجائے تو زندگی بے حدسہل اور مامون ہو جائے ۔ فی الحال حقیقت یہ ہے کہ آج کل کی بیویوں کو اپنا شوہر صرف اور صرف اپنا نظر آتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ ان کا شوہر کسی کا بیٹا اور کسی کا بھائی بھی ہے۔ ایسی خواتین کو فوجی کہلانے والے وطن کے ان محافظوں کی بیگمات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 
 

شیئر: