جاوید اختر جاوید۔جہلم
عروض نام ہے موزوں اور غیر مو زوں کلام کا۔ خلیل ابن احمد اس فن کا موجد تھا ۔ بصرہ جس کا مسکن تھا۔ شعر شعور سے نکلا ہے جس کا مطلب کسی چیز کو جاننا اور پہچاننا ہے اور شعر اس کلام ِ مو زوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ شعر دراصل لفظی مصوری ہے:
لفظ جو شعر میں ہو گا عابد
وہ انگوٹھی میں نگینہ ہو گا
علم عروض کو جاننے کیلئے فنی ریاضت درکار ہو تی ہے۔ یہ ایک مشکل فن ہے جسے سادہ بنانے کی بڑی کوششیں کی گئی مگر فاعلاتن، فاعلات کا عقدہ نہ کھلا اور پیچیدگیاں بڑھتی گئیں۔ فی زمانہ اس میں بعض تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ فارسی اور اردو کے اپنے لوچ کے مطابق اس میں کچھ تبدیلیاںہو ئی ہیں۔ جو رائج الوقت ہیں۔ اس ساری تمہید کا مقصد طارق محمود طارق کے فکرو فن پر اور کلام ِ بلاغت نظام پر چند سطور لکھنا۔ان کو ہم سے بچھڑے ہو ئے کئی سال گزر چکے ہیں اور وہ ہمارے سخن ساتھی تھے جو منطقہ شرقیہ کے ریگزاروں کو اپنے سخن کے چراغ سے روشن کرتے رہے ان کے کلام میں معدن ِ شعری ہے ابلاغ کی تفہیم ہے جوشِ جنون ہے، سوزِ دوروں ہے، ادب تنقیدِ حیات ہے، تعبیر حیات ہے، تفسیر حیات ہے، اور تطہیر حیات ہے۔ حرف کا مطلب بات سخن اور کلمہ ہو تا ہے ۔ لفظ منہ سے نکلی ہوئی آواز کو کہتے ہیںاور لفظ حروف کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کتاب فنکار خونِ جگرسے تخلیق ہو تی ہے۔ طارق محمود طارق کے شعری مجموعہ " تیسرا موسم " گلشن حیات میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ اور وہ ایک شعری گلدستہ ہے جو غم کی پرچھائیوں سے نشاط کی چندکلیاں چن کر مطلع ذہن پر لطیف تاثر قائم کرتا ہے اور دل و دماغ کو روشن کرتا ہے۔ طارق کی شاعری کا مرکز ارض پاک ہے۔ جب ان کے کلام میں لک دانائی اونچی اڑان بھرتی ہے جس کے بل بوتے پر شعور و آگہی سے وہ جھولیاں بھرتے ہیں۔ طارق محمود طارق ایک فکری اور فطری شاعر ہے اس کی شاعری نو خیزدلوں کو آباد کرتی ہے۔ فکر و خیال کی آغوش میں پرورش پا کر حیات آفریں اسلوب پیدا کرتی ہے کیونکہ Life is Short اور Art is Long ۔ طارق محمودطارق لمحہ موجود کو جب نظم کرتے ہیں تو لمحہ مو جود منظوم تاریخ بن جاتا ہے۔ طارق کے کلام سے انتخاب پیش خدمت ہے:
مقتل میں سر بلند جو پرچم نہیں ہوا
شاید یقین آپ کا محکم نہیں ہوا
چارہ گروں کی بھیڑ، بدن زخم زخم تھا
لیکن کبھی میں طالب مرہم نہیں ہوا
٭٭٭
میرے قاتل کی اذیت کو یہی کافی ہے
شہر قاتل میں میرا سوگ منایا جائے
٭٭٭
ادب جس کو کو ئی پڑھتاہے نہیں ہے
بہت بھرپور لکھا جا رہا ہے
جو مالک ہے ہنر کا اپنے طارق
اسے مزدورلکھا جا رہا ہے
٭٭٭
تمہارے حسن کی مرہون منت ہیں مری غزلیں
میں جیتا جاگتا اک دلنشیں دیوان رکھتا ہوں
٭٭٭
ہاواں ہو کے بھر دی پئی سی
بیری اُتے بور نہیں سی
آخر میں اپنا منظوم پنجابی اظہاریہ :
اج فکرو فن دیاں گلاں کرئیے
کجھ اپنے من دیاں گلاں کرئیے
سچے لفظ لکھدے رہیئے
تے سچ نال رہن دیاں گلاں کرئیے