دل کو کبھی’’ریسٹ ‘‘کی ضرورت پیش نہیں آتی،ماں کے پیٹ سے دھڑکن کا آغاز کرتا ہے،آخری سانسوں تک مسلسل دھڑکتا رہتا ہے
رضی الدین سید۔کراچی
انسانی جسم اللہ تعالی کی ٰکیاحیرت انگیز صناعی ہے!۔ایسی مشینری جو عموماً ہمہ دم مستعد،ہر دم رواں دواں رہتی ،اور جس کے مختلف اعضاء میں ایک شاندار ربط و یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انسان اگر غور کرے تو حیران ہو کر خود سوال کر اٹھتا ہے کہ ’’ایسی کار گزاری بھی یا رب کیا اپنی ہستی میں ہے؟‘‘
ایک ہمہ دم متحرک ، اور تادم ِ آخر کبھی نہ رکنے اور بند ہونے والایہ کارخانہ جو انسان اپنے ساتھ صبح و شام ، جِلوت و خِلوت ،ا ور اندر و باہر، ہر جگہ ساتھ لئے پھرتا ہے!۔ نسوں سے نسیںلگاتار ملی ہوئی،ہڈی پر ہڈی کا کامل جو ڑ بیٹھا ہوا ،ایک بازو دوسرے بازو کے بالکل یکساں نظر آتا ہوا،ایک ٹانگ دوسری ٹانگ کے ٹھیک عین مطابق!۔ آنکھیں خوبصوررت،روشن، اور چمکدار، اور ناک سونگھنے کی ہر قسم کی صلاحیتوں سے مالا مال!۔ بے شک ہمارے رب نے ہمیں ایک خاص تناسب ہی سے پیدا کیاہے۔ ــــ’’خَلَقَہ َفقَّدَرَہُ‘‘یہ آیت ہمارے رب نے ہمارے ہی بارے میں نازل کی تھی۔
پھر ان سب میں بھی سب سے زیادہ چشم کشا ، وہ لاجواب لہو ہے جو سرخ سرخ اور گرم گرم ہمارے جسم کے اندر یہاں سے وہاں تک میلوں دور دوڑتا رہتاہے ۔ یہی وہ سرچشمہ ہے جس سے ’’جاوداں ، پیہم رواں ،ہر دم جواں ہے زندگی ‘‘۔ اور یہی و ہ سر چشمہ ہے جس کے بارے میں ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ:لہو سے زندگی بنتی ہے جامد بھی ، متحرک بھی!
زندگی کا سر چشمہ ظاہری طور پر اگر پانی ہے تو باطنی طور پرخون ہے ۔ وہی خون جو بقول شاعر ’’اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے‘‘۔اوروہی لہو جس کے بارے میںکہا جاتاہے کہ مثلاً ’’فلاں نے اپنا لہو سفید کر لیاہے‘‘ ۔اور وہی لہو جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ:
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا ، تو پھر لہو کیا ہے !
انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے رب ِ کائنات نے اپنے کلام میں جا بجا دعوت ِ فکرو تدبر دی ہے ۔کہا گیا ہے کہ ’’اے میرے بند و ،تم ذرا اپنے جسموں میں اتر کر تو دیکھو ، ذرا اپنے اس قدو قامت کا جائزہ تولو،اور کبھی اپنے ان ہا تھ پائوں کے جوڑوں اور بندوں کو تو جھانک کر دیکھو، تمہیںوہاں ہمارا ایک حیرت انگیز نظام ِ کارکردگی جاری و ساری دکھائی دیگا جس کا مشاہدہ کر کے تم بے ساختہ اقرار کراٹھو گے کہ ’’ اے ہمارے ر ب ،بے شک یہ جسم وجاں تیرے ہی بنائے ہوئے ہیں ،اور کوئی بھی شریک اس کام میںتیرانہیں پایا جاتا۔بے شک۔ لا شریک لک َلبیک‘‘۔ کہا اللہ تعالیٰ نے کہ ’’وفی انفسکم آیات ‘‘۔ تمہارے جسموں میں بھی تمہارے لئے نشانیاں رکھی گئی ہیں۔
اس موقعہ پر ایک واقعہ بھی ہم آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک بیماری کے سبب ہم سے خون کے مختلف ٹیسٹس کروائے گئے کہ ہماری درست تشخیص کا انحصار انہی ٹیسٹس کے نتائج پر تھا ۔تب ہمیںیہ جان کر اچنبھا ہوا کہ کئی اجزا انسانی خون میں ایسے ہیں جن کا خصوصی تعلق خاص مٹی سے ہے۔ وہی اجزا جو ایک طرف ہماری مٹی میں پائے جاتے ہیں ، دوسری طرف انسانی جان میں بھی دوڑتے پھرتے نظر آتے ہیں۔یعنی فاسفورس ، گندھک ، لوہا ، چونا، دھات ، جست ، شکر،آئیو ڈین،اور نمکیات وغیرہ ۔ بلکہ خود ہمارایہ پانی بھی!۔
مٹی میں پائے جانے والے یہ تمام وہ عناصر ہیں جو ہمارے خون میں 24 گھنٹے گردش میں مصروف رہتے ہیں۔تب ہی ایک بندہء مومن حیرت سے پکا ر اٹھتا ہے کہ ــ’’واقعی ۔یہ انسان بھی اسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے خدایا!‘‘۔ جسم کے یہ کیمیائی اجزا ء پکا ر پکار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق فی الاصل مٹی ہی سے کی گئی ہے۔ بیشک بظاہر وہ گوشت پوست اور ہڈیوں کا چلتا پھرتا مجسمہ (یا انسان ِناطق ) نظر آتاہے،لیکن اگر توڑ پھوڑ کراسے دیکھا جائے تو سوائے ایک مشت ِ خاک کے اندر سے وہ کچھ بھی نہیں نکلتا!۔’’لے کے ایک مشتِ خاک ،ہوا نے اسے اڑادیا‘‘۔ قادرِ مطلق نے لاکھوں سال پہلے کہیں اولین انسان حضرت ِ آدم ؑ کو براہ راست مٹی سے پیدا کیا تھا ۔ ’’خلقنٰہ من طین ‘‘ بلکہ’’ من طین ِلّازِب‘‘۔ جس کے باعث شیطان نے انہیں سجدہ کرنے میں سبکی بھی محسوس کی تھی۔ مگر آج کوئی ایک لاکھ نسل انسانی کے دنیا میں جنم لے لینے ،اور پھر واپس اپنے مالک ِ کائنات کے پاس جاپلٹنے کے، اس الٰہیاتی حقیقت میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کہ انسان کی پیدائش ایک کھنکتی ہوئی مٹی سے کی گئی تھیَ۔
قران ِ پاک ہمیں یاد دہانی کراتاہے کہ:
منھاخلقناکُم، وفیھا نُعیدُکم، ومِنھا ُنخرجُکم تارۃََ اُخریٰ ۔
’’ (لوگو !)مٹی ہی سے تم پیدا کئے گئے تھے ، مٹی ہی میں تمہیں واپس لوٹایا جائے گا ،اور مٹی ہی سے تمہیں دوبارہ بر آمد کیا جائے گا۔‘‘(طٰہٰ55)۔
یہی وہ مٹی ہے جسے میر تقی میر نے بھی کبھی اس طرح سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ
نہیں ہے مَرجع ِ آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے یہ قدِ خم ہمارا؟
یعنی انسان کا آغاز و انجام اگر مٹی نہیں ہے تو پھر کمر خمیدہ ہمارا یہ جسم آخر زمین ہی کی طرف کیوںجھکاچلا جارہا ہے؟ ۔اس طرح دراصل انہوں نے ایک بہت صحیح بات لوگوںکے سامنے رکھنے کی کوشش کی تھی۔
پھر بات صرف یہی نہیں ہے کہ انسانی جسم ان خاکی اجزاء کا مرکب ہے ، بلکہ اس سے بھی زیادہ چشم کشا حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ تمام اجزاء ،ایک خاص تناسب یا ایک خاص انداز ے کے حساب سے جسم کے اندر رکھے گئے ہیں ، جو (تناسب) اگر وہاں برقرار نہ رہ سکے تو جسم یکایک بدنظمی کا شکا ر ہونے لگتاہے ۔ سر درد شروع ہوجاتاہے ، متلیاں آنے لگتی ہیں، جسم کی سرخی گھٹنے لگتی ہے، خون کا دبائوالٹ پلٹ ہوجاتا ہے، اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیںبلکہ اس کے علاوہ تھکن بھی طاری ہو نے لگتی ہے ، دل ڈوبنے لگتا ہے، پیاس بڑھ جاتی ہے، چکر آنے شروع ہوجاتے ہیں، دل کے حملوں کا امکان پیدا ہوجاتا ہے ، مایوسی اورگھبراہٹ سوِا ہوجاتے ہیں، تشنج کے جھٹکے لگنے لگتے ہیں، پیلیا در آنے لگتا ہے، قبض ـکی شکایت جنم لینے لگتی ہے، اور پیٹ کا درد راستہ بنانے لگتاہے۔ وغیرہ وغیرہ۔بغیر ڈاکٹری پڑھے ہوئے بھی اتنی ساری تکالیف تو ہم نے محض چٹکیوں میں آپ کو گنوادیں جو اگر ڈاکٹر حضرات سے معلوم کی جائیں تو شاید اس سے بھی دگنی فہرست وہ ہمیں مزیدتھمادیں۔ مثلاً ابھی حال ہی میں ایک طبی سیمینار میں لاہور کے ڈاکٹروں نے شرکاء کو آگاہ کیا ہے کہ(صرف) ’’زِنک، جست ،کی مناسب مقدار ہی اگر جسم کو نہ ملے تو انسان کئی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے‘‘۔ (بحوالہ روزنامہ جنگ کراچی) وجہ ان ساری تکالیف کی عموماً بس ایک ہی سامنے آئیگی کہ جسم میں موجود مٹی کے یہ عناصر ضرور کہیں اتھل پتھل ہوئے ہیں!۔ان کا نظام ِ ترتیب لازماً کہیں گڑ بڑ ہوا ہے!۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا غالب نے جب کہا تھا کہ :
زندگی کیا ہے ؟، عناصر میں ظہور ِ ترتیب
موت کیا ہے؟، انہی اجزاء کاپریشاں ہونا
مذکورہ شعراء میر و غالب نے اگرچہ اپنے دور میں جدید سائنس کی الف بے بھی نہیں پڑھی تھی ، لیکن قدرت و صناعی ء قدرت پر ان کا بن دیکھے ایمان ضرور موجودتھا ۔
جنم لینے والے ان امراض کا ڈاکٹر پھر یہی علاج تجویز کرتے ہیں کہ مثلاً آپ کے جسم میں لوہے کی مقدار کم ہوگئی ہے تو اس مقدار کو بڑھا لیں، چونا (کیلشئیم ) زیادہ ہوگیا ہے ، تو چونے والی دوائی کا استعمال کم کردیں۔ اور اگر خون میں گلوکوز (شکر) کا تناسب زیرو زبر ہوگیا ہے ،تو شکر والی اشیاء کم یا زیادہ کرلیں۔ دوسرے الفاظ میں ان زمینی اجزاء کاتناسب ایک بار پھر قدرتی فارمولے پر لو ٹالیں۔
