Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی وژن 2030اور ضیوف الرحمان

29دسمبرجمعہ کو شائع ہونیوالے سعودی اخبار البلاداور الاقتصادیہ کے اداریے کا ترجمہ پیش خدمت ہے
سعودی وژن 2030اور ضیوف الرحمان- -  البلاد
سعودی وژن 2030نے پوری دنیا کو باور کرادیا کہ سعودی عرب طاقتور ، خوشحال ریاست ہے۔ سب کیلئے اپنے دروازے کھولے ہوئے ہے۔ اس کا آئین اسلام ہے۔ اس کا منہاج میانہ روی ہے۔ عر دنیا اور اسلامی دنیا کو اپنا اور خود کو اس کا حصہ سمجھتا ہے۔ زبردست سرمایہ دار طاقت ہے۔ جغرافیائی اسٹراٹیجک محل وقوع کا مالک ملک ہے۔
    سعودی عرب نے پوری دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔ ضیوف الرحمن اور مسلمانان عالم کے دلوں میں منفرد جگہ بنانے کا اعزازحاصل کیا ہے۔ مملکت نے متعدد منصوبے نافذ کئے۔ ان میں حرمین شریفین کی توسیع کا تیسرا منصوبہ، ہوائی اڈوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے، مکہ مکرمہ میٹرو، مشاعر مقدسہ ٹرین ، حرمین ٹرین اور پبلک ٹرانسپورٹ کو مضبوط بنانے جیسے منصوبے قابل ذکر ہیں۔
    سعودی وژن نے یہ حقیقت بھی اجاگر کردی کہ سعودی عرب اسلام اور اس کے پیروکاروں کی خدمت کرتا رہے گا۔ ہر سال 15ملین سے زیادہ مسلمانوں کو 1442ھ ،2020تک عمرے کا موقع مہیا کریگا۔ مطلوبہ خدمات اور سہولتیں پیش کریگا۔ویزوں کے اجراء میں آسانیاں دیگا۔ معتمرین کیلئے آن لائن سروس کو بہتر بنائے گا۔ ان کے دینی سفر اورثقافتی تجربے کو مالا مال کرنے کا اہتمام کریگا۔سرکاری اور نجی شعبوں کو عمرہ خدمات بہتر بنانے کا موقع فراہم کریگا۔
    اسی ضمن میں جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹر نیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح مئی کے مہینے میں متوقع ہے۔ اس کی بدولت حج و عمرے کیلئے 30ملین تک ضیوف الرحمان کے استقبال کا ہدف پورا کیا جاسکے گا۔ فضائی نقل و حمل چونکہ حجاج اور معتمرین کا پسندیدہ سفری وسیلہ ہے ۔2017ء کے دوران ہوائی جہازوں سے 1.648.906حاجی ارض مقدس پہنچے ۔ 2017ء میں فضائی راستے سے 5.664.208معتمر ارض مقد س آئے۔ جدہ کا نیا کنگ عبدالعزیز انٹر نیشنل ایئر پورٹ بڑا منصوبہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے طیارے آجاسکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ حاجی اور معتمرفضائی راستے سے ارض مقدس کا سفر باآسانی کرسکیں گے۔ 2020ء میں طائف ایئرپورٹ کا افتتاح ہوگا تو مزید حجاج اور معتمرین کا استقبال کیا جاسکے گا۔
* * * * * *

 

قطر قرضوں کے بوجھ میں دبتا جارہا ہے!- - -الاقتصادیہ
    انسداد دہشتگردی کے علمبردار عرب ممالک نے جب قط کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو قطری قائدین نے ہر رہنما اور ہرسیاستداں، ہر ادارے اور ہر تنظیم کے سامنے جاکر واویلا کیا۔ مظلوم ہونے کا ڈھونگ رچایا ۔ اقتصادی بائیکاٹ کو ناکہ بندی کا نام دیا۔ دوسری جانب 4عرب ممالک کے اقتصادی بائیکاٹ کا مذاق بھی اڑایا۔ ببانگ دہل کہا کہ قطری اقتصاد بیحد مضبوط ہے۔ بائیکاٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس کی پشت پر سیاسی اور عسکری طاقتیں ہیں۔ایران میں ولایت فقیہ کے بل پر چلنے والے حکمراں ترک فوجی اڈہ اور دہشتگرد و انتہاپسند گروہ خصوصاً الاخوانی ان کے مدد گار ہیں۔ بائیکاٹ کا کوئی فرق نہیں پڑیگا۔
    قطری حکام کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ ہر ایک نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ آپ لوگ خلیجی عرب خاندان کا حصہ ہو، بحران کو خاندانیوں کے ساتھ مل جل کر طے کیا جائے۔قطریوں نے اس سلسلے میں کسی کی نہ سنی، آنکھوں پر پٹی باندھ لی۔ خطے امت اور عالمی امن و امان کے دشمنوں کی گود میں جاکر بیٹھ گئے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ قطری اقتصاد ن بہ دن اور ماہ بہ ماہ انحطاط کے کھڈ میں گرتا چلا جارہا ہے۔
    ہم من گھڑت دعویٰ نہیں کررہے بلکہ قطری اقتصادی کی کارکردگی اور مالیاتی پوزیشن کو سامنے رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ قطری قائدین اخراجا ت پورے کرنے کیلئے قطری بینکوں سے دھڑا دھڑ قرضے لے رہے ہیں خود قطری بینک بحران کے بھنور میں پھنسنے لگے ہیں۔ گزشتہ 5ماہ کے دوران حکومت قطر نے 47.8ارب قطری ریال قرضے لئے حکومت قطر اور اس کے ماتحت اداروںکے مجموعی قرضے 519.7ارب ریال ہوگئے ہیں۔
    اگر قطری قائدین کو تباہ کن سیاسی خطرات کا حجم نظر نہیں آرہا تو یہ اور بہت بڑی مصیبت ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قطری قائدین کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ان کے عوام کس مشکل میں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ قطری حکمراں عقل کی صداسننے  اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کی نداء پر کان دھرنے کیلئے تیار نہیں ۔

شیئر: