Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

القدس پر برطانیہ کا مثبت موقف

 عاصم حمدان ۔ المدینہ
القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کی بابت امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں برطانیہ کا موقف مثبت رہا۔ اکثر ممالک نے امریکی صدر کے احمقانہ اقدام کی مذمت کی۔ اس ماحول میں برطانیہ کا موقف خلاف توقع مثبت رہا۔ خلاف توقع اسلئے تھا کیونکہ ان دنوں برطانیہ نے بیلفور ڈیکلیئریشن کا صد سالہ جشن منایا تھا۔ اس تناظر میں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف موقف کا مظاہرہ حیرت کا باعث بنا۔
برطانوی موقف کے اسباب و محرکات کیا ہیں؟اس کا تجزیہ ضروری ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ مصر پر سہ جہتی حملہ برطانیہ اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا تھا۔ مصر پر سہ جہتی حملے کے بعدامریکہ کا اثر و نفوذ بڑھ گیا۔ سب سے زیادہ طاقتور ملک امریکہ ہی بن گیا جس نے مشرق وسطیٰ کے بحران میں واحد موثر طاقت کی حیثیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد قدامت پرستوں کی جماعت میں 2رجحان ابھرے۔ ان میں سے ایک امریکہ اسکے لے پالک اسرائیل کا مدد گار بن گیا جبکہ دوسرے فریق نے بین الاقوامی مسائل خصوصاً فلسطینی بحران کو برطانیہ کے مفادات کے ترازو سے تولنے کا طریقہ کار اختیار کیا۔
فریق ثانی کا کہنایہ بھی تھا کہ اگر برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کے پیچھے پیچھے چلتا رہا تو ایسی صورت میں وہ عرب ممالک کے ساتھ اقتصادی و مالیاتی سرمایہ کاری کے مواقع سے محروم ہوجائیگا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ اس فریق پر ہمیشہ کڑی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ وہ انہیں مسئلہ فلسطین کے ہمدرد اور خود کو عربوں کا دم چھلا ہونے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ اس موقع پر اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ 7ویں عشرے کے اختتام اور 8 ویں کے شروع میں برطانوی دفتر خارجہ کا قلمدان انتہائی اہم شخصیت لارڈ پیٹر کیرلٹن نے سنبھالاتھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جنہوں نے 8ویں عشرے کے شروع میں فاس سربراہ کانفرنس کے دوران شاہ فہد رحمتہ اللہ علیہ کے پیش کردہ امن منصوبے کی حمایت کی تھی۔
شاہ فہدؒرحمہ اللہ اس وقت کے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کے مشورے سے لارڈ پیٹر کیرلٹن کے تعاون سے مبینہ امن منصوبہ اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم فاکلینڈ کی جنگ کے دوران 1982ءمیں برطانوی وزیر خارجہ لارڈ پیٹر کیرلٹن کی ناگہانی موت نے اس اہم اقدام کو کسی اور مناسب و موزوں موقع کیلئے ملتوی کرادیا۔ کیرلٹن پر برطانیہ کے اندرا ور باہر ہر طرف سے نکتہ چینی کی گئی۔ انہیں سامی دشمن کے الزام سے بھی نوازا گیا۔ کیرلٹن جون1967ءکے بعد برطانوی حکومت کی پاس کردہ اس قرارداد کے بھی حامی تھے جسے برطانوی سفیر ہیوووٹ نے پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 242 جاری کی تھی جسے مسئلہ فلسطین کے باب میں ہر حل کی بنیاد اور سند کا درجہ دیا جارہا ہے۔
بعض قارئین سوال کرسکتے ہیں کہ اگر مذکورہ قرارداد ان دنوں پیش کی جائے توامریکہ او راسکے حامیوں کا موقف کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب اس حقیقت کا مظہر ہوگا کہ امریکہ کس حد تک اسرائیل کی ماتحتی میں چلا گیا ہے اور صہیونی لابی کے اثرات کس حد تک قبول کرنے لگا ہے۔
برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے جوتاریخی موقف اختیار کیا تھا اس سے وہ مارگریٹ تھیچر کے وزیراعظم بننے کے بعد منحرف ہوگیا۔ تھیچر کے بعدلیبر پارٹی کے ٹونی بلیئر برطانیہ کے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے بھی وہی لائن اختیار کی جسے مارگریٹ تھیچر اپنائے ہوئے تھیں۔ یہ دونوں معروف تاریخی حقائق کے برخلاف اسرائیلی دعوﺅں کے حامی وناصر بنے ہوئے تھے۔ دونوں اس معاملے میں امریکہ کی پیروی کو اپنی پہچان بنائے ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں برطانیہ اور یورپی یونین میں شریک ممالک نیز دیگر ملکوں نے ٹرمپ کے فیصلے کےخلاف عربوں کی پیش کردہ قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ مثبت تبدیلی ہے۔ اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اوراسرائیل سے ٹکر لینے والا محاذ قائم کیا جائے۔ اس امر کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جن ممالک نے ٹرمپ کے فیصلے کی تائید و حمایت کی ہے، انکا عالمی سیاست میں نہ کوئی وزن ہے اور نہ ہی نام۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر:

متعلقہ خبریں