سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار” المدینہ“ اخبار میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے:۔
سعودی مدیر کی مشکل
ایمن بدر کریم ۔ المدینہ
میں آج ایک ایسی صورتحال کی جانب اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتاہوں جسے میں نے ہی نہیں دیگر لوگوں نے بھی یقینا دیکھا اور محسوس کیا ہوگا۔ بہت سارے سعودی عہدیدار غیر ملکیوں یا غیر سعودیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔سرکاری اور نجی اداروں میں باصلاحیت سعودیوں کے بجائے غیر ملکیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
غالباً یہ بات نو ٹ کرنے والا میں تنہا نہیں ہوں کہ ”سعودی مدیر مختلف عرب اور غیر ممالک کے شہریوں کو صرف اسلئے ملازمت دیتا ہے تاکہ دفتر ی امور کی انجام دہی میں انکے تجربے اور انکی لیاقت سے استفادہ کرسکے۔ سعودی مدیر ان لوگوں کو ایسی پوزیشنیں دیتا ہے جن پر براجمان ہوکر وہ دفاتر کے مدیران اور شعبوں کے سربراہوں کو کنٹرول کرسکیں۔ اس طرح یہ غیر ملکی ملازم مختلف عہدوں کے مستحق باصلاحیت سعودیوں کو اداروں کی سربراہی سے باز رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
سعودی مدیر غیر ملکیوں کی وفاداریاں حاصل کرکے اپنے عہدے کو محفوظ کرلیتا ہے۔ غیر ملکی کارکن ادنی تھکاوٹ ، لاپروائی ، سوال، مطالبے اور ناگواری کا اظہار کئے بغیر کام نمٹاتے رہتے ہیں۔ اعلیٰ سعودی عہدیدار کے تصور کے مطابق سارے کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ دیگر کے مقابلے میں کم لاگت پر کام کرتے ہیں۔ انکی اولیں ترجیح نہ تو دفتری عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوتا ہے اور نہ ہی اسے بہتر بنانا انکی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ انکی پہلی اور آخری ترجیح سعودی مدیر کی خوشنودی کا حصول رہتی ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ غیر ملکی کارکن سعودی مدیر کے نجی مفاد کے چکر میں سعودی شہریوں کو چلتا کردیتے ہیں یا انہیں اشتعال دلا کر کسی مشکل میں پھنسا دیتے ہیں۔ غیر ملکی کارکن ملازمت کے معاہدے کی سالانہ تجدید کو یقینی بنانے کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں۔
سعودی مدیر ایسے غیر ملکی کارکن کو کسی نہ کسی شکل میں سعودی ملازمین پر ترجیح دیتا ہے۔ اس قسم کے غیر ملکی کارکن کو نہ صرف یہ کہ غلطیوں پر نظرانداز کیا جاتا ہے بلکہ غلطیوں کی باقاعدہ اجازت بھی دیدی جاتی ہے۔
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ بے شمار تجربات نے یہ بات اچھی طرح سے ثابت کردی ہے کہ بعض باصلاحیت سعودی شہری جب جب اعلی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو عہدے کا قلمدان سنبھالتے ہی سعودی رفقائے کار کے ساتھ انکے طور طریقے اور ان کے اخلاق تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سعودی مدیر ہموطنوں کے ساتھ ملازمت کے معاملے میں قانون کی روح کے منافی معاملہ کرتے ہیں۔ انکے ساتھ تکلیف دہ دفتری طور طریقے اختیار کرتے ہیں۔اس صورتحال نے ایک او رصورتحال کو جنم دے رکھا ہے اور وہ یہ کہ بہت سارے سعودی ملازم سعودی مدیر کے بجائے غیر ملکی مدیر کو ترجیح دینے لگے ہیں۔جب جب سعودی ملازمین کو ایسا کوئی موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے شعبے یا اپنے ادارے یا اپنی کمپنی کا مدیر سعودی کو بنوائیں یا غیر ملکی کو تو وہ سعودی کے مقابلے میں غیر ملکی کو مدیر بنانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ سوچ یہ بن گئی ہے کہ غیر ملکی مدیر سعودی مدیر سے زیادہ رحمدل اور زیادہ موثر ہوگا۔
غالباً اصل مسئلہ سعودی یا غیر سعودی مدیر کا نہیں۔ اسی طرح سے سعودی ملازم یا غیر ملکی ملازم بھی مسئلے کی جڑ نہیں۔ اصل آفت دفتری قوانین و ضوابط ہیں۔ اصل مسئلہ ملازمت دینے والے پرانے بانجھ قسم کے طور طریقے ہیں ۔جب جب کسی مدیر یا کسی عہدیدار کا انتخاب کیا جاتا ہے تو اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ مطلوبہ عہدے کیلئے مقرر صلاحیت ، استعداد اور تجربہ رکھتا ہے یا نہیں۔ تقرری کے وقت سفارش، یاری دوستی ، جماعتی وابستگی اور انتظامی بدعنوانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی بات ہے جس کی وجہ سے نااہل سعودی یا غیر سعودی مدیر بن جاتے ہیں اور وہ نجی مفادات کے چکر میں کارکنان پر حکم چلاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اور نجی ادارے بدعنوان کھلاڑیوں کا پتہ لگانے والے وسائل اپنائیں۔ ایماندار اور باصلاحیت افراد کی تقرری کو یقینی بنانے والے ضابطے وضع کریں۔ ایسا ہوگا تب ہی بات بنے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