سوال ٹیڑھا ہے ، ظاہر ہے جواب ڈھونڈنا آسان نہیں ہو گا۔ شمالی کوریا کو دھمکیاں،اس پر چڑھ دوڑنے کی باتیں ، ایران کے بارے میں روز نئی باتیں کوئی حد ہوتی ہے۔ انسان ہوش وحواس کھو بیٹھے تو اسے یا تو دیوانہ گردانا جاتا ہے یا پھر اس کی دماغی صلاحیتوں پر شبہ لازمی ہونے لگتا ہے۔ مختلف قسم کے سوالات اٹھنے لگتے ہیں۔ یہ سوال بھی لازماً اٹھے گا کہ کیا ایسے شخص کو جس کی ذہنی درستگی کے بارے میں شکوک و شبہات مستقلاً دیکھتے ہی آ رہے ہیں، حکومت کرنے کا حق ہے؟ ہٹلر اور مسولینی نے جس مہم کا آغاز کیا تھا اس کا انجام سب کے سامنے ہے ۔ برسوں ہوئے دوستی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد دنیا نے سکھ چین کا سانس لیا تھا ۔ حالات آہستہ آہستہ سنبھلتے گئے۔ امن او رچین کی دور دور تک بانسری بجنے لگی پھر درمیان میں کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جو ناگفتہ بہ تھے۔ سینیئر بش نے عراق پر بمباری کی۔ اپنی فوجین اتاردیں۔ صدام حسین کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔ جونیئر بش نے افغانستان میں دھواں دھار بمباری کر کے تورا بورا کو تہس نہس کر دیا۔ لاکھو ں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ بل کلنٹن نے امریکی صدر کی حیثیت سے کوسووا، آئرلینڈ ، بوسنیا میں امن بحال کیا۔ اقوام متحدہ میں 126ووٹوں سے امریکی صدر کے فیصلے کو جس کے تحت یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنایا گیا، دنیا نے رد کر دیا۔ ظاہر ہے ٹرمپ نے سر پٹکنا شروع کر دیا، غصہ انسان کی عقل کو بھلا دیتا ہے۔ یہی کچھ مظاہرہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔ دنیا کی سپر پاور، دنیا کی سب سے بڑی قوت اگر عقل و ہوش سے کام نہ لے تو نتائج خطرناک ہی ہوں گے۔ شمالی کوریا کو آپ رام نہ کرسکے ۔نوم پنھ کو سبق سکھادوں گا،سب زبانی جمع خرچ ، گیڈر بھبکیوں ، طاقت کے نشے میں اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے غلطیاں سرزد ہونے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں اس وقت کے وزیراعظم سرونسٹن چرچل سے کسی نے پوچھا کہ کیا برطانیہ واقعی جنگ جیت پائے گا۔ چرچل ایک منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ انہوں نے پلٹ کر سوال کرڈالا کہ کیا برطانیہ میں عدالتیں انصاف دے رہی ہیں؟ جواب جب ہاں میں ملا تو چرچل نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ جہاں انصاف ہو وہاں قومیں ہارا نہیں کرتیں۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ ان کی بات میں کتنی صداقت تھی۔ برطانیہ ہاری ہو ئی جنگ جیت گیا۔ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے عجیب و غریب حرکتیں کر رہے ہیں۔ کبھی پاکستان کو دھمکی کہ اگر اسلام آباد نے ان کی مرضی و منشاء کے خلاف کچھ کام کیا تو وہ پاکستان کے خلاف ایکشن لیں گے۔ ہم پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ تم نے دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ لاکھ مرتبہ منتخب اور فوجی حکمرانوں نے سمجھایا کہ اگر اس میں تھوڑی سی بھی سچائی ہے تو ہمیں ثبوت دیں۔ ہم ایسے تمام عناصر کی بیخ کنی کریں گے۔ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے وابستہ ہے۔ پاکستان ایسی حماقتیں کیوں کرے گا کہ جو خود اسکے گلے میں مصیبتوں کا ہار بن جائے۔ فوجی ترجمان ، وزیرخارجہ خواجہ آصف سب نے ہی بارہا اس کی توضیح کی ہے لیکن اس کا کوئی کیا کرے کہ دوسرا سننے کیلئے تیار ہی نہیں ،تو پھر مسئلہ کیسے حل ہو گا۔
دنیا میں مانا ہوا طریقہ مسائل کو حل کرنے کا مذاکرات ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ امریکی نائب صدر مائیک پنس پاکستان آئے۔ ہماری ہاں میں ہاں ملائی۔ ہماری قربانیوں کی تعریف کی لیکن پلک جھپکتے ہی افغانستان پہنچ کر اپنا بیان یکسر بدل ڈالا۔ اب اس کا آپ کیا کریں؟ میں نہ مانوں کا علاج تو کسی کے پاس نہیں۔ پاکستان نے ہر کوشش کی ہے کہ وہ اپنا نکتہ نظر دنیا کو سمجھا سکے لیکن کوئی سنے بھی صحیح۔
عجیب طور ہے اس شہر کا یارو
اندھوں سے کہا جاتا ہے بہروں کو پکارو
کچھ ایسی ہی مثال پاکستان امریکہ کے باہمی تعلقات کی بھی ہے۔
اب ایک بم اور گرا دیا گیا۔ بیٹھے بٹھائے ٹرمپ صاحب جنہوں نے ایک امریکی کینیڈین جوڑے کو 4سال بعد بحفاظت ان کے ملک پہنچا دیا تو وہ پاکستان کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اب یہ آخر کیا ہوا جو یکدم سے انہوں نے ایک بیان داغ ڈالا کہ امریکہ نے بیوقوفی سے 33ارب ڈالر پاکستان کو پچھلے 15سال میں دیئے لیکن پاکستان نے امریکہ کو بیوقوف بنایا،اس سے جھوٹ بولا، جو کام اس کے ذمہ لگائے گئے تھے پورے نہیں کئے۔ یہ آخر یکایک امریکی صدر کو کیسے معلوم ہوا؟ کیا انہو ںنے کوئی خواب دیکھا تھا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوراً ہی بات صاف کر دی کہ آپ اس تمام رقم کا آڈٹ کراولیں ،جو خرچہ ہو گا پاکستان دے گا۔ ہمیں جھوٹ بولنے کی عادت نہیں اورجھوٹ بولنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اگر امانت میں خیانت کی ہے تو ہمیں بتایا جائے۔ ہم سننے کیلئے تیار ہیں۔ غور کیجئے کہ امریکہ کی جنگ جو وہ آج تک جیت نہیں سکا اس کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا ہے۔ یہ پرانی عادت ہے کچھ لوگوں اور قوموں کی۔ ہم صفائی ہی پیش کر سکتے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی 825ملین ڈالر کی امداد بند کردی تو کیا ہو گا؟ کوئی آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں۔ بندشیں تو ہم پر 1962ء سے لگتی رہی ہیں لیکن کیا پاکستان اپاہج ہو گیا؟ ہم تو الحمدللہ ترقی کے راستے پر گامزن ہیں اور رہیں گے۔ وہ زمانہ لد گیا جب پاکستان سارے انڈے ایک جگہ رکھتا تھا۔ آج ہماری رسد و سپلائی مختلف ذرائع سے ہے۔ ہم کسی ایک پر انحصار کر کے بے سہارا نہیں بننا چاہتے۔ پاکستان آج سعودی عرب ، یورپ ، برطانیہ، جرمنی کے ساتھ کھڑا ہے۔ چین بفضل تعالیٰ ہماری پیٹھ پر ہے۔ ان دھمکیوں کا کیا اثر پڑے گا۔ ہم ایک آزاد ، خود مختار ملک ہیں۔ 20کروڑ کی آبادی جس کی افواج دنیا کی چھٹی بڑی افواج کہلاتی ہے۔ جو طیارے ، گن بوٹ ، میزائل بوٹ خود بنا رہی ہو او رسب سے بڑی جو اسلامی دنیا کی واحد نیوکلیئر پاور ہے۔ اسے کچوکے تو لگائے جا سکتے ہیں مگر او رکچھ زیادہ نہیں ۔
قومی سلامتی کونسل کا اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت ہوا۔ اس سے پہلے کور کمانڈرکا اجلاس بلایا گیا۔ 4گھنٹے تک مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے کر ایک معصوم سا محبت نامہ جاری کر دیا گیا کہ ہم جلدی میں کوئی قدم اٹھانے سے گریز کریں گے۔ امید ہے کہ امریکی صدر کی سمجھ میں آ جائیگا ۔ امداد بند کرتے ہیں تو کرلیں۔ ہم کسی کے زرخرید غلام نہیں ہیں۔ بھیک مانگنے کے عادی نہیں۔ بند کردیجئے امداد ، ایک بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔ پاکستان نے 33ارب سے زیادہ کی امریکہ کی مدد کی ہے۔ قدم قدم پر اس کا ساتھ دیا ہے۔ 70ہزار فوجی اور معصوم شہری مارے گئے۔ ہم نے اپنے ہوائی اڈے ، ریلوے، سڑک ، سازوسامان ہر چیز سے دامے، درمے امریکہ کی مدد کی ہے لیکن امریکہ بھی انصاف نہیں کر رہا۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ :