ہمارے معاشرے میں اچھے رشتوں کا کال
عنبرین فیض احمد۔ کراچی
یہ تو ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ طے ہوتے ہیں پھر بھی ہر کوئی رشتے نہ ہونے یا دیر سے ہونے کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خاص کر لڑکی کے والدین زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔روز بروز یہ مسئلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہردوسرے گھر میں یہی مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ لڑکیوں کی عمریں گزرتی جا رہی ہیں اور والدین کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ وہ اس پریشانی میں وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یقینا سب کو اپنی اولاد کے اس فرض سے جلد از جلد فارغ ہونے کی خواہش ہوتی ہے کیونکہ اولاد کی جوانی والدین کی نظروں کے سامنے ڈھلتے موسموں کی طرح ہوتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ میاں اور بیوی جب زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ایسے گھرانے کی بنیاد رکھتے ہیں جس پر ان کے خاندان کی آئندہ نسلوں کی خوشیوں کا انحصار ہوتا ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ آج کے دور میں لڑکا بلند معیار زندگی کے چکروں میںعمر کے قیمتی سال ضائع کر دیتا ہے جو اسے اپنی شریک سفر اور آنے والی اولاد کے ساتھ گزارنے چاہئیں تھے ۔ اس مادی دور کی خواہشات کے چکر میں آج کے نوجوان اپنے آپ کوپیستے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ میڈیا کے زیر اثر ہونے کے باعث خوبصورتی اور گلیمر کا بھوت لوگوں پر سوار ہو چکا ہے اس کی وجہ سے لڑکے اور اس کے والدین آنے والی بہو کے روپ میں ایک سجی سجائی ماڈل تلاش کرتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کا معیار اس قدر تلخ ہو چکا ہے کہ مناسب شکل و صورت کی لڑکیاں بھی مسترد کر دی جاتی ہیں۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیںکہ ایک سانولے اور عام قد وقامت والے لڑکے کے لئے اس کے والدین نہایت حسین و جمیل ،خوبصورت اور گوری بہو کی جستجو کرتے ہیں جبکہ ان کے اپنے گھر میں سانولی رنگت والی ان کی بیٹی رشتے کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے اور اس کی عمر گزر رہی ہوتی ہے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہ انہیں نظر نہیں آتی حالانکہ دیکھا جائے تو وہ خو دبھی اسی کشتی پر سوار ہوتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ددسری قابل مذمت بات یہ ہے کہ اگر کہیں لڑکیوں کے اچھے رشتے آتے بھی ہیں تو والدین یا تو خود منع کر دیتے ہیں یا پھر لڑکیاں انکار کر دیتی ہیں پھر خوب سے خوب تر کی تلاش جاری و ساری رہتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے والدین کو اپنی بچیوں کے لئے وہ دن دیکھنے پڑتے ہیں جو انہیں ایسی منزل پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ لڑکا جیسا بھی ہو ، منظور ہے۔
اگر کسی خاندان میں لڑکی کے معیار کے مطابق مناسب رشتہ نہ آرہا ہو تو اکثر مائیں یہ کہتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں کہ میری بیٹی کے رشتے پر کسی نے بندش لگوا دی ہے ،کچھ کروا دیا ہے وغیرہ وغیرہ اور ایسی بہت سی باتیں کہی اور سنی جاتی ہیں جو ان کی پریشانیوں او راذیتوں کو کم کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے گھروں پر نت نئی مصیبتیں او راذتیں دستک دیتی رہتی ہیں پھر ایسے لوگ توہم پرستی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔پیروں، فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں او رٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں۔ وہ پریشانی کے عالم میں عجیب و غریب حربے استعمال کر بیٹھتے ہیں جس کا انہیں خو دبھی اندازہ نہیں ہوتا ۔
آج کے دور میں زیادہ تر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی بچی کی شادی کسی ایسے نوجوان سے کرنا چاہتے ہیں جس کا خاندان مختصر ہو ، لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو ، کوٹھی اورکار کا مالک ہو۔ اس قسم کی سوچ رکھنے اورغیر ضروری معیار بنا لینے سے یقینا رشتوں میں مزید رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رشتو ں کی تلاش میںلڑکے والوں کا معیار بھی ظاہری خوبصورتی ہوتا ہے جس سے معاشرے میں کافی لوگوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہے۔ اکثر رشتے سے انکار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ لڑکی کی سانولی رنگت ہے یا موٹی ناک ، ہے ،چھوٹا قد، چھوٹی آنکھیں ہیں۔ دیکھا جائے تو کسی بھی انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی انسان کی شکل و صورت پرتبصرہ کرے کیونکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ یقینا ہم ایسے معیارات متعین کر کے در حقیقت گناہ کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اچھے رشتوںکا معاشرے میں کال پڑچکاہے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ برائیوں کی آندھیاں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور معاشرہ برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ہمیں کسی بات کا ہوش نہیں رہا۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں کہ ہماری نوجوان نسل بہت تیزی سے تباہی کی روش اپنا رہی ہے اور ہمارے خوابیدہ معاشرے کو اس تباہی کی سنگینی کا نہ تو اندازہ ہے اور نہ ہی پروا۔