یہ توفی،موت اورنوم کے قرینے سے خالی ہے تو اس میں متوفی میت ہے ، نہ نائم ہے بلکہ اس کی’’توفی‘‘ ہونے کے باوجود و ہ زندہ ہے
* * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
باری تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی ( یا عیسی انی متوفیک۔۔۔الخ)کی تفسیر میںجملہ مفسرین کا مسلم امت کے اجماعی عقیدہ حیات عیسی ، رفع عیسی اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کے اثبات پر اجماع ہے البتہ ان کی تفسیرات کی 4 وجوہ ہیں:
باری تعالیٰ کا قول (متوفیک) اس کا معنی (تمہیں بتمام قبضہ میں لینے والا ہوں)۔
اس قول کا قائل اللہ تعالی جل جلالہ ہیںاور اس مقولہ کا مخاطب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ۔ یقینا فاعل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی ، ان کا رفع اور ان کی تطہیر فرمادی۔ یہ تینوں امور حرف عطف (واو) کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور وہ(واؤ) مطلق جمع کیلئے ہے۔
باری تعالیٰ ان سے (ک) خطاب سے مخاطب ہوئے اور متکلم نے اپنے لئے(انی) سے تعبیر فرمائی اور یہ (ی) ضمیر متکلم ہے۔ (ک) بھی خاص ہے اور (ی) بھی خاص ہے جو معلوم المراد ہوتاہے ۔اسے بیان کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ۔نیز توفی اور دیگر رفع اور تطہیر کو لفظ صریح سے ذکر فرمایا کنایہ سے نہیں ۔یہ ظاہر المراد ہیں جن میں کوئی خفا نہیں نہ اجمال ہے ، نہ اشکال ہے ۔ یہ ایسا اسلوب ہے جسے تقدیم وتاخیر بھی مستلزم نہیں بلکہ کسی تقدیر کی بھی حاجت نہیں ۔
ہم نے جو کچھ کہا اور تصریح کی ہے یہ اس آیت کی وجوہ تفسیرات میں سے پہلی وجہ ہے جو تمام وجوہ تفسیر پر راجح ہے ۔اب ہم چاروںوجوہ کو مرتب ومرقم اور مفصل ذکر کرتے ہیں۔
وجہ اول جو سب پر راجح ہے،اللہ جل شانہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتمام قبضہ میں لینے والے ہیں ۔وہ انہیں بتمام قبضہ میں لیں۔’’قابض بتمام‘‘ اللہ جل شانہ ہیں ۔’’مقبوض‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شخص مخاطب ہیں۔ارشاد باری تعالی (رافعک اليّ) میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی طرف رفع کا اطلاق ’’رفع سماوی ‘‘پر ہوتاہے۔’’رافع‘‘ اللہ تعالی ہیں۔’’مرفوع‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت ہیں جو جسم وروح سمیت بتمام مقبوض بھی ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ (ومطہرک من الذین کفروا) اے عیسیٰ میں کافروں سے تیری تطہیر کرنے والا ہوں۔تو یہ شخص جو بتمام مقبوض ہے ، آسمان کی طرف مرفوع بھی ہے ، اللہ تعالی نے اسے ایسی جگہ پہنچادیا جہاں ان کے منکرین کے گندے ہاتھوں کی پہنچ نہ ہو جو ان کا ان کے گھر میںگھیراؤ کئے ہوئے تھے اور انہو ں نے ان کے قتل کرنے اور انہیں سولی دینے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔
ہم کہتے ہیں کہ تمام وجوہ تفسیر میں سے اول وجہ تفسیر راجح ہے اور توفی عیسیٰ علیہ السلام کے بیان میں ظاہر الدلالۃ ہے ۔لفظ ’’توفی‘‘ اپنے وضعی و لغوی معنی پر دال ہے ’’یعنی بتمام قبضہ ‘‘پر۔اب یہ ’’بتمام قبضہ‘‘کیا ہے؟یہاں پر نہ تو قرینہ موت ہے کہ توفی کو اماتہ(مارنے)سے کنایہ بنائیں ، نہ ہی قرینہ نوم ہے کہ توفی کو ’’انامہ‘‘(سلانے) سے کنایہ بنائیں۔’’واؤ‘‘ لفظ خاص ہے ۔ جو جمع کیلئے قطعی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے ’’توفی ‘‘ کے ساتھ ساتھ ان کا رفع اور تطہیر بھی جمع ہوئے تو ’’توفی ‘‘ اپنے وضعی معنی پر ہے اور وہ اللہ تعالی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’بتمام قبضہ میں لینا‘‘ ہے جیسا کہ ان کے شایان شان ہو اور وہ بلا موت اور بلا نوم ہو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ بھی ہوں اور جاگتے بھی ہوں۔ایسے ہی ’’رافع‘‘ الی اللہ اپنے معنی وضعی پر اور آسمان کی طرف منتقل کرناہے ۔ ’’تطہیر من الکفار‘‘ بھی وضعی معنی پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کی گرفت سے دورکردیناہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کفار کی دسترس سے بعید جگہ پر لے جانے سے ہوکہ وہ بتمام مقبوض اورمرفوع اور موصول الی السماء ہوں کہ ان کے دشمن ان کو چھو بھی سکیں۔یہ پہلی وجہ تفسیر ہے جسے ہم نے راجح الوجوہ کہاہے ۔
دوسر ی وجہ ’’توفی ‘‘ جنس اور ر’’رافعک‘‘ اس کی نوع:
اللہ تعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی’’توفی‘‘ فرمانا یعنی انہیں ’’بتمام قبضہ میں لینا‘‘ ایک ایسا مفہوم ہے جوکئی حقائق کو مشتمل ہے لہذا وہ اپنی نوع کی تعیین کی محتاج ہے کہ کونسا ’’بتمام قبضہ ‘‘ یہاں پر مراد ہے ؟کیا یہ اماتہ (مارنا) ہے یا انامہ ہے ؟تو باری تعالیٰ کے ارشاد گرامی’’متوفیک‘‘ کے بعد اس ارشاد مبارک’’ ورافعک‘‘ نے اس ’’بتمام قبضہ‘‘ کی نوع کو مقرر فرمایا کہ وہ ’’رفع الی اللہ ‘‘ ہے اور’’رفع الی اللہ‘‘ قرآنی محاروات میں مراد رفعِ سماوی ہی ہوتاہے ۔ تو’’متوفیک‘‘ نے جنس ’’توفی‘‘ کا بیان کیا اور ’’رافعک‘‘ نے اس کی نوع متعین فرمادی۔ اس کے ساتھ ’’ومطہرک من الذین کفروا‘‘ نے یہ بتایاکہ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایسا رفع فرمایا کہ وہ اپنے منکرین کی دسترس سے بالکل پاک ہوگئے۔باری تعالیٰ نے آسمان پر اطہار کے مقام پر انہیں پہنچادیا۔
اس دوسری وجہ تفسیر میں بھی نہ تقدیم وتاخیر کی ضرورت ہے نہ تقدیر یعنی مقدر ماننے کی حاجت ہے۔نہ اس میں تکریر ہے کیونکہ توفی جنس ہے اور رفع اس کی نوع ہے ۔
تیسری وجہ’’متوفیک‘‘ یہ کنایہ ہے ’’منیمک‘‘ سے ۔بعض اہل تفسیر نے ’’متوفیک‘‘ کو ’’منیمک‘‘ پر حمل کیا ہے ۔یعنی آپ کو نیند دینے والا ہوںاور اس وجہ تفسیر کے قائل ’’انامہ‘‘ کے قرینہ حالیہ کو مقدر لیتے ہیں کہ حق تعالی شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سلادیا کہ ان کا قلب راستے کے خطرات سے مطمئن رہے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خبر دی جو کچھ بحالت رفع ان کے ساتھ کرنے والاہے، تاکہ وہ مطمئن البال رہیں۔فرمایا ’’یا عیسیٰ انی متوفیک۔ای منیمک‘‘ اے عیسیٰ! میں آپ کو پورے طورپر قبضہ میں لینے والا ہوں یعنی میں آپ کو سلانے والا ہوں اور لانے والا ہوں ،اپنی طرف ، یعنی آسمان کی طرف اٹھانے والا ہوں ۔ ’’ومطہرک من الذین کفروا‘‘ اور میں تجھے تمہارے منکرین سے اتنا دور لے جانے والا ہوں کہ وہ اپنے نجس ہاتھوں سے تمہیں چھو بھی نہ سکیں۔
اس وجہ تفسیر میں ’’متوفیک‘‘ صرف ’’منیمک‘‘ سے کنایہ ہے یعنی ’’توفی‘‘ سے مراد ان کا ’’انامہ‘‘ سلانا ہے ۔اس میں نہ تقدیم وتاخیر لازم آئی نہ تقدیراور نہ ہی تکریر،اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سلایا اور اسی حالت میں ان کارفع فرمایا اور انہیں اپنے آسمانوں تک پہنچادیا۔
چوتھی وجہ ’’توفی ‘‘ سے مراد متاخر واقع ہونے والا ’’اماتہ‘‘ ہو جو نزول سماوی کے بعد ہوگا، اور اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا وقوع ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ’’متوفیک‘‘ اس سے مراد ’’ممیتک‘‘ (میں ہی تمہیں مارنے والا ہوں) ۔یہ تمہارے دشمن نہیں،تو اب اس کیلئے مارنے کا قرینہ مقدر ماناجائے (یعنی میں ہی آپ کو مارنے والا ہوں آپ کو آسمان سے اتارنے کے بعد،اجل آنے پر) ۔اس وجہ تفسیر میں تقدیم وتاخیر لازم آتی ہے کہ جو پہلے ذکر ہوا ہے (یعنی توفی بمعنی مارنا) وہ وقوع میں متاخر ہے اور جو بعد میں ذکر ہوا (یعنی رفع سماوی) وہ وقوع میں مقدم ہے۔اس وجہ تفسیر میں تقدیم وتاخیر اور قرینہ موت کو مقدر ماننا ہوگا تبھی ’’متوفیک‘‘ ممیتک سے کنایہ ہوگا۔بہر حال تمام وجوہ تفسیر میں جملہ مسلم مفسرین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ، ان کے رفع اور ان کے نزول پر متفق ہیں ۔
سب سے راجح قول میں توفی علیہ السلام میں اسلوب صراحت اور توفی عموم بشر میں اسلوب کنایہ اختیار کرنے کی حکمتیں:
ارجح قول کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی میں اسلوب صریح کو اختیار کیا گیا ہے کہ توفی لغت میں ’’قبض تام‘‘ ہے ۔جیسے اللہ کی شان ہے اور اس کے ساتھ رفع کو جمع کیا گیا جو نیچے سے اوپر منتقل کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ان کی کفار سے تطہیر کو کہ انہیں اپنی طرف یعنی آسمان پر لے جاکر کہ ان کے نجس ہاتھوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پاک کردیا۔یہ سب صریح اسلوب میں ذکر ہے کیونکہ یہ اسلوب بیان آسان ہوتاہے جبکہ عام بشر کی توفی وہ’’اماتہ‘‘(مارنا) ہو یا ’’انامہ‘‘(سلانا)ہو، اس کے بیان میں کنایہ کے اسلوب کو اختیارکیا گیا ہے۔
اس اختیار ربانی کی کئی حکمتیں ہیں:
عموم بشر کی ’’توفی‘‘ میں کنایہ کی حکمتیں:
کنایہ صریح سے زیادہ بلیغ ہوتاہے ، اس میں کسی امر کے بیان میں اس کی قوت تاثیر زیادہ ہوتی ہے کیونکہ کنایہ میں کوئی امر بھی اپنی دلیل کے ساتھ ذکر ہوتاہے جیسے کہ اجل پر بتمام قبضہ میں لینا، یہ بذات خود مقبوض کی موت کی دلیل ہے اور بوقت منام بتمام قبضہ میں لے لینا یہ سلانے کی دلیل ہے ۔ کسی امر کو دلیل سمیت ذکر کرنا بیان میں زیادہ بلیغ ہوتا اور وہ قوی تاثیر رکھتاہے تاکہ مخاطبین کے ذہن میں مندرجہ ذیل امور خوب جم جائیں اور راسخ ہوجائیں:
عمومی بشر کی توفی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی دو مختلف حقیقتیں ہیں ۔
توفی قرینہ موت کے وقت متوفی کو مارناہے اور متوفی میت ہوگا۔
توفی قرینہ نوم کے وقت متوفی کو مارنا نہیں فقط سلانا ہے اور متوفی میت نہیں بلکہ زندہ ہوتاہے ۔سونے والا مردہ نہیں ہوتا، نہ سلانے والا (ممیت) مارنے والا ہوتاہے بلکہ وہ مُنیم یعنی سلانے والا ہوتاہے۔
عموم بشر کی توفی کی دو نوع ہیں : ’’اماتہ‘‘ یعنی (مارنا) اور’’انامہ‘‘یعنی(سلانا)
جیسا قرینہ ہوگا ’’توفی‘‘ کی نوع حتماً وہی متعین ہوگی۔
اگر کسی امر کا قرینہ نہ ہو ، تو ’’توفی‘‘ نہ مارنے (اماتہ) سے نہ سلانے (انامہ) سے کنایہ ہوگی بلکہ وہ لغت اور وضع کے لحاظ سے صرف متوفی کیلئے ’’قبض تام‘‘ ہوگی۔
متوفی نہ ممیت (مارنے والا) ہوگا ، نہ مُنیم (سلانے والا) ہوگا فقط ’’بتمام قابض‘‘ ہوگا۔
تاکہ اذہان میں یہ خوب نقش ہوجائے کہ ’’توفی اماتہ‘‘ اور ’’توفی انامہ‘‘ صرف خالق جل وعلا کے قبضہ اختیار میں ہے ۔
ملحوظہ:
مرزا قادیانی کا یہ زعم باطل ہے کہ اگر’’توفی ‘‘ کے ساتھ قرینہ لیل یا نوم نہیں تو اس سے مراد متوفی کا اماتہ(مارنا) ہوگا۔مرزا کے اس قول وضابطے کی علوم لغویہ اور محاورات قرآنیہ میں نہ کوئی اصل ہے نہ اس کی کوئی مثال ہے ۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مرزا کا یہ ’’بانجھ قاعدہ‘‘ ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی (ارجح قول کے مطابق) صراحت سے بیان کرنے کی حکمتیں:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کے ساتھ ان کے رفع اورتطہیر کا ذکر صریح اسلوب بیان ہواہے اور صریح لفظ اپنی مراد میں ظاہر ہوتاہے ۔اسے سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا بڑا آسان ہوتاہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصی توفی کے بیان میں اسلوب صریح کا اختیار اور موت اور نوم کے قرینے کے ذکر کے بغیر اس کا ذکر اس لئے ہے تاکہ مخاطب قرآن سہولت اور آسانی سے یہ سمجھ لے کہ :
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی مستقل ایک حقیقت ہے جو عمومی بشر کی توفی سے الگ ہے۔
یہ توفی/موت اورنوم کے قرینے سے خالی ہے تو اس میں متوفی میت ہے ، نہ نائم ہے بلکہ اس کی’’توفی‘‘ ہونے کے باوجود وہ ’’حي‘‘ (زندہ) ہے۔
یہ ’’توفی‘‘ متوفی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باری تعالی کا بتمام اپنے قبضہ میں لیناہے، اور اس کے ساتھ ان کا رفع کرنا اور ان کی کفار سے تطہیر پر مشتمل ہے۔
اس توفی عیسوی میں 3امور (توفی+رفع +اور تطہیر) قطعی الثبوت کلام سے ثابت ہیں اور لفظ خاص (واؤ) سے جو جمع کیلئے ہوتاہے۔
توفی عیسیٰ علیہ السلام ان کے قبض تام اور ان کے رفع الی اللہ اور ان کے آسمان پر پہنچانے سے عبارت ہے ۔