محسن علی السھیمی ۔ المدینہ
اسلامیات کے معروف اسکالر ڈاکٹر ذکی المیلاد نے اپنے ای پروگرام میں اپنا تصور یہ کہہ کر بیان کیا ہے ”انسان اپنے جیسے انسان سے کیوں نفرت کرتا ہے ،سب لوگ اللہ کی مخلوق ہیں اللہ ہی نے سب کو ایک جان سے پیدا کیا، انہیں اقوام و قبائل کا تشخص دیا۔اللہ چاہتا ہے کہ مختلف قبائل اور اقوام کے لوگ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑے اور نفرت و عداوت کے بجائے ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں۔ اللہ کے یہاں معزز بندے وہ ہیں جو خدا ترس ہوتے ہیں“۔
ذکی المیلاد نے مذکورہ انسانیت نواز روا داری پر مبنی تصور کے ذریعے اسلامی فکر پیش کی۔ انہوں نے اسلام کو سند بنانے کے دائرے میں تجدید کے مسائل اور اسلامی فکر کے امور کی بابت فکرو نظر کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر ذکی المیلاد کے مذکورہ افکار بنیادی طور پر ان کی اس نئی کتاب کا حصہ ہیں جسے مجلہ الفیصل نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ایسے وقت میں شائع ہوئی جبکہ مجلہ الفیصل نے اپنے تازہ شمارے میں ” اقبال کی نکتہ چینی ....اقبال کا مطالعہ اب کیسے کریں؟“ کے زیر عنوان بھی ڈاکٹر ذکی المیلاد کی تحریر پیش کی ہے۔ ڈاکٹر ذکی المیلاد نے پاکستان کے اسلامی فلسفی ڈاکٹر محمد اقبال پر نکتہ چینی بھی کی۔ انہوں نے اس کا جواز یہ کہہ کر پیش کیاکہ انکا مقصد یہ ہرگز نہیںکہ اب ہمیں علامہ اقبال کی ضرورت نہیں رہی۔ اسکا مقصد یہ بھی نہیں کہ ہم اقبال کی فکر سے بے نیاز ہوگئے ہیں اور اب وہ ماضی کا قابل فراموش حصہ بن گئے ہیں۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ میرا مقصد اقبال کی فکر کی ضرورت کا احساس دلانا اور فکرِاقبال کا احیا ءہے۔ میں چاہتاہوں کہ علامہ اقبال کی فکر ہماری فکری اور مذہبی زندگی میں موثرہو۔ ہمارے فکری جمود اور پسپائی کو جھنجوڑے۔
علامہ اقبال سے متعلق ڈاکٹر ذکی المیلادکی تخلیق فکرِ اقبال اور فلسفہ اقبال سے پسندیدگی کا نتیجہ ہے۔ علامہ اقبال کا فکر و فلسفہ قرآن کریم سے ماخوذ ہے۔ علامہ اقبال کے اس فلسفے کی اہمیت عربوں اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ جرمن دانشوروں نے اجاگر کی ہے۔ڈاکٹر ذکی المیلاد کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کا رتبہ ان کے یہاں جرمنی، انگلینڈ ، فرانس بلکہ پورے یورپ کے فلسفیوں سے کسی درجہ کم نہیں۔ علامہ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے افکار و نظریات اور فلسفیانہ خیالات کے باب میں کسی مغربی فلسفی کے خوشہ چیں نہیں۔ وہ مغرب زدہ مفکر بن سکتے تھے، وہ یورپی ثقافت کے کامیاب شاگرد کے طور پر خود کو منوا سکتے تھے۔ مسلم عرب دنیا کے بہت سارے لوگوں نے یہ کام کیا لیکن علامہ اقبال نے اپنی آزاد شخصیت تشکیل دی۔ انہوں نے فلسفیانہ علوم کے مطالعے میں گہرائی اور گیرائی سے کام لیکر اپنے روحانی تشخص کو برقرار رکھا۔ ڈاکٹر ذکی المیلاد نے اپنی کتاب میں فکر اقبال کے بعض عرب و مسلم ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیا۔
ڈاکٹر ذکی المیلاد کی کتاب کے مطالعے نے مجھے یہ سوال کرنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر علامہ اقبال جیسی قد آورشخصیت کے فلسفیانہ رتبے کا حق کیوں نہیں ادا کیا گیا۔ بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے علامہ اقبال کے افکار و نظریات پر کام کیا ہو، ان میں ڈاکٹر ذکی المیلاد بھی شامل ہیں۔خود علامہ المیلاد کی اسلامی فکر کو بنیاد بنانے کے حوالے سے گہرے مطالعے کے حقدار ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