رونے دھونے کے دلدادہ کیوں؟
جمعرات 11 جنوری 2018 3:00
عوض العمری ۔ الوطن
مجھے نہیں پتہ کہ آخر عرب اقوام چیخ و پکار اور رونے دھونے کے دلدادہ کیوں ہیں؟ سال کے سارے موسموں میں غیض و غضب میں مبتلا رہتے ہیں۔ نہیں پتہ ایسا کیوں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ اقوام عالم مختلف قسم کی عادتوں اور طور طریقوں کے لئے معروف ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو قوم جس علاقے میں بستی ہے اسکے مزاج او رکھانے پینے میں گہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ انسان نباتات اور حیوانات سے متاثر ہوتا ہے جبکہ نباتات