قدآور،ایماندار ، راست باز-اصغر خان
کسی کی مدح سرائی لکھنا تو بڑا آسان ہے لیکن ا قد آور ایماندار اور راست باز شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ متوفی ایئر مارشل اصغر خان کو میں کئی عشرے سے جانتا ہوں اور یہی وہ بوجھ ہے جس کے نتیجے میں ، میں یہ چند سطریں قرطاس ابیض کے سپرد کررہا ہوں۔ درحقیقت اگر میں یہ نہ لکھتا تو میں اپنے فرائض سے کوتاہی کررہا ہوتا۔
اصغر خان ایک انتہائی شریف النفس شخصیت تھے۔ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں وہ پاک فضائیہ کے کمانڈر تھے اور انہوں نے اسے لڑاکا فورس میں تبدیل کرنے کیلئے بڑا کام کیا جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ انتہائی پیشہ ور فوجی تھے اور انہوں نے فضائیہ کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیا جس کیو جہ سے ہماری فضائیہ نے 1965 ء کی جنگ میں دلیرانہ کردار ادا کیا۔
جنگ میں ہندوستانیوں کو چیلنج کرنے کا کریڈٹ تو ان کے جانشین ایئر مارشل نور خان کو جاتا ہے ۔ یہ وہی نورخان ہیں جو ہماری سوچ سے بھی پہلے ہمیں چھو ڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے۔ جی ہاں! پاکستانی فضائیہ نے آسمانوں پرہند کے طیاروں کو مار گرایا۔ اس کا کریڈٹ نور خان لے گئے لیکن یہ اصغر خاں تھے جنہیں اس کا مساوی حق دینا چاہیئے اور انہیں دیا بھی گیا۔
اصغر خاں 1955 ء سے 1965 ء تک فضائیہ کے سربراہ رہے اور ستمبر کی جنگ سے صرف2 ماہ پہلے ہی سبکدوش ہوئے تھے کیونکہ اس وقت کے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے ساتھ ان کے اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ اسکے بعد ان کا پہلا اور آخری سرکاری عہدہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی صدارت تھی۔ ان کی عمر اس وقت محض 45 سال تھی جب انہوں نے یہ عہدہ چھوڑا۔ پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین شپ کا عہدہ اس وقت اپ گریڈ کیاگیا۔ نور خاں اس وقت پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر بنے تھے جب وہ ایئر کموڈور تھے اور اسکے بعد 1973 ء میں بنے تھے، وہ بھی چند برسوں کیلئے۔ یوں وہ اسے بلندیوں پر لے گئے۔
اصغر خاں سے میری پہلی ملاقات اکتوبر 1969ء میں ہوئی۔ میں نے ان سے ملاقات کی درخواست کی تھی جس کی فوری منظوری ملی تھی۔ اصغر خان نے اپنی اہلیہ آمنہ کے ساتھ مجھے ایبٹ آباد کی رہائش پر خوش آمدید کہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھٹو ایوب خان کی کابینہ سے علیحدہ ہوئے تھے ۔ اصغر خاں نے 2گھنٹے تک مجھ سے بات کی ، اس دوران انہوں نے میرے لئے چائے پیالی میں انڈیلی۔ ہم نے ملک کی تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر بات کی۔
ایک سال بعد ہی اصغر خان جن کی عمر اسوقت 49 سال تھی ، بڑے شاندار طریقے سے سیاست میں داخل ہوئے جس سے پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ بھٹو اور اصغر خاں نے اُس دور میں سیاست شروع کی جب ماحول میں انتہائی گھٹن تھی۔میڈیا پر سنسر شپ لگا ہوا تھا اور ایوب خان متوفی نواب آف کالا باغ کی حمایت سے سخت ترین حکمرانی کررہے تھے جس کی وجہ سے پورے ملک میں بے سکونی تھی۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اصغر خاں انتہائی میچور تھے اور ملکی اور غیر ملکی امور پر ان کا مطالعہ وسیع تر تھا لیکن ان کی یہی ایمانداری انکے آڑے آئی۔ وہ کبھی بھی سچ بات کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے کیونکہ بے ایمانی انکے خون میں شامل ہی نہیں تھی۔ وہ لوگوں کو یہ بتانے سے گریز نہیں کرتے تھے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ۔
سیاست ایک گندا کھیل ہے ، لوگ بے ایمانی سے کام لیتے ہیں اور کم ازکم وہ سچائی کو اس وقت تک چھپائے رکھتے ہیں جب تک وہ سچ بولنے کا نہیں سوچتے۔ اصغر خاں سچائی کے فن میں اور اگر اس کو فن کہا جائے تو طاق تھے لیکن میرے نزدیک وہ اخلاقی طور پر خود کو سچ کاکہنے کے ذمہ دار سمجھتے تھے چاہے سچ کہنے کا وقت صحیح ہو یا غلط ۔ یہی ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ اگر انہوں نے جنرل ضیاء کے منہ پر یہ تلخ سچ نہ کہا ہوتا کہ وہ ملک کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں تو اصغر خاں سربراہ مملکت ہوتے۔
ایمانداری سے کام لینا کوئی ان سے سیکھے اور اسی وجہ سے وہ اقتدار سے دور بھی رہے۔ اکثر میں ان سے کہا کرتا تھا کہ سیاسی جماعتیں آخر خیراتی تنظیموں سے مختلف کیوں ہوتی ہیں، سیاستداں کوئی سمجھوتہ کئے بغیر حکومت میں پہنچنے کی کبھی امید نہیں رکھتا لیکن اصغر خاں ان سب کیخلاف تھے۔ وہ جھوٹ بولنے سے شدید نفرت کرتے تھے اگرچہ اس کی وجہ سے انہیں نقصانات بھی ہوئے۔
مجھے ان کیساتھ ملک بھر میں سفر کرنے کا تجربہ حاصل ہے۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہم دونوں تو کئی مرتبہ سابق مشرقی پاکستان بھی گئے۔ شمال میں گلگت، اسکردو اور بلتستان تک گئے ۔ پنجاب کے ہرے بھرے علاقوں اور سندھ سے بھی گزرے۔ ریل ، روڈ سروسز سے پورا فائدہ اٹھایا۔ اسکے علاوہ ان کی جسٹس پارٹی کیلئے پرائیویٹ کاروں سے بھی گھومے۔ یہ پارٹی انہوں نے پاکستان کے دونوں صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان میں انتخابات سے پہلے قائم کی تھی تاہم 1970 ء کے الیکشن میں وہ ایبٹ آباد سے خود اپنی نشست گنوا بیٹھے تھے۔
اصغر خاں نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کیخلاف یحییٰ خان کے کریک ڈاؤن کی سخت مخالفت کی تھی حالانکہ اس وقت نور خان مغربی پاکستان اور ایڈمرل احسن مشرقی پاکستان کے گورنر تھے۔ ان دونوں نے احتجاجاً گورنرشپ سے استعفے بھی دے دیئے تھے۔ وہ اس میں حق بجانب تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک تقسیم ہوجائیگا اور ہوا بھی وہی کہ 16 دسمبر 1971 ء کو ملک کے2 حصے ہوگئے۔ اصغر خاں نے اس دور کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کے دور میں جو میراث چھوڑی ہے ان پر چلنا مشکل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوم کیلئے ایک تحفہ تھے۔