Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مقامات مقدسہ کیلئے ہماری جانوں کا نذرانہ معمولی چیز ہے، امام حرم

 مکہ مکرمہ.... مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے واضح کیا ہے کہ اسلامی مقامات مقدسہ کی حفاظت کےلئے ہماری جانوں کا نذرانہ معمولی چیز ہے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے ۔ امام حرم نے کہا کہ خدا ترسی لغزشوں کی مغفر ت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی بدولت دینی اور دنیاوی غلطیوں کا تدارک ہوتا ہے اور صلاح و فلاح نصیب ہوتی ہے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ جو لوگ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے احکام و مقاصد پر نظر رکھتے ہیں انہیں اس بات میں ذرا برابر کوئی شبہ نہیں کہ اسلام کے جملہ احکام بندوں کے مفاد اور انکی صلاح و فلاح کیلئے ہی نازل کئے گئے۔ اسلامی احکام کا مقصد بندوں کو نقصان سے بچانا ، مشکل میں پڑنے سے روکنا ہے۔ امام حرم نے کہا کہ دین اسلام کشادگی، رواداری، سہولت و آسانی، اعتدال اور میانہ روی کا علمبردار مذہب ہے۔ اسلام کے آئینی اصول میں ہمارے لئے بے شمار سہولتیں ہیں۔ اسلام نے ایک اصول یہ دیا ہے کہ بنیادی طور پر تمام اشیاءمباح ہیں۔ اسلام نے چند اشیاءحرام کی ہیں۔ صرف وہی حرام ہیں باقی چیزیں حلال ہیں۔ انکا کھانا پینا اور استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔ امام حرم نے یہ بھی بتایا کہ اسلام کی جانب سے اپنے پیرو کاروں کو دیجانے والی آسانی ملاحظہ ہو کہ حرام اشیاءبھی بعض اوقات حلال کردی جاتی ہیں۔ ضرورت کے تحت حرام شے حلال ہوجاتی ہے۔ اسلامی شریعت کے اصول ایک درجے کے نہیں ہیں۔ بعض ایسے احکام پر مشتمل ہیں جن میں بندوں کو آسانیاں دی گئی ہیں۔ انسانوں کے حالات کا اعتبار کیا گیا ہے۔ زمان و مکان کے تقاضوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اسلام نے اس طرح کے جو احکام دیئے ہیں انہیں علماء”رخصت“ کے نام سے متعار ف کرائے ہوئے ہیں۔اسلام نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جانے والی رعایتوں (رخصت) سے استفادے کی ترغیب دی ہے۔ امام حرم نے اسلامی نظام میں موجود روا داری اورآسانی کی متعدد مثالیں بھی حاضرین حرم کو سنائیں۔ ان میں موزوں، امامے پر مسح، پانی نہ ملنے پر تیمم اور کرہ ارض کے کسی بھی حصے میں نمازادا کرنے کی اجازت قابل ذکر ہے۔ اسلام نے سفر کے دوران 4 رکعت والی نمازوں میں بھی تخیف کی ہے۔ 2رکعت مقرر کردی ہیں۔ اسی طرح سے بارش اور قدرتی آفات کے موقع پرقبل از وقت نماز کو مقررہ وقت پر نماز کے ساتھ ادا کرنے کی گنجائش دی ہے۔ برعکس صورت میں بھی جمع تاخیر و تقدیم کی اجازت مقرر کی ہے۔امام حرم نے توجہ دلائی کہ بعض لوگ اسلام کی روا داری کو عبادات تک محدود کئے ہوئے ہیں۔ یہ ناانصافی اور ظلم ہے۔ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنے پیرو کاروں کوروا داری کی سہولت بخشی ہے۔امام حرم نے بتایا کہ اسلام نے سزاﺅں میں قانون کی روح کے منافی رویہ اپنانے سے بھی منع کیا ہے۔ اسلام نے ماں بننے والی خاتون سے قصاص لینے یا وضع حمل اور نومولود کی شیرخواری کا دورانیہ مکمل ہونے سے قبل شرعی حد قائم کرنے سے منع کیا ہے۔ اسلام نے حدود کے نفاذ سے حتی الامکان بچنے کی ترغیب دی ہے۔ اسلام نے ایسے دشمنوں کے ساتھ بھی عدل و انصاف کا حکم دیا ہے جنہوں نے اہل اسلام کیساتھ جبر و قہر کا معاملہ کیا ہو۔ اسلامی رواداری کسی کمزوری کی علامت نہیں۔ اسلامی روا داری کا مطلب یہ نہیں کہ فرزندان اسلام اغیار کو اپنے علاقوں پر ناجائز قبضے یا اپنی حرمتوں کو پامال کرنے کا موقع مہیا کردیں۔ اسلامی مقدسات کے لئے جانوں کا نذرانہ معمولی بات ہے۔ جارحیت کی شروعات کرنے والا ہی حقیقی دہشتگرد ہے۔ اپنی زمین ، اپنی آبرو او راپنے مقدسات کا دفاع کرنے والا دہشتگرد نہیں ہوسکتا۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس ہیں۔ یہ قیامت تک اسلامی عرب شہر رہیگا۔ دشمن کتنے بھی عناد اور غرورسے کام کیوں نہ لے لیں۔ امام حرم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک بنی نوع انسان کے تعلقات کی بنیاد عدل و انصاف پر قائم نہیں ہوگی تب تک دنیا میں اصلاح کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اسلامی روا داری ، مقامات مقدسہ کے تحفظ کی بابت یقین محکم، عمل پیہم اور مضبوط فیصلوں کے منافی نہیں۔ دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ عبدالمحسن القاسم نے فرزندان اسلام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ سب لوگ اپنے خالق و مالک سے اچھا گمان رکھیں ۔تمام اہل ایمان یہ عقیدہ رکھیں کہ روزی ، روٹی ، صلاح و فلاح سب کچھ رب کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن فرض ہے۔ یہ توحید کا اٹوٹ حصہ ہے۔ 
 

شیئر: