Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وحدت اور مساوات ، نبی رحمتﷺ کا انقلاب آفریں کارنامہ

  
آپ نے جذبۂ تعاون وتراحم کو قائم رکھنے اور بداعتمادی وبدگمانی کو ختم کرنے کی وہ تمام ترکیبیں فراہم کردیں جن کی طرف انسانی ذہن نہیں جاسکتا
مولانا شفیق احمد قاسمی۔ ابوظبی
( گزشتہ سے پیوستہ)
قارئین کرام کی خدمت میں8 دسمبر کا تسلسل پیش ہے۔
     ارشاد ِ ربانی ہے :
     ’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں مت پڑو اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو جبکہ تم باہم دشمن تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا، لہٰذا تم بھائی بھائی بن گئے اور تم ہلاکت کے دہانے پر تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔‘‘( آل عمران)
    اولین اسلامی معاشرہ کے ا وصاف:
          رسولِ اکرم محسن اعظم محمد عربی نے اسلامی وحدت وانسانی مساوات پر مبنی جو اسلامی معاشرہ تشکیل فرماکر دنیائے انسانیت کو اسلام کے دینِ فطرت ہونے کا اعلیٰ ترین نمونہ دکھایا تھا اس معاشرہ پر مفکرِ اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ رحمہ اللہ اپنے خاص اسلوب میں روشنی ڈالتے ہیں:
          رسول اللہ نے اس سطح سے کام شروع کیا جہاں حیوانیت کی انتہا اور انسانیت کی ابتداء ہوتی تھی اور اُس اعلیٰ سطح تک پہنچادیا جو انسانیت کی انتہائی منزل ہے اور جس کے بعد نبوت کے سوا کوئی اور درجہ نہیں اور جسے محمد رسول اللہ کے ذریعہ ختم کردیاگیا۔ امتِ محمدیہؐ  کا ہر فرد اپنی ذات سے ایک مستقل معجزہ ، نبوت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔ دنیا کے اگر تمام ادیب جمع ہوکر انسانیت کا کوئی بلند ترین نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں تو ان کا تخیل اس بلندی تک نہیں پہنچ سکتا، جہاں واقعاتی زندگی میں وہ لوگ موجود تھے جو آغوشِ نبوت کے پروردہ اور تربیت یافتہ تھے اور جو درس گاہِ محمدیؐ سے فارغ ہوکر نکلے تھے۔ ان کا قوی ایمان، ان کا عمیق علم، ان کا خیر پسند دل، ان کی ہر تکلف اور ریاء ونفاق سے پاک زندگی، انانیت سے ان کی دوری، ان کا خوفِ خدا، ان کی عفت وپاکیزگی اور انسان نوازی، ان کے احساسات کی نزاکت ولطافت، ان کی مردانگی وشجاعت، ان کا ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت، ان کی دن کی شہسواری اور راتوں کی عبادت گزاری، متاعِ دنیا اور آرائش زندگی سے بے نیازی، ان کی عدل گستری، رعایا پروری اور راتوں کی خبرگیری، اگلی امتوں اور تاریخ میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔  انہی اینٹوں سے اسلامی معاشرہ کی عمارت بنی تھی اوراسلامی حکومت انہی بنیادوں پر قائم ہوئی تھی۔ یہ معاشرت وحکومت اپنی فطرت میں اُن افراد کے اخلاق و نفسیات کی بڑی صورتیں اور تصویریں تھیں اور ان افراد ہی کی طرح ان سے بنا ہوا معاشرہ بھی صالح، امانت دار دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والا، اس معاشرے کے اقدار میں تاجر کی صداقت وامانت، ایک محتاج کی سادگی ومشقت، ایک عامل کی محنت وخیرخواہی، ایک غنی ومال دار کی سخاوت وہمدردی، ایک قاضی کا انصاف اور معاملہ فہمی، ایک والیٔ ملک کا اخلاص و امانت داری، ایک رئیس کی تواضع ورحم دلی، ایک وفادار خادم کی قوتِ کار اور ایک امانت دار محافظ کی نگرانی ونگہبانی جمع تھی (مع تلخیص از منصبِ نبوت )۔
          اللہ رب العزت نے اس اولیں معاشرے کے افراد اصحابِ رسولِ عربی کے تعارف میں ارشاد فرمایا ہے:
            ’’محمد() اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر بہت بھاری اور آپس میں بہت نرم دل ہیں، تم ان کو دیکھوگے کہ رکوع کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہوئے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا تلاش کررہے ہیں، ان کی علامتیں ان کے چہروں سے نمایاں ہیں سجدوں کے اثر سے۔‘‘(الفتح29)۔
          ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
           ’’ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے نہ تجارت روکتی ہے نہ خریدوفروخت۔‘‘
          خود ان نفوسِ قدسیہ کی پرورش اور تربیت کرنے والے، معلمِ انسانیت، پیکرِ رحمت ورافت محمد ِ عربی نے اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا:
    ’’مسلمانوں کی مثال عمارت کی طرح ہے، جس کا ہر فرد ایک دوسرے کو مضبوط کیے ہوئے جوڑے ہوئے ہے ( پھر آپنے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکے دکھایا)‘‘(بخاری و مسلم)۔
    جاہلی عصبیت پر زد:
          آں حضور نے اخوت ومحبت اور وحدت ومساوات کی روح کو فنا کرنے اور انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے والے جاہلی تفاخر اور انساب پر غرور کو بالکل ختم کردیا، فرمایا:
          وہ قومیں جو اپنے مردہ آبائواجداد پر فخر کرتی ہیں ان کو اس سے باز آنا چاہیے، وہ تو جہنم کا کوئلہ بن چکے ہیں یا پھر اللہ کے نزدیک اس کیڑے سے بھی بدتر وحقیر ہیں جو اپنی ناک سے نجاست کو دھکیلتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر تم سے جاہلی عصبیت اور باپ دادا پر فخر کرنے کو مٹادیا (باب المفاخرت: مشکٰوۃ )۔
          جاہلی عصبیت وانانیت کی مذمت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
         ’’جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے عصبیت کے باعث قتال کیا وہ ہم میں سے نہیں اور جو عصبیت میں مبتلا ہوکر مرا وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘(رواہ ابوداؤد)۔
          اسلامی معاشرہ کے جذبۂ تعاون وتراحم کو قائم رکھنے اور بداعتمادی وبدگمانی کو ختم کرنے کی وہ تمام ترکیبیں فراہم کردیں جس کی طرف کوئی انسانی ذہن نہیں جاسکتا اور اس کے رسول کی اطاعت و تابعداری اوراختلافات وتنازعات سے دور رہنے کی تاکید نیز بدظنی رکھنے، کسی کی ٹوہ میں پڑنے اور غیبت کرنے، پڑوسیوں کے حقوق سلب کرنے، مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے، تعاون کرنے، مصائب ومشکلات میں مدد کرنے کو اجرِ عظیم کا باعث فرمایا۔ ذرا اُن آیات واحادیث کو ملاحظہ کریں، کس طرح ہدایات دی جارہی ہیں:
         ’’اللہ اور اسکے رسولؐ  کی اطاعت کرو اور تنازع میں مت پڑو ورنہ ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی، (دشمنوں سے مقابلہ کے وقت) صبر سے کام لو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(الانفال46)۔
    بدگمانی سے بچو:
         ’’اے ایمان والو! بہت زیادہ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بعض بدگمانی گناہ ہے اور ٹوہ میں مت رہو اور نہ تم میں کا کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی گوارہ کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تو تم ناپسند کرو، اللہ سے ڈرو ،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘(الحجرات12)۔
          اور اللہ کے رسول نے فرمایا:
        ’’تم بدگمانیوں سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ کسی کی ٹوہ میں پڑو اور نہ کسی کی جاسوسی کرو اور نہ آپس میں حسد رکھو، نہ بغض وکینہ اور نہ ایک دوسرے سے رْخ پھیرے رہو، اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
    حسن ظن کا درجہ:
         رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’حسن ظن بہترین عبادت ہے۔‘‘(رواہ احمد وابوداؤد)۔
    پڑوسیوں کا خیال رکھو:
          رسول اللہ نے فرمایا: وہ شخص بہ خدا مومن نہیں (3 مرتبہ یہ جملہ فرمایا)، صحابہؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول کون؟ فرمایا :جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں (بخاری ومسلم)۔
