یہ دین ہمیں انسانوں کے ساتھ پیار و محبت کا درس دیتا ہے، صحابہ کرا م ؓ اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو تر جیح دیتے تھے
* * * محمد کبیر بٹ۔ریاض* * *
انسا نوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسا نوں کی مددکے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جا تا ہے لیکن دین اسلام نے خد مت ِ انسا نیت کو بہترین اخلا ق اور عظیم عبا دت قرار دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسا نوں کو یکساں صلا حیتوںاور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفا وت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کا ئنات رنگ وبو کا حسن و جما ل ہے ۔ وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت ،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معا شرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدداُن کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو ۔
مسلم شریف کی روایت ہے:
ــــ’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘‘
سبحان اللہ اس رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالا نکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہر گز نہیں ۔
انسانیت کی خد مت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیوائوں اور یتیموں کی مدد ،مسافروں ، محتاجوںاور فقرا اور مساکین سے ہمدردی ،بیماروں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تنا ظرمیں ا ن سب سے بڑھ کر انسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے دوزخ کی آگ سے بچایا جا ئے اور رب کی رضا اورصراط مستقیم کی طرف ان کو دعوت دی جا ئے ۔ لیکن اس مضمون میں ہم صرف پہلی قسم کے متعلق ہی گزارشات ضبطِ تحریر میں لا ئیں گے۔
صحیح الجامع میں رسولنے فرما یا :
٭ لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔
٭ اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔یاان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو ۔
٭ میرے نزدیک کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کی سعی ایک ماہ مسجد میں اعتکاف بیٹھنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اورجس نے غصہ بُجھایااللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کر لی اور جس نے غصہ پی لیا اگر اس نے چا ہا کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلا ت دور کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکلا ت دور کردے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس کا دل اتنا بھر دیگا کہ وہ قیا مت کے دن را ضی ہو جا ٰئیگا ۔
اس حدیث میں کسی ضرور ت مند انسان کی حاجت کو پورا کرنے پر کتنے ہی انعامات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
٭ بے شک بد خُلقی اعمال کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو برباد کر دیتا ہے
٭ جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا یہاں تک کہ وہ ضرورت پوری ہو جائے اللہ تعالیٰ اس دن اسے ثابت قدم رکھے گا جس دن قدم ڈ گمگا رہے ہو ںگے ۔
٭ ایک دن مجلس میں نبی رحمت نے صحابہ کرام ؓسے سوالات کئے ۔آپنے پوچھا:آج کس نے جنازے میں شرکت کی ؟ ّسیدناابو بکرؓنے فرما یا :میں نے ۔آپ نے فرمایا :آج کس نے بھوکے کو کھاناکھلا یا ؟ سیدناابو بکرؓ نے فرمایا: میں نے ۔ آپنے پھر سوال کیا: آج کس نے اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھا ؟ سیدناابو بکر ؓ نے فرما یا: میں نے ۔ آپنے ایک بارپھر پوچھا: آج کس نے بیما ر کی عیادت کی؟ سیدناابوبکر ؓ نے فرمایا میں نے ۔ نبی نے فرمایا جس آدمی میں یہ 4 باتیں جمع ہو جائیں وہ جنتی ہے ۔
صحابہ کرام ؓ نیکیوں کے اس قدر حریص تھے کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ایک دن میں مد ینے کے مضافا ت میں ایک جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس میں تنہا ایک بڑ ھیا بستر پر پڑی نظرآئی اور جھونپڑی صاف ستھری اور ہر چیز قر ینے سے رکھی ہو ئی تھی ۔
میں نے بڑ ھیا سے پو چھا: اماں آپ کے یہ کا م کو ن کرتا ہے ؟ عر ض کیا ایک شخص فجر سے بھی پہلے آتا ہے اور یہ سا رے کا م کر کے چلا جا تا ہے۔ حضرت عمر ؓ کو تجسس ہواکہ وہ کو ن شخص ہے ۔ دوسرے دن صبح آئے تو وہ کا م کر کے چلا گیا تھا ۔ پھر آئے تو وہ گھر کی صفائی کر رہے تھے دیکھا تو ابو بکر ؓ تھے ۔ سید القوم خادم ھم ۔یہ تھے قوم کے حقیقی رہنمااور خادم ۔
سیدناابو بکر ؓ کئی گھرا نوں کی مستقل کفالت بھی کرتے تھے اور محلے میں کئی گھروں کی بکریوں کا دودھ بھی دھوتے تھے ۔ خلیفہ بنے تو ایک دن محلے سے گزرتے ہوئے ایک لڑکی نے دیکھا تو کہنے لگی ہائے!! آپ تو مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے ہیں۔ اب ہماری بکر یو ں کا دودھ کون دھوئے گا ؟آپؓ نے فرمایا:ــ مجھے تمہاری بکریوں کا دودھ دھونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (گویا کہ میںخلیفہ ہوتے ہوئے بھی یہ کام کر وںگا) ۔
