ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ۔شارجہ
کسی بھی منصوبے کا افتتاح کسی اعلیٰ شخصیت سے کرانا پھر اس کی تشہیر اور اس شخصیت کے نام کی تختیاں لگانا عام سی بات ہوگئی ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے لئے فنڈ لینے اوردیگر معاونت کا بھی یہ اچھا طریقہ ہے۔ بے شک انسان ایک دوسرے کی معاونت کے محتاج ہیں۔ مشورے اور راہنمائی کے لئے ایک دوسرے کی مدد درکار ہوتی ہے۔
اللہ رب العزت نے مسلم سوسائٹی کا ایسا اچھا نظام ترتیب فرمایا ہے جس میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے معاونت پہلے طلب کی جاتی ہے تو اللہ کریم کی ذات آسانیاں فراہم فرماتی ہے ۔ہر کام کی ابتدا ” بسم اللہ "سے کی جاتی ہے تو وہ کام چھوٹا ہو یا بڑا ،اللہ کریم کے نام کی” تختی“اس کی کامیابی کے امکانات بڑھا دیتی ہے اور یہی”حسن نیت“ ہے۔ جب کسی کام کی ابتدا میں ہی اللہ کریم کا ذکر آگیا تو یقینا اس ذات کی خوشنودی بھی شامل حال ہو گئی۔ جس کی خوشنودی درکار ہوتی ہے اس کی خوشی کا علم ہونابھی ضروری ہے اور یہ علم اللہ رب العزت نے اپنے انبیاءعلیہم السلام کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا۔
اللہ کریم اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ انسان اس کی رحمت سے فیضیاب ہوں۔ اس کے بنائے ہوئے نظام زندگی میں خلل نہ ڈالیں۔ ہر کام میں اپنے خالق سے معاونت اور ہدایت طلب کریں اور اس پہ مکمل بھروسہ کرتے ہوئے ہدایات پہ عمل بھی کریں۔ جس طرح ہر کام، وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اس کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا بنیادی تعلیمات میں شامل ہے، اسی طرح رب کائنات نے نماز کے ذریعے ملاقات کا اہتمام کرکے اپنے بندوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنے متعین منصوبوں کی تکمیل کے لئے معاونت اور انجانے مسائل کی پریشانیوں کے حل کے لئے سیدھی راہ طلب کریں۔
منصوبہ کسی غریب کی کٹیا کا ہو یا بادشاہ کے محل کا، دونوں کا رب کریم ایک ہی ہے۔ دونوں کے منصوبے اور مسائل اپنے اپنے مقام پہ یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ کوئی چھا بڑی فروش ہو یا وزیر اعظم، دونوں کی پریشانی اپنے اپنے مقام پر یکساں ہے۔ وزیر اعظم کو اچھے مشیروں کی طلب ہے، چھا بڑی فروش کو مناسب پھل سبزی کی۔ اس غریب کے گھر کی سلطنت کا انحصار اسی پھل سبزی کے تر وتازہ ہونے اور بروقت مناسب نفع مل جانے پرہے۔ کسی وزیر اعظم کی سلطنت کا انحصار عقلمند، مخلص، ایمان دار مشیروں ،وزیروں پر ہے۔ دونوں کا حرف مدعا ایک ہی ہے کہ میرا مسئلہ حل ہو، مدعا پورا ہو، اپنے منصب اور ذمہ داری سے احسن طریقہ سے عہدہ برآ ہو جاو¿ں۔ حرام و حلال کی تمیز اور ایمان داری کی شرائط دونوں افراد پہ یکساں لاگو ہوتی ہیں۔
”اھدنا الصراط المستقیم“7 سال کی عمر سے یہ دعا عمر کے آخری سانس تک کرنا ہوتی ہے۔ حالات و واقعات کچھ بھی ہوں ۔ اللہ کریم کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی دعا فرماتے تھے اور امتی بھی یہی دعا مانگتے ہیں۔ دونوں کے مراتب میں زمین وآسمان کا فرق ہے مگر اپنے اپنے مقام و مرتبے کی ذمہ داری یہی تقاضا کرتی ہے کہ اللہ کریم کا ہر بندہ اپنے رب کریم سے ہی ہر معاملے میں ہدایات کا طلب گار ہو۔ قرآن پاک کی ابتدا اسی سے ہے، ہر نماز کی ہر رکعت الفاتحہ سے شروع ہوتی ہے۔ محمود و ایاز کا ایک ہی حرف دعا ہے کہ ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے وسائل، استعانت، آسانیاں عطا فرما۔ وہ منصوبے جو زیرغور ہیں انکی تکمیل کی راہیں کھول دے، وہ مسائل جو ناقابل حل نظر آتے ہیں ان کا بہترین حل عطا فرما دے ۔
دن میں پانچ مرتبہ ہر رکعت میں اپنے دل کا حال سنا کر اپنے رب کریم سے حوصلے کی ردا طلب کی جائے تووہ ذات عظیم ہمارے مسائل کے حل کے لئے ہمارے درمیان سے ہی لوگوں کو منتخب فرما کر ہمارے کام پہ لگا دے گی۔ مسائل کوئی بھی ہوں، کیسے بھی ہوں، ان کا حل اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کرنا ہے۔ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اس کو جوڑنے کے وسائل بھی اسی نے مہیا فرمانے ہیں۔ دل ٹوٹ جائے تو اس کو بھی وہی ذات واحد جوڑ سکتی ہے جس کے قبضہ¿ قدرت میں انسانوں کے دل ہیں۔ جو ہمارا مالک ہے، وہی بدلے کے دن کا مالک ہے۔ اس دن وہ مہربان ذات کسی پہ ظلم نہ کرے گی آج بھی ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار وہی ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں روشنی عطا کرتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رب العالمین کی حمد وثنا کرتے ہوئے اس کے ”الرحمن الرحیم “ہونے کا مکمل احساس قلب و روح پہ طاری ہو۔ مالک یوم الدین کے حضور عاجزی سے اپنے مسئلے یا منصوبے پہ راہ مستقیم طلب کی جائے۔ جس پریشانی کا سامنا ہے اس کے حل کے لئے ہم وہ راستہ چاہتے ہیں جس کا انجام ،انعام والے لوگوں میں شامل ہونا ہے۔ ایسا کوئی حل نہیں چاہتے جس کا انجام نافرمانوں یا گمراہوں کے ساتھ ہونے کا خدشہ ہو۔ یہ دعا انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی کرنے کی ہدایت ہے۔ امام کے لئے مقتدی، نماز کے اجتماع میں شامل سب نمازی ایک دوسرے کے لئے، اہل وعیال اور پوری امت مسلمہ کا تصور کرکے اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس رب کریم کو اپنے سارے بندے پیارے ہیں، جو اللہ کریم کے بندوں کا خیال کرے گا، اللہ کریم اس کا خیال رکھے گا۔
جس کو یقین ہو کہ رب کائنات ہی اس کے جذبات و احساسات اور ضرورتوں کا بدرجہ اتم خیال رکھنے والا ہے، وہ کبھی بھی رب کریم سے رازونیاز سے غافل نہیں ہوسکتا۔ انسانوں کی یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ اپنی حاجات کے لئے اپنے جیسے کمزور انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں ۔جب سارے دروازوں سے دھتکارے جاتے ہیں تو انہیں اللہ رب العالمین کی یاد آتی ہے۔ یہ رویہ اللہ کریم کی شان میں، معاذ اللہ ، گستاخی ہے اور شرک کا راستہ ہے۔
سچے مومن کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے منصوبے کی "منظوری" اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرکے لیتا ہے ۔اسی سے وعدہ کرتا ہے کہ” تیری متعین کردہ حدود سے تجاوز نہیں کروں گا، خالص تیری بندگی بجا لاﺅں گا۔ یوم الدین کو اپنے اعمال کا جواب دہ ہونے کا احساس ہے ،اسی لئے اپنی قابلیتوں ،صلاحیتوں کو صراط مستقیم پہ قائم رکھنے کے لئے تجھ سے استعانت کی التجا ہے۔“
انسان کمزور ہے، نفس کی شر انگیزیوں اورشیطان کے وسوسوں کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی استعانت کے بغیر ممکن نہیں۔ پوری زندگی کا کوئی بڑا منصوبہ، مسئلہ ہو یا دو نمازوں کے درمیان کے مختصر وقت میں کوئی پریشانی لاحق ہو جائے، اللہ کریم سے ہی عرض کرناہمیں زیب دیتا ہے۔
والدین، بھائی بہن، دوست احباب سب کے ساتھ رشتے بعد میں ہیں، سب سے پہلا رشتہ اللہ کریم اور بندے کا ہے۔ جو اللہ رب العزت کے ساتھ اس رشتے کو نبھا ئے گا، اللہ کریم اسے اپنے ہاں مکرم بنائے گا۔ اسی اکرام سے نوازنے کے لئے اللہ کریم نے اپنے بندوں سے دن میں پانچ بار ملاقات کی دعوت عطا فرمائی ہے۔
اتصالات ،عرب کی ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہے جو لوگوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔ نماز بھی اللہ کریم اور بندے کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ کیا واقعی ہم دن میں پانچ بار اللہ رب العالمین سے رابطہ کرکے اپنے مسائل کا حل پوچھ پاتے ہیں یاپھر اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو کر بھی انسانوں کے در پہ جانے اور ان کے نام کی تختیاں لگوانے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں؟اس کا بغور جائزہ ضرور لیجئے۔