اندرونِ جسم کی یہ جھلک اس کے محض ایک پہلو کی تھی۔ ایمان افروز اور دلچسپ ! !۔ اب انسانی مشینری کے بعض دوسرے پہلوئوں کو بھی ہم کھولتے ہیں۔ایک بار ہماری نکسیرایسی پھوٹی کہ خون کسی طرح بھی نہ رکنے لگا۔ڈاکٹروں کے علاج سے ہمیں وقتی افاقہ تو ہوا لیکن ان کے اس خیال نے ہمیں سوچ میں مبتلا کردیا کہ شاید آپ کا خون پتلا ہوگیا ہے۔ ’’ہیں ، تو کیا خون واقعی پتلا اور گاڑھا بھی ہوتا ہے؟‘‘… ہم نے سوچا۔ خون پڑتال کی رپورٹ سے بہر حال ثابت ہو ہی گیا کہ ہمارا خون ان دنوں پتلا ہوچکا ہے۔ محاورتاً نہیں بلکہ اصلاً ضرور ۔ اور اسی لئے وہ جمنے نہیں پا تا ۔ تب اسی سے ایک اور خدائی دعا یہ بھی ہمارے لبوں پر آئی کہ ’’انسانی جسم میں خون اگر دے تو اس نوعیت کا پروردگار دے ‘‘ کہ وہ فوری طور پر جم جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔بلکہ درست معنوں میں یہ کہ خون بہت پتلا بھی نہ ہو کہ زخم لگے تو بہتا ہی چلا جائے اور پھر انسانی وجود کو دائو پر لگا دے ، اور بہت گاڑھا بھی نہ ہو کہ دل کی شریانوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے اور انسان کو موت کی طرف سفر شروع کروادے۔ خون میں فوری جم جانے کی یہ خاص صفت اگر اللہ تعا لیٰ نہیں رکھتا تو انسان پھر کبھی زندہ ہی نہیں رہ سکتا تھا۔چنانچہ اس جم جانے ہی کی یہ وہ صفت ہے جس پر شاعر نے دعوے سے کہا تھاکہ:
خون پھر خون ہے ، ٹپکے گا تو جم جائے گا
ڈاکٹروں کی جرّاحی بھی اسی لئے قابلِ اعتماداور ممکن ہوئی ہے کہ اعضاء کی چیر پھاڑ کے بعد ادویا ت کی مددسے خون اپنے فوری جمنے کا عمل شروع کردیتا ہے۔
ایک اور توجہ طلب پہلو انسانی جسم کا اس کی یہ موٹی جلد اور کھال بھی ہے۔ کھال کی ایک بہت عمدہ صفت یہ ہے کہ کٹنے کے بعد بہت کم عرصے ہی میں یہ دوبارہ باہم جڑنے لگ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے موٹے خراش اور cutبغیر کسی دوائی کے آسانی کے ساتھ از خود جڑ جاتے ہیں۔حتیٰ کہ محض چند دنوں کے اندر اندر ہی کھال کا متعلقہ حصہ ، ہتھیلی یا بازو وغیرہ، ایسے ہو جاتے ہیں جیسے وہ کبھی کٹے ہی نہ تھے!۔اور پھر کیسی جُڑائی ؟۔ نہ کوئی لکیر دوسرے حصے کی لکیر سے الگ ۔ اور نہ کوئی کھال پہلے والی کھال سے علیحدہ ۔ بالکل اصلی اور خوبصورت !۔ہماری جلد میں اللہ تعالیٰ اگر یہ خاص وصف نہ رکھتا تب بھی انسان کہیں کا نہ رہتا۔ بد ہیئت ، ڈرائونا، اور افسوسناک وہ کتنا گھناونا اور ڈراونا ڈراونا سا لگتا؟۔ خواہ وہ مرد ہوتا یاعورت ہوتی!۔ اور انسان فریاد ہی کرتا رہ جاتا کہ الٰہی کیسے کٹے یہ زندگی ، کہاں گذرے ؟ یہ جو آپریشن ،سرجن حضرات دن رات کرتے پھرتے ہیں ، وہ ان کے اسی اعتقادکا مظہر ہیں کہ کاٹی گئی کھال ،یا توڑی گئی ہڈی ایک ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں بہت حد تک اپنی اصلی شکل و صورت میں دوبارہ لوٹ آئے گی۔ ہمارا یہ جسم جو اگرچہ چھ فیٹ کا ہے لیکن بس ایک ننھے سے دل کے اشارے ہی پر حرکت کرتا ہے۔اسی کی حرکت سے باقی سارے اعضاء حرکت کرتے ہیں اور اسی کی بندش سے باقی سارے اعضاء خاموشی اختیارکرلیتے ہیں۔ ایک دل کے دھڑکنے ہی پہ موقوف ہے جسم کی ساری رونق۔!
مگر فی لاصل یہ دل خود کیا ہے؟۔ایک ایسا متحرک آلہ یا چالو مشین جسے70 سے80سالوں تک عموماً کسی بھی ’’ریسٹ‘‘ کی ضرورت پیش نہیں آتی!۔ ماں کے پیٹ سے جو یہ اپنی دھڑکن کا آغاز کرتا ہے تو زندگی کی آخری سانس تک24 گھنٹے تک ملسل دھڑکتا ہی رہتا ہے۔
کام اس کا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مُدام چلنا ۔!
دنیا کی طاقت ور سے طاقت ور مشین بھی 70 ،80 سالوں تک لگاتار اس طرح کام نہیں کرسکتی۔10،12 گھنٹوں کے وقفے وقفے سے انہیں ایک بڑ ا شٹ ڈائون ضروردرکار ہوتا ہے ۔مگر ایک یہ دل!؟۔ اس بیچارے کو اس طرح کے کسی شٹ ڈائون کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ فیول (غذا اور پانی)کی تو اس دل کو ضرورت رہتی ہے لیکن ایک طویل ’’مرمت ‘‘ جیسے مشغلے سے یہ با لکل بے نیا ز ہے۔اس کا شٹ ڈائون تو دراصل کسی کے اپنے شٹ ڈائون کا سبب بن جاتا ہے۔ بہت کم ہی افراد ہوتے ہیں جنہیں بائی پاس آپریشن یا مرمت سے گذر کر اپنے دل کو ترو تازہ کرنا پڑتا ہے ۔ ورنہ یہ چلن ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی عام بھی نہیں ہے!۔ شاعر نے جو یہ کہا تھا کہ
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈھے!
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے؟
تو اس سے اسکا مطلب اس کے سوا اور کیا تھاکہ دل اور نہ چلے؟۔اور دل، اور رک رک کر کھڑا ہوجائے ؟۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ رکے گا تو زندگی جاںسے گذر جائے گی!۔ا ور وہ رکے گا تو سمجھ لو کہ زندگی آنکھیں بند کرکے لیٹ جائے گی! حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ جسم کے تمام اعضا کی نقل و حرکت اگر دل کی دھڑکن کے ساتھ وابستہ ہے تو ان تمام اعضاء پر کنٹرول ایک چھوٹے سے دماغ کا ہے ۔ اسی کی منشا و مرضی کے مطابق یہ دیکھتے ہیں کہ کب انہیں کون سا کام کرنا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کب انہیں کسی کام سے رک جانا ہے؟۔
دنیامیں آج تک بننے والی تمام مشینیں ، چھوٹی یا بڑی، جسمانی مشقت والی، یاالیکٹرونک سہولتوں والی ، دل دہلادینے والی ،یا دل شادمان کردینے والی، ان تمام مشینوںمیں بس یہ ایک انسانی جسم کی مشینری ہی ایسی ہے جسے حیرت انگیز طو ر پر آج تک مکمل طور پر کوئی سمجھ ہی نہیںسکا ہے۔ اور جو سب سے زیادہ پیچیدہ اور سب سے زیادہ حیران کن ہے !۔یہی وہ مشینری ہے جس پرآج تک لاتعداد پہلووں سے غور کیا جارہا ہے۔ کل بھی اس پر بیش قیمت کتابیں لکھی جایا کرتی تھیں اور آئندہ بھی ’’لکھی جائیں گی کتابِ جسم کی تفسیریں بہت‘‘
سچی بات تویہ ہے کہ انسان کے پاس اگر سوچنے والا کوئی دل ہو تو ساڑھے5 اور 6 فٹ والا یہ جسم ہی اسے اللہ تعا لیٰ کے احسانات یاد دلانے کے لیئے کافی ہے مگر وہ جو کہا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ’ مگرکم ہی ہیں اللہ کے بندوں میںسے جو اس کے شکر گذار بنتے ہیں‘۔’’ قلیلُُ من عبادیَ الشکور‘‘۔سچ ہے اے پروردگارکہ:
ہر چیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی!
یہ کارخانہ تونے کب رائیگاں بنایا؟
اور تب ہی جا کر درست طو ر پر سمجھ میں آتا ہے کہ الٰہی یہ ’جسم و جاں کیا چیز ہے، لہو کیا ہے؟‘
٭٭٭٭٭٭٭٭