12جنوری 2018ء جمعہ کو شائع ہونیوالےالبلاد اخبارکے اداریہ کا ترجمہ نذر قارئین ہے
یمنی عوام سے سعودی عرب کا تعلق اخوت ، مذہب ، ہمسائیگی اور مشترکہ انجام پر مبنی ہے۔ یمن کی آئینی حکومت کی جانب سے حوثی باغیوں کے خلاف مدد کی اپیل پر لبیک اسی تناظر میں کہا گیا۔ سعودی عرب نے پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ یمنی بھائیوں میں امید کی بحالی کیلئے عرب اتحاد قائم کیا۔
حوثیوں کو جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے اور بین الاقوامی قراردادوں اور دستاویزوں کے مطابق قیام امن کے بہت سارے مواقع مہیا کئے گئے مگر انہوں نے برادر ملک یمن میں خون کے دریابہانے، یمنیوں پر جبرو تشدد ، یمنی بچوں کو آگ کے دوزخ میں دھکیلنے کیلئے سرکشی کی انتہا کردی۔ حوثیوں نے اپنے سابق حلیف علی عبداللہ صالح کو ہلاک کرنے میں بھی ادنیٰ دریغ سے کام نہیں لیا جب انہوں نے فرقہ وارادنہ دہشتگردی کے حوثیوں کے منصوبے کو مسترد کرکے یمن کو عرب دنیا میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔
اب جبکہ حوثیوں کو عرب اتحادیوں اور یمن کی قومی فوج کے ہاتھوں ہر محاذ پر درد انگیز ضربیں لگ رہی ہیں ، یمن کے لوگ ان سے دامن بچانے لگے ہیں ، اب جبکہ حوثیوں کو بدی کی طاقت ایران کی بدولت یمن پر اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے حوالے سے مایوسی کے گھنے بادل نظر آنے لگے ہیں ۔ اب جبکہ مملکت پر ایران کے تیار کردہ بیلسٹک میزائل حملوں اور شہریوں کو ہدف بنانے پر پوری دنیا کی تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب جبکہ یہ راز بھی طشت از بام ہوچکا ہے کہ انسانی امدادی اسکیموں کے مخالف حوثی ہی ہیں اور یہ حقیقت بھی سامنے آگئی ہے کہ حوثی عالمی حہاز رانی کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔ ایسے عالم میں صورتحال بڑی عجیب و غریب بن گئی ہے۔
عرب اتحاداور یمن کی سرکاری فوج طے کرچکی ہے کہ جب تک حوثی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تب تک انہیں جارحیت سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رہے گی اور یمن کو زہریلے عناصر سے پاک کرکے ہی دم لیا جائیگا۔