بات پہنچی نگراں وزیر اعظم کی تقرری تک
مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، بانیٔ ایم کیو ایم کا کردار، کراچی میں نشستوں کی بندر بانٹ، ذہن کچھ انہی قسم کی سوچوں میں اُلجھا ہوا تھا کہ ایک نئی اُفتاد آن پڑی۔ ایک نیا بلوہ کھڑا ہوگیا۔ ایک غلطی نے ملک کو جہنم بنادیا۔ پاکستانی آئین میں دیے ہوئے حلف نامے (جو صدر مملکت، وزیراعظم، پارلیمنٹرینز کے لیے بنایا گیا تھا) میں کہیں کسی کی غلطی سے قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیم کے ڈرافٹ میں غلطی رہ گئی۔ 2دن تک تو کسی نے نوٹس نہیں لیا، لیکن بات جب پکڑ میں آجائے تو طول پکڑ لیتی ہے۔ قومی اسمبلی سے آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد بھی، قریباً 200 مظاہرین نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی شاہراہ کے کونے پر دھرنا دیا کہ ختم نبوت مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا پیغام ہے، غلطی کرنے والے کو سزا دی جائے۔ حکومت وضاحتیں کرتی رہی کہ یہ کسی کلرک کی غلطی سے ہوا تھا، بدطینتی کا شائبہ تک نہیں تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب حکومت ان حضرات کو بآسانی بات چیت کے ذریعے گھروں کو بھیجنے میں کامیاب ہوسکتی تھی، لیکن ہمارے نئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے ٹیلیویژن پر اعلان کردیا کہ کوئی زور زبردستی کی ضرورت نہیں، چند لوگ ہیں خود ہی سمجھ جائیں گے۔ یہ بیان دیتے وقت وہ بھول گئے کہ معاملہ سنگین شکل بھی اختیار کرسکتا ہے اور صورتحال انتہائی نازک موڑ پر بھی پہنچ سکتی ہے۔ 2روز ہوئے، 3، 4 پھر ایک ہفتہ اور بڑھتے بڑھتے 18 روز تک یہ دھرنا جم غفیر کی شکل اختیار کر گیا۔ اسلام آباد کی گلیاں بند ہوگئیں، اسکول، کالج، تعلیمی ادارے، دفاتر سب بند۔ رات میں ملک کا دارالحکومت کرفیو کا منظر پیش کرنے لگا، ہر طرف سناٹا، ہو کا عالم… وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ سے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ً بات آگے بڑھی تو فوج بلانا پڑ گئی۔ فوج نے خود کو اہم تنصیبات مثلاً ریڈیو، پاکستان ٹیلیویژن، ایوان صدر، پارلیمنٹ ہائوس تک ہی محدود رکھا۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بیان دیا کہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔فوج زور زبردستی کی حامی نہیں ۔ حکومت تو بے بس ہو ہی گئی تھی۔ بات اسلام آباد تک ہی رہتی تو غنیمت تھی، وہ تو پورے پاکستان کی گلیوں، کوچوں میں پھیل گئی۔ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب ہر جگہ، سڑکیں بند، ٹریفک کا آنا جانا مشکل، کراچی میں ایئرپورٹ کے راستے میں مظاہرین نے دھرنا دیا۔ لوگوں کو ایئرپورٹ جانا مشکل ہوگیا۔ رینجرز کو اسلام آباد میں دھرنے کی جگہ یعنی فیض آباد پر تعینات کردیا گیا۔ عوام پریشان اور خوف زدہ تھے۔ کچھ لوگ تو ملک کو خانہ جنگی کی طرف جاتے ہوئے دیکھنے لگے۔ ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوچکے تھے۔ سارا ملک مفلوج ہوکر رہ گیا، حکومت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہ گئی تھی۔
تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات نعیم الحق اورفواد چوہدری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت فوراً مستعفی ہوجائے۔ وزیر داخلہ پر دبائو بڑھنے لگا کہ استعفیٰ دے دیں لیکن فال وزیر قانون زاہد حامد کے نام نکلا اور وزیراعظم سعودی عرب کے ایک روزہ دورے پر جانے سے پہلے ان سے استعفیٰ لے چکے تھے۔ حالات پھر بھی قابو میں آتے دُور تک نظر نہیں آتے تھے، یکایک خبر آئی کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے زاہد حامد کو مجبور کیا کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔ کچھ چینلوں نے یہ فلم بھی چلائی جس میں شہباز شریف چیختے چنگھاڑتے نظر آئے کہ ہمارے قائد (نواز شریف) نے کہہ دیا ہے کہ جس کی غلطی ہے اُسے کابینہ سے نکال دیا جائے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ بات وفاق سے نکل کر پنجاب تک آپہنچی تھی اور خود شہباز شریف بھی شعلوں کی زد میں دِکھائی دینے لگ گئے تھے۔ رینجرز کے افسران نے معاملات نمٹائے۔ بہرحال خدا خدا کرکے قصّہ ختم ہوا، دھرنے والے گھروں کو لوٹ گئے، لیکن لاہور اور قصور کے درمیان دھرنا کرنے والے رانا ثناء اﷲ کے استعفے پر مُصر تھے۔
ذمے داری کس کی تھی۔ حکمرانوں کی، یا دھرنیوالوںکی یا… کچھ بھی مسئلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ آج ہی کے اخبارات میں ہے کہ نااہل وزیراعظم (جو اَب تک اصلی وزیراعظم ہی ہیں) نے احسن اقبال کو ڈانٹ پلادی کہ پوری بات کا پتا کیوں نہیں چلایا گیا۔ 3 روز کے اندر پورے واقعے کی تفصیلات نواز شریف کو پیش کی جائیں۔ اُن کے غصّے سے ظاہر تھا کہ معاملات سنگین حد تک پہنچ گئے تھے یا پہنچادیے گئے تھے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی منسٹر انوشے رحمن کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ وہ بھی اُس ترمیم کی غلطیوں کی ذمے دار تھیں۔ سینیٹ میں ایوانِ اقتدار کے رہنما راجہ ظفر کے ماتحت ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی،جس کی رپورٹ 25 دسمبر کو آئے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کی رپورٹ میں3,2 وزرا کے بھی نام ہیں، گویا اب بات سازش تک جاپہنچی ہے تو پھر ایک مؤقر اخبار کی شہ سرخیوں کی خبر کہ نگراں وزیراعظم کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) وجیہہ الدین کا نام تک چن لیا گیا ہے۔ اُنہوں نے ابھی تک حامی نہیں بھری لیکن کچھ تو دال میں کالا نظر آنا شروع ہوگیا۔ اب تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نواز شریف کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ دیکھیں بات کہاں جاکر رُکتی ہے؟؟