     نیز فرمایا:     ’’وہ شخص مومن نہیں جو پیٹ بھرکر کھالے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔‘‘ (مشکٰوۃ باب الشفقہ)۔
    جذبۂ اخوت و تعاون کی آبیاری:
          رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑتا ہے ۔جس نے اپنے بھائی کی ضرورت پوری کی اللہ اس کی ضرورت پوری کرے گا اور جس نے اپنے بھائی سے کسی تکلیف کو دور کیا قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف اللہ اس سے دور کرے گا۔‘‘(بخاری ومسلم)۔
          اسی طرح وحدت ومساوات اور محبت واخوت کے ماحول کو زہریلا کرنے اور نفرت پھیلانے، دشمنی پیدا کرنے کی ایک ناپسندیدہ حرکت کسی کا تمسخر ومذاق کرنا ہے۔ کسی کو برے القاب سے یاد کرنا ہے۔ اسلام نے اس کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے اور یہ احساس دلایا ہے کہ جس کو تم حقیر و ذلیل جان کر مذاق کا نشانہ بناتے ہو یا اس کو برے القاب دے کر رسوا کرتے ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اچھے عمل کی وجہ سے اللہ کے نزدیک ان مذاق اڑانے اور استہزاء کرنے والوں سے بلند مرتبہ پر ہو۔ سورہ حجرات،آیت11 میں ارشادِ ربانی ہے:
              ’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادو (اگر اختلاف پیداہو) اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید تم پر رحم کیا جائے، اے ایمان والو! کوئی جماعت کسی قوم کا تمسخر نہ کرے ممکن ہے وہ لوگ تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ وہ مذاق اڑانے والیوں سے بہتر ہوں اور نہ اپنوں کی عیب جوئی کرو، نہ برے القاب سے مخاطب کرو۔‘‘
      ایسے جامع اصول وقوانین کا پابند معاشرہ ہی وحدت ومساوات اور محبت ورافت، رحم دلی وخیرخواہی، ہمدردی وغمگساری اور ایک دوسرے کی نصرت واعانت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوسکتا ہے۔ یہی اسلامی وحدت ومساوات ہی وہ قوت وطاقت تھی، جس کے سامنے دشمن کی کوئی فوج نہ ٹک سکی۔ اسی مساواتِ اسلامی کا اثر تھا کہ غزوئہ موتہ میں ایک آزاد کردہ غلام سیدنازید بن حارثہ ؓسپہ سالار اعظم بنائے گئے اور مرض الوفات میں اللہ کے رسول نے جو لشکر روانہ فرمایا تھا اسکے سپہ سالارسیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ تھے، جن کے ماتحت ابوبکر وعمر، عثمان وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سمیت تمام کبار صحابہ تھے۔یہی اسلامی مساوات کارفرماتھی کہ فتحِ مکہ کے دن سیدنا بلال حبشیؓ بیت اللہ شریف کی چھت پر کھڑے ہوکر اذانِ توحید دے رہے تھے اور مشرکین کے بعض سردار احساسِ ذلت سے کہہ رہے تھے کہ کاش میں اس منظر کو دیکھنے سے پہلے مرچکا ہوتا۔ اسی اسلامی وحدت ومساوات کو دل سے قبول کرنے کا نتیجہ تھا کہ فاتحِ شام اس امت کے امین حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
    ’’اے لوگو! میں ایک قریشی انسان ہوں اور تمہارا کوئی بھی فرد جوتقویٰ میں مجھ سے فائق ہو خواہ سرخ ہو یاسیاہ میں اس جیسا بننا پسند کروں گا ۔‘‘(اشہر مشاہیر الاسلام)۔
          آج دنیا میں مسلمانوں کو جو بھی مسائل درپیش ہیں یا ان کو دشمنانِ اسلام کی جن سازشوں، تحریکوں کا سامنا ہے اور ان کا توڑ نہیں کرپارہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری وہ مثالی وحدت باقی نہیں رہی جو قوت وطاقت کا سرچشمہ تھی ۔جس طرح قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے بتانِ رنگ و خون کو توڑ کر اپنے کو ملت میں گم کردیا تھا اورسیسہ پلائی دیواربن گئے، آج انہی کے جانشین مسلمان فرقوں، گروپوں، جماعتوں میں تقسیم ہیں۔ قومیت ووطنیت، علاقائیت اور خاندانی انانیت کا شکار ہیں۔ علامہ اقبال رحمہ اللہ کا یہ پیغام اور ان کا منتشر بکھرے مسلمانوں پر طنز کتنا گہرا ہے:
بتانِ رنگ وخوں کو توڑ ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی

شیئر: