سعودی عرب سےشائع ہونیوالے اخبارالوطن کے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے
علی آل شرمہ -الوطن
بعض سرکاری جامعات سعودی نوجوانوں کو ٹرخانے کیلئے ایک طرف تو بجٹ کے فقدان کا رونا روتی رہتی ہیں اور دوسری جانب نظریاتی علوم کی تدریس کیلئے غیر ملکی اساتذہ کی خدمات بڑھ چڑھ کر حاصل کررہی ہیں۔
سعودائزیشن ہماری حکومت کا پاکیزہ ہدف ہے۔ اسے حاصل کرنے کیلئے متعدد ذرائع اور طور طریقے اپنائے جاچکے ہیں۔ وزارتیں اور متعلقہ سرکاری ادارے اسے زمینی حقیقت بنانے کیلئے نہ جانے کتنی تدابیر آزما چکے ہیں۔ کانفرنسیں کی گئیں۔ ورکشاپس کا اہتمام کیاگیا۔ سعودائزیشن کیلئے وزارت محنت میں کئی وزیر آئے اور سبکدوش کردیئے گئے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سعودائزیشن کا ہدف ہنوز عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ ایسا نہیں کہ اس پر کسی کو اختلاف ہو ،نہیں' ہرگز نہیں بلکہ سب کا متفقہ خیال یہ ہے کہ یہ کثیر جہتی اہم ہدف ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اقتصادی فوائد حاصل ہونگے بلکہ اسکا سماجی پہلو بھی کم اہم نہیں۔
بعض سرمایہ کار سعودائزیشن کے نفاذ کی راہ میں حائل رکاوٹوںکا تذکرہ کرتے ہیں۔ بعض رکاوٹیں ٹھوس نوعیت کی ہیں تاہم ریاست اور معاشرے کے اعلیٰ مفادات اور پاکیزہ مقاصد کا تقاضا ہے کہ تمام سرمایہ کار سعودی نوجوانوں کو ایسی ملازمتیں فراہم کرنے کا غیر معمولی اہتمام کریں جن پر غیر ملکی کام کررہے ہیں۔ معاملہ وطن عزیز کے مفادات اور اسکے مستقبل کا ہے۔ ایسے عالم میں نجی اہداف اور ذاتی مفادات کو اہمیت دینا درست نہیں۔
کئی اصطلاحات ایسی ہیں جنہیں صاف شفاف شکل میں پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سعودائزیشن کا مقصد محض غیر ملکیوں کی جگہ سعودی نوجوانوں کو ملازمت دینا ہی نہیں بلکہ انہیںملازمت کیلئے مطلوبہ علوم و معارف اورتجربات سے آراستہ کرنا بھی ہے۔ ایسا ہوگا تب ہی وہ غیر ملکیوں کے حریف بن سکیں گے۔ یہ ایسا کام ہے جو تنہا وزارت محنت و سماجی بہبود کا نہیں بلکہ اس میں نجی اداروں کی شراکت اشد ضروری ہے۔
سعودی حکومت نے سعودی نوجوان کو کھپانے کیلئے نجی اداروں کو کئی مرتبہ ترغیبات فراہم کیں۔ سعودی ملازمین کی جزوی تنخواہ سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا اہتمام کیا لیکن یہ سب کچھ کافی ثابت نہیں ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی نوجوانوں کی تربیت اورانہیں مطلوبہ مہارتیں فراہم کرنے پر محنت اور دولت خر چ کرنے والے سرمایہ کاروںکے حقوق کی قانونی ضمانتیں بھی ضروری ہیں۔ اگر سرمایہ کار سعودی نوجوانوں کو ہنر سکھانے اور تجربہ فراہم کرنے کیلئے دھن دولت اور وقت خرچ کریں اور پھر وہ ان سے فائدہ نہ اٹھاسکیں یہ بھی درست نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم و تربیت کے بعد سعودی نوجوانوں کا خود کو ہنر او رتجربہ دینے والے سرمایہ کاروں کے ساتھ بھی کام کریں۔
ہماری جامعات میں کورس کی تبدیلی بھی ضروری ہے۔ زیادہ تر جامعات نظریاتی علوم پر انحصار کررہی ہیں۔ اسی وجہ سے نوجوان جامعات سے فارغ ہونے کے بعدعملی دنیا میں کورے رہتے ہیں۔
مملکت میں ڈاکٹروںکی تعداد 82ہزار ہے۔ ان میں 19500سعودی ہیں۔ میڈیکل کالجوںمیں زیر تعلیم سعودی طلباء و طالبات کی تعداد 17ہزار سے زیادہ نہیں۔ زیادہ سے زیادہ سالانہ 3ہزار ڈاکٹر تیار ہونگے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحت خدمات کی طلب میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی صورت میں ہم فی الوقت مطلوب سعودی ڈاکٹر 25برس بعد پورے کرسکیں گے۔
فرزندانِ وطن ہماری ذمہ داری ہیں۔ ہمیں انہیں ہر حال میں قبول کرنا ہوگا۔ ہمیں انہیں پیداواری شخصیت بننے میں مدد دینا ہوگی۔ ہمیں انکی لغزشیں نظرانداز کرنا پڑیں گی۔ تسلی بخش پہلو یہ ہے کہ سعودی وژن 2030 میں ایسے بہت سارے پہلو ہیں جن کی بدولت نوجوانوں کے ہر طبقے میں بے روزگاری کی شرح کم ہوگی۔ انکی استطاعت و لیاقت بہتر ہوگی۔ سماجی، سلامتی اور معیار معیشت میں بہتری کے اہداف حاصل ہونگے۔