مومنین کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ ’’وہ اللہ تعا لیٰ کی محبت کی وجہ سے مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھا نا کھلا تے ہیں۔‘‘
یتیم کی کفا لت کر نے والے کو نبی کی جنت کی رفاقت نصیب ہو گی ۔یتیموں کو دھتکارنااور مسکین کو کھا نا نہ کھلانا مشرکین کا عمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں جا بجا اس کا ذکر آیا ہے ۔
ایک حدیث میں بڑے عجیب انداز میں بھوکے ، پیاسے اور بیمارکا ذکر آیا ہے۔امام مسلم حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں :نبی اکرم نے فرما یا قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا :
اے آدم کے بیٹے!میں بیمارہوا تھا تو تُونے میری عیادت نہیں کی ۔بندہ کہے گا: میرے اللہ! تُوتو رب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا؟ اللہ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تُو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے کھانے کو دیا تھا لیکن میں بھو کا تھا تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ۔بندہ کہے گا :پرور دگار! تُو تو رب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا ؟ اللہ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، تُو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُواسے کھا نا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا ۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے پا نی دیا لیکن میں پیاسا تھا، تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا ۔بندہ کہے گا: تُو رب العالمین ہے میں کیسے تجھے پانی پلاتا ؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا :میرا فلاں بندہ پیاسا تھا، اگر تُواسے پانی پلا تا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔
کتنے ہی حسین پیرائے میں خدمت خلق کے کام کی عظمت کا احساس دلا یا گیا ہے تاکہ ہم بھی نیکی کے ان کا موں کی طرف راغب ہوں ۔یتیموں اور بیوائوں،فقراء اور مساکین سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبت ہے اور کن کن طر یقوں سے اللہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔دیکھئے جتنی عبا دات اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں بالخصوص روزہ ،حج اورعمرہ اورشرعی قسم تو ڑنے کا کفارہ وغیرہ ۔ان عبادات میں کسی کمی یا کوتاہی کاازالہ اس جیسی کسی عبادت کے بجا ئے فقراء اورمسا کین کی خدمت سے کیا جا تا ہے۔
بوڑھا شخص یا کوئی بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک روزے کے بدلے میں کچھ نفل پڑھتا یا قرآن کی تلاو ت کرتا جو خالص اللہ ہی کی عبا دت ہے۔ اس کے کرنے کا حکم دیاجاتا لیکن ایسا نہیں ۔ اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے: روزہ نہیں رکھ سکتے ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھا نا کھلا ئو ۔
جماع کے ذریعے تم نے روزے جیسی عظیم عبادت کو نقصان پہنچایا تو اس کا ازالہ کسی غلام کی گردن چھڑاکر کرو یا60 مسا کین کو کھانا کھلاؤ۔ بغیر احرام کے میقات سے گزرنے والے کو ایک اضافی طواف کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا لیکن نہیں ! فرمایا :حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہے، اب اس کے عوض مکے کے فقراء اور مساکین کو بکرے یا دنبے کا گوشت کھلائو ۔ قسم کا کفارہ 10 مساکین کو کپڑے پہنانا یا کھانا کھلانا یاایک غلام آزادکرانا علیٰ ھذا القیاس ۔
ضرورت مند اور مستحق کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے مستقل روزگار فراہم کرنے میں مدد دی جائے ۔ بھیگ مانگنے اور سوال کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اور اس عمل کو نبی کریم نے نا پسند کیا ہے ۔ بد قسمتی سے آج مسلمان معا شروں میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کو پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چا ہئے اور حقیقی مستحقین کو ان کا حق بغیرطلب کئے ملنا چاہئے ۔
یہ کام اصل میں تو مسلمان حکومتوں کے کرنے کا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس طرف دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں ہے۔ انفرادی طور پر بھی ہمیں اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں میں بڑ ھ چڑ ھ کر ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی بڑے پیمانے پر خد مت خلق کے ادارے اور تنظیمیں قائم کر کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے ۔ ایدھی ویلفیئر اور الخدمت فاؤنڈیشن کے طرز پر چھوٹے پیمانے پر بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
نبی نبوت سے قبل معاہدہ حلف ا لفضول میں شریک ہوئے تھے ۔ ابن سعد اور ابن ھشام نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ مکے میں کمزور وں پر ظلم ہوتا تھا اور ان کے حقوق غصب کئے جاتے تھے ۔ قریش کے کچھ زعما جمع ہوئے اور ایک معاہدہ طے پایا جس کے ذریعے ظلم اور انسانی حقوق کی حق تلفی کا ازالہ مقصود تھا۔
نبی اس معاہدے میں شریک ہوئے اور فرمایا :مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی قبول نہیں اور اسلام کے بعد بھی کسی ایسے معاہدے کے لئے مجھے دعوت دی جائے تو میں خوشی سے اس میں شریک ہوں گا ۔
خدمت خلق کا کام گنا ہوں کی بخشش اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ ایک شخص نبی کے پاس آیا اور عرض کیا میں ایک گناہ کر بیٹھا ہوں۔آپ نے پو چھا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ فرما یا تمہاری خالہ زندہ ہے ؟اس نے کہا ہاں، تو آپ نے فرما یا :جا ؤ خالہ کی خدمت کرو اللہ تمہا رے گنا ہ بخش دے گا ‘۔
والدین کی خدمت تو بدرجہ اولیٰ جنت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اگر ہم والدین کی خدمت اوردیکھ بھال کریں تو جنت ملے گی ان کے دل دکھا ئیں اور ایذا دیں تو جہنم کی سزا ملے گی ۔ حضرت عبداللہ بن مبا رک رحمہ اللہ سے کسی نے اپنی پریشا نی کا ذکر کیا کہ 7 سال سے بیما ر ہوں ہر طرح کا علاج کرایا کوئی فرق نہیں پڑ تا ۔ آپؒ نے فر ما یا جا ؤایسی جگہ تلا ش کرو جہاں لو گ پا نی کی تنگی میں مبتلا ہوں وہاں کنواں کھداؤ، مجھے امید ہے وہاں چشمے سے پا نی جا ری ہو اور تمہا ری بیما ری ٹھیک ہو جا ئے ۔ اس نے ایسا ہی کیا اور صحت یا ب ہو گیا۔
’’نبی نے فرما یا :
صدقہ سے اپنے مریضوں کا علا ج کرو ــ۔‘‘
حضرت سعد ؓ نے نبیسے عرض کیا :میری والدہ وفا ت پا چکی ہیں، ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کو فائدہ پہنچے گا ؟
آپ نے فر ما یا ہاں اور تم پا نی کا بندوبست کرو (جہاں لوگوں کو پا نی کی ضرورت ہو وہا ں کنواں بنا دو ) ‘‘۔
پا کستا ن میں تھر اور دیگر ریگستانی علا قوں میں پا نی کی شدید قلت ہے۔الحمدللہ الخدمت فا ؤنڈیشن وہاں بڑے پیما نے پر کنویںکھودکر لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اہل خیرحضرات اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور رب کی رضااور جنت کو حا صل کریں۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے راستے سے اس درخت کو کاٹ دیا جولوگوں کو آنے جا نے میں تکلیف دیتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرمادی ۔
بیمار کی عیادت اور اس کے علاج معالجے کا انتظام بڑے اجر وثواب کاباعث ہے ۔امام ترمذی ؒنے روایت بیان کی ہے کہ جو کوئی صبح کے وقت کسی بیمارکی عیادت کو جاتا ہے تو شام تک70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اورشام کے وقت جاتا ہے تو صبح تک 70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور اسے جنت کا ایک باغ عطا کیا جاتاہے‘‘۔
صحیح مسلم کی روایت ہے ۔رسول اللہ نے فرمایا:
’’جب کوئی مسلما ن کسی مسلمان کی مزاج پرسی کے لئے جا تا ہے تو وہ جنت کے با غ میں ہوتا ہے ۔ ‘‘
اما م ترمذیؒ نے روایت بیان کی ہے:
’’جوکسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے (اسے تسلی دے)اسے اتناہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو ۔‘‘
نبی کے پڑوس میں ایک یہودی بیمار تھا۔ آپاس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔وہ عالم نزع میں تھا۔ آپنے اسے کلمہ توحید پڑھنے کی تلقین کی اس نے قریب کھڑے باپ کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔با پ نے کہا: ابو قاسم کی بات مان لو۔ اسنے کلمہ پڑھ لیا اور اسکی روح پروازکر گئی ۔ آپنے فرما یا:شکر ہے اس رب کا جس نے اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا ۔
خدمت انسانیت میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں ۔ ہاں مسلمان سے ہمدردی زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے ۔
متفق علیہ روایت ہے :
’’جو کسی بیوہ یایتیم کے لئے سعی کرے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو بغیر کسی وقفے کے مسلسل نماز میں کھڑا ہو یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ نہ چھو ڑتا ہو۔ ‘‘
ابو دائود کی روایت ہے:
’’ جو کسی انسان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے ـ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دورکرنے میں مدد دیتا ہے اللہ اسے قیامت کے دن بے چینی اور تکلیف سے نجات دے گا۔ ‘‘
ترمذی شریف کی روایت ہے :
’’تم زمین والوں پر رحم کرو آ سمان والا تم پررحم فرمائے گا ۔‘‘
بخاری اور مسلم کی روایت ہے:
’’ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔‘‘
امام احمد اور امام ترمذی نے روایت بیان کی ہے :
’’ رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہو ۔ ‘‘
ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ۔