عبدالرحمان الراشد۔ الشرق الاوسط
نیویار ک ٹائمز کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خبر کے درست ہونے کی تصدیق کے چکر میں بسااوقات ایسی خبروں سے محروم ہوجاتا ہے جو قابل اشاعت ہوں۔
یہ بات صحافیوں کے افسانوی دعوﺅں سے تعلق رکھتی ہے۔ سچ اور حق یہ ہے کہ نیویارک ٹائمز بھی دیگر اخبارات کی طرح جب چاہتا ہے خبر کے درست ہونے کےلئے ثبوت کے سلسلے میں سخت پالیسی اپناتا ہے۔ جب چاہتا ہے اس سلسلے میں ڈھیل دیدیتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایک ایسا صحافی ہو جس کی اپنی رائے نہ ہوتی ہو۔ جس کے اپنے رجحانات نہ ہوں۔ یہ بات صدر ٹرمپ کے ساتھ اختلاف نے مزید اجاگر کردی ہے۔ معاملہ لعن طعن ، دشنام طرازی اور کیچڑ اچھالنے کی حالت میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ٹرمپ کے معاملے کی کوریج پیشہ ورانہ اصولوں سے آزاد ہوگئی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مصری حکام تل ابیب سے القدس امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے مخالف نہیں ۔ یہ بات مصر کی اعلانیہ پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ اخبار مذکور نے اپنے دعوے کی تائید میں سی آئی ڈی کے اُس افسر کی ریکارڈنگ کے مندرجات شامل کردیئے ہیں جو مصری اناﺅنسرز سے رابطے میں تھا اور مصری حکومت کی پالیسی بیان کرکے اناﺅنسر سے پالیسی کی حمایت کیلئے کہہ رہا تھا۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ قطر کے تعلقات عامہ کے اثرات کی دین ہے۔ قطر صحیح اور غلط کے پرچار کیلئے صحافیوں کی خدمات حاصل کئے ہوئے ہے۔
میں نے سی آئی ڈی افسر کی ریکاڈنگ بغورسنی۔ مجھے اس میں کوئی نئی سیاسی بات نظر نہیں آئی۔ تمام عرب ممالک مغربی القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے والے عرب فارمولے کی منظوری دیئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی بھرے ہوئے ہیں۔ٹرمپ نے جب امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے والے فیصلے پر عمل درآمد کی ضد پکڑی تو تمام عرب حکومتوں نے اسکی مخالفت کی۔ سب کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ ٹرمپ کو ایسا کرنے سے روک نہیں سکتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ عرب ممالک قطر اور ایران کے اس جال میں بھی نہیں پھنسنا چاہتے جسے وہ خطے کے عوام کو مشتعل کرنے کیلئے پھیلا رہے ہیں۔ ایران اور قطر یہ چکر فلسطین اور القدس کی خاطر نہیں بلکہ علاقائی سیاسی کھیل کے چکر میں چلا رہے ہیں۔ 1995ءمیں شیخ حمد بن خلیفہ نے اپنے والد کے خلاف بغاوت کی تھی۔ تب سے قطر اشتعال انگیزی اورچکر بازی کا سلسلہ شرو ع کئے ہوئے ہے۔ شیخ حمد آج بھی پس پردہ قطر کے حکمراں ہیں۔ ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ امریکہ قطر میں موجود اپنے اڈے سے عراق اور افغانستان میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر بمباری کرتا رہا ہے جبکہ اسی وقت قطری میڈیا امریکی کفار کے خلاف جہاد کے نعرے بلند کرتا رہا ہے۔ قطر سیاسی نفاق اور جعلسازی کی اس پالیسی پر آج تک قائم ہے۔ قطر ہی نے فائر اینڈ ویوری نامی کتاب کا ترجمہ انتہائی برق رفتاری سے عربی میں کراکر سوشل میڈیا پر پھیلایا ہے۔ قطری ایڈیشن دیکھنے سے پتہ چلا کہ اس نے 260صفحات کی کتاب کو 120صفحات میںتبدیل کردیا ہے۔
قطری اور الاخوان سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ چینلز پرجعلی خود ساختہ معلومات کا انبار لگائے ہوئے ہیں۔ مصر کا موقف سمجھنا مشکل نہیں۔ مصر ذمہ دار ملک ہے۔ وہ کوئی بھی اقدام سوچے سمجھے بغیر نہیں کرسکتا۔ وہ بیک وقت متضاد پالیسیاں نہیں اختیار کرسکتا۔ قطر کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں امریکہ کی حمایت ، دوسری جانب طالبان کی سرپرستی، تیسری جانب الاخوان کی فنڈنگ سب کچھ کرسکتا ہے۔ مصر کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اگر نیویارک ٹائمز اپنی رپورٹوں کے ذرائع کے طور پر سچی بات یہ کہہ دے کہ اسے جو کچھ معلوم ہوا ہے قطر کے ذریعے پتہ چلا ہے تو لوگ خود ہی سمجھ لیں گے کہ کہانی میں کتنا دم ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