افواج پاکستان کی یقین دہانی، ہوا کا تازہ جھونکا
پاکستان کی عرصۂ دراز سے گھٹن آلود اور بڑی حد تک مایوس کن فضا میں اس ہفتے خوش گوار تبدیلی رونما ہوئی جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمان کے ایوان بالا کو کھلے اور غیر مبہم الفاظ میں جمہوریت کو کسی قسم کے خطرے سے محفوظ رہنے کی یقین دہانی کروائی۔ 19 دسمبر اس لحاظ سے ملکی تاریخ کا ایک یادگار دن گنا جائیگا۔ مستقبل کے مؤرخین اس بات کو بار بار دہراتے رہیں گے کہ پاکستان، جہاں جمہوریت پر اکثر و بیشتر شب خون مارا جاتا رہا ہو، وہاں فوج کے سربراہ کا کہنا کہ صدارتی نظام ملک کو کمزور کرتا ہے۔افواج پاکستان جمہوریت کو پروان چڑھانا چاہتی ہیں۔یقیناحوصلہ افزا امر ہے، اس سے پہلے کبھی بھی کسی فوجی ترجمان یا آرمی چیف نے ایسی بات نہیں کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ ہوا کے تازہ جھونکے سے کم نہیں تھا۔ کہانی یہ ہے کہ سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے 12 دسمبر کو آرمی چیف سے درخواست کی تھی کہ وہ سینیٹ کے ارکان سے ملاقات کریں تاکہ ملکی سلامتی کے معاملات پر سیرحاصل گفتگو ہوسکے۔ جنرل باجوہ لبیک کہتے ہوئے، بہ نفسِ نفیس اپنے ساتھ آئی ایس آئی کے چیف اور آئی ایس پی آر کے سربراہان کو بھی لے کر سینیٹ پہنچے۔ ایک گھنٹے تک آئی ایس آئی چیف نے ایوانِ بالا کے ارکان کے سامنے بند کمرے میں پاک ہند، پاکستان افغانستان، خطے کی صورت حال اور بین الاقوامی امور پر فوج کا نقطۂ نظر پیش کیا، جس کے بعد جنرل باجوہ نے تین گھنٹے تک مسلسل سینیٹرز کے سوالات کے جواب دئیے اور اُنہیں یقین دلایا کہ پارلیمان کو مضبوط تر ہونا چاہیے، بلکہ امورِ دفاع اور خارجہ پر پالیسی بھی بنانا چاہیے، تاکہ افواجِ پاکستان کی بھی رہنمائی ہوسکے اور ملک میں استحکام ہو، ایک اور بات جو اُنہوں نے زور دے کر کہی وہ یہ تھی کہ سیاست دان غلطیاں نہ کریں، سوچ سمجھ کے قومی امور پر پالیسیاں مرتب کریں، تاکہ فوج کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے۔
پاکستان میں 1958 سے 1999 تک چار مرتبہ مارشل لا لگا، آمر اقتدار پر قابض رہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ آمر ایک دفعہ عنان حکومت سنبھال لیتا ہے تو پھر جانے کی بات بھلا دی جاتی ہے اور جب بالآخر وہ رخصت ہوتا ہے تو مسائل کا انبار پیچھے چھوڑ جاتا ہے، جسے بعد میں سیاسی حکومتیں ٹھیک کرنے میں اچھا خاصا وقت ضائع کردیتی ہیں۔ ملکی ترقی ناصرف رُک جاتی ہے بلکہ ترقیٔ معکوس میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
’’آئین سے ماورا کردار کی خواہش نہیں۔ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، عوام کو جواب دہ ہیں۔‘‘ یہ تھے وہ الفاظ جو جنرل باجوہ نے بھرے ایوان میں کہے۔ طویل اور تاریخی اجلاس کے بعد کئی ایک سینیٹرز (جن میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف اور دوسری تمام جماعتوں کے نمائندگان شامل تھے) نے دوٹوک الفاظ میں فوج کی اس یقین دہانی پر اطمینان کا نہ صرف سانس لیا بلکہ کھل کر اُس کی تعریف کی۔ یہ اجلاس اس لیے بھی اہم تھا کہ پچھلے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے افواہیں گردش کررہی تھیں کہ شاید 2018 میں انتخابات نہ ہوپائیں، کوئی ٹیکنوکریٹ یا چنیدہ چنیدہ نمائندوں کی کابینہ بنادی جائے جو دو یا تین سال برسراقتدار رہ کر سیاست کو پراگندہ کرنے والے مسائل سے چھٹکارا دلواسکے۔ ایسا تجربہ بنگلادیش میں کامیاب ہوچکا ہے۔ فوج نے ایسی تمام افواہوں پر پانی پھیر دیا۔ ساتھ ہی ایک اور خوش گوار تبدیلی بھی اُسی دن رونما ہوئی۔ سینیٹ نے قومی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے متعلق آئینی بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرکے قبل ازوقت انتخابات کا معاملہ بھی حل کردیا۔ الیکشن کمیشن کو تین مہینے نئی حلقہ بندیاں کرنے میں لگ جائیں گے… ظاہر ہے کہ اگر اپریل تک یہ کام مکمل ہوا تو 60 دن مزید انتخابات کے لیے درکار ہوں گے اور اس طرح 2018 کے وسط میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوگئی۔ آرمی چیف نے اس بات کی طرف بھی اشارہ دیا کہ خطے پر فوج کی گہری نظر ہے۔ ملکی سلامتی کے کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان ہر لمحہ تیار ہیں۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں ہونے والی تبدیلیاں نظرانداز نہیں کرسکتے۔
لیکن مصیبت ابھی پوری طرح ٹلی نہیں۔ نواز شریف نے ایک بار پھر فضا مکدر کردی۔ جہاں ایک طرح قوم میں خوداعتمادی آئی تھی، وہیں سابق وزیراعظم کی چیخ و پکار کہ وہ کوئی اندھے بہرے یا بھیڑ بکریاں نہیں کہ جب چاہا ایک منتخب وزیراعظم کو نکال باہر کردیا جائے۔ ’’یہ سکّہ شاہی نہیں چلے گی۔ جج صاحبان اُس وقت کہاں تھے جب ملٹری حکومت کو آئینی قرار دیا جاتا رہا، نظریۂ ضرورت کا سہارا لے کر فوجی سربراہان کو ہار پہنائے جاتے رہے۔ اگر (ن) لیگ نے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی تھی تو اب وہ عدل کے لیے تحریک چلائیں گے۔‘‘ بھلا تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کیسے چپ رہتے، فوراً ہی اُنہوں نے بیان داغ دیا کہ ہمت ہے تو عدلیہ کے خلاف تحریک چلا کر دِکھائو۔ ہم بھی سڑکوں پر ہوں گے اور عدلیہ کی حفاظت میں سینہ سپر ہوں گے۔ علامہ طاہر القادری (جو کئی ہفتوں سے پاکستان میں مقیم ہیں) نے بھی عمران کی حمایت کردی اور 2014 میں ہونے والے سانحۂ ماڈل ٹائون، جس میں 14 افراد شہید کردیے گئے تھے، پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اﷲ کو لوگوں پر گولیاں چلانے کے الزام میں مستعفی ہونے کا پھر شدّت سے نعرہ لگادیا۔
بے یقینی کی صورت حال پھر لوٹتی نظر آئی، بلکہ لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں کہ آخر قوم کس طرف جارہی ہے۔ معاشی صورتِ حال زبوں حالی کا شکار ہے۔ روپے کی قدر و قیمت میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ برآمدات اور بیرونی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلِ زرمبادلہ بھی گھٹتی چلی جارہی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کا بُرا حال ہے، سرمایہ لگانے والوں کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ مہنگائی کا ایک ایسا طوفان ملک کی طرف رُخ کیے ہوئے ہے، جس سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن لگ رہا ہے۔ لوگوں کے روزگار کا کیا ہوگا، تجارتی خسارہ مزید کتنا بڑھے گا؟ یہ تمام کے تمام اہم سوالات ہیں، جن کے جواب حکومتِ وقت کے پاس نہیں۔ ملک بغیر کسی وزیر خزانہ کے چل رہا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نت نئے مسائل سے دوچار نظر آتی ہے۔ ہوگا کیا؟ یہ سوال ہر دوسرے شخص کی زبان پر ہے۔