Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قطر اور ہتھیار خریدنے کی پالیسی

سعودی اخبارالشرق الاوسط میں شائع ہونیوالے کالم بعنوان ’’قطر اور ہتھیار خریدنے کی پالیسی‘‘کا ترجمہ  نذرقارئین ہے
قطر اور ہتھیار خریدنے کی پالیسی
عبدالرحمن الراشد - - الشرق الاوسط
    قطر نے حالیہ دنوں میں اسلحہ کے جتنے سودے کئے ہیں وہ قطر کی آبادی اور رقبے سے 10گنا بڑی ریاست کے تحفظ کیلئے کافی ثابت ہونگے۔ قطر نے عرب پڑوسیوں کے ساتھ اختلافات شروع ہونے پر بہت سارے ہتھیارخریدے۔ برطانیہ سے 24ٹائفن طیارے، امریکہ سے 15-Fلڑاکا طیارے، 12ارب ڈالر میں حاصل کئے۔ فرانس سے 24جنگی طیارے، اٹلی سے 7جنگی جہاز 6عرب ڈالر میں خریدے۔ جرمنی سے 2ارب ڈالر میں 62ٹینک اور ترکی سے 2ارب ڈالر میں عسکری ساز و سامان لیا۔قطر نے مذکورہ ممالک کے ساتھ اسلحہ کے جتنے بھی سودے کئے وہ سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے تھے۔ قطری حکام کا مقصد سعودی عرب، مصر ، امارات اور بحرین کے خلاف بڑے ممالک کو اپنی صف میں شامل کرنا تھا۔ پہلے سودے سے لیکر تاحیال بائیکاٹ کرنیوالے عرب ممالک کے ساتھ بحران کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ قطر کو مذکورہ سودوں کا کوئی خاص سیاسی فائدہ بھی نہیں ہوا۔ اتنا بیشک ہوا کہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک نے مصالحت کی ترغیب اور بائیکاٹ ختم کرنے کی اپیلیں جاری کیں جن پر فریق ثانی نے کان نہیں دھرا۔
    قطر کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جو ہتھیار اس نے بڑے ممالک سے خریدے ہیں ان کا بنیادی فائدہ 4خلیجی ممالک کو ہوگا۔ یہ ہتھیار صرف اس صورت میں قطر کیلئے موثر ہونگے جب مشترکہ دفاعی معاہدے کے تحت استعمال ہونگے۔ قطری حکام کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ انہوں نے جلد بازی میں ہتھیاروں کے سودوں کا جو فیصلہ کیا اسلحہ گوداموں میں بھرے اس سے نہ سعودی عرب خوفزہ ہے اور نہ دیگر 3ممالک ۔ان چاروں عرب ملکوں کو قطری بحران ختم ہونے کی صورت میں مذکورہ ہتھیار فائدہ پہنچائیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ بحران 4برس میں حل ہوگا یا نہیں میں یہ تخمینہ بھی نہیں لگا سکتا کہ فریقین کے درمیان برپا جھگڑا کس طرح دوستانہ انداز میں طے ہوگا۔ ممکن ہے جھگڑا طول پکڑ جائے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس بحران سے نقصان صرف قطر کو پہنچ رہا ہے ۔ چاروں عرب ممالک کی سوچ یہ ہے کہ قطری بحران معمولی مسئلہ ہے انہیں قطر کی ضرورت بھی نہیں۔ برسہا برس جھگڑا برقرار رہے تو بھی ان پر کوئی منفی اثر نہیں پڑیگا۔
    چونکہ قطری حکام نے اسلحہ کے سودے سیاسی حل کے طور پر کئے تھے لہذا ہم قطری حکومت سے دریافت کرسکتے ہیں کہ اس نے اب تک ان سودوں سے کیا کمایا؟۔ قطر نے امریکہ کے ساتھ سیکیورٹی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے اس کے تحت قطر کو ایسے کئی فیصلوں سے دستبردار ہونا پڑا جن کی بابت و ہ آنا کانی سے کام لیتا رہا تھا۔قطری حکام امریکیوں کو اپنے یہاں جملہ مالیاتی سرگرمیوں کی بابت مطلع کرنے کے پابند ہوگئے ہیں۔ ایسی ہر مالیاتی سرگرمی جو شکوک و شبہات کے دائرے میں ہوگی اس کی بابت قطر کو تمام مطلوبہ معلومات امریکہ کے حوالے کرنی ہوگی۔ قطری حکام اس مفاہمتی یادداشت کے بموجب ایسے کئی مطلوبین کو گرفتار کرنے اور دیگر کو قطر سے بیدخل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ماضی میں قطری حکام اس قسم کے اقدامات سے پہلو تہی کرتے رہتے تھے۔ اب انہوں نے بحران کا دائرہ بڑھنے کے خدشے سے امریکیوں سے تعاون شروع کردیا ہے۔ انسداد دہشتگردی کے علمبردارعرب ممالک نے گزشتہ دنوں قطر میں مطلوب امریکی فہرست کو اپنی فہرست میں شامل کرکے قطر کو ایک اور آزمائش میں ڈال دیا۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ فوجی سودوں نے قطر کو ایسا کوئی خاص فائدہ نہیں پہچایا جس کا وہ آرزو مند تھا۔اگر اسلحہ کے سودوں سے قطری حکام کا موثر سعودی عرب، مصر، امارات اور بحرین کو بائیکاٹ ختم کرانے کیلئے امریکی اثرو رسوخ سے فائدہ اٹھانا تھا۔ ہدف حاصل نہیں ہوا۔قطری جہاز ابھی تک کویت میں اپنے اونٹ چراگاہوں کیلئے پہنچانے پر مجبور ہیں ۔ اسی طرح قطری طیارے برطانیہ اور آسٹریلیا سے گائے درآمد کئے چلے جارہے ہیں۔ قطر کی سرحدیںبند ہونے کی وجہ سے وہ اس قسم کے اقدامات پر مجبور ہے۔ اگر اسلحہ کے سودوں کا ہدف قطر کو عسکری تحفظ حاصل کرنا تھا تو یہ بھی عجیب و غریب ہدف تھا۔ چاروں عرب ممالک قطر کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر قطر کا ہدف یہ ہے کہ وہ چاروں عرب ممالک کے بالمقابل زیادہ ہتھیار خریدنے اور اسلحہ حاصل کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو یہ بات سادہ لوحی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ سعودی عرب، مصر، امارات اور بحرین کے مشترکہ وسائل بہت زیادہ ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ وقت قطر کے حق میں نہیں ۔انسداد دہشتگردی کے علمبردار ممالک کسی بھی دباؤ سے بالاہوکر کام کررہے ہیں اور سرحدیں بند کرکے قطر کے ساتھ معاملات پر بندش لگائے ہوئے ہیں۔عرب ممالک نے یہ اقدام قطر کو اپنے اندرونی امور میں مداخلت کے مسائل سے بچاؤ کیلئے کیاہے۔

 

شیئر:

متعلقہ خبریں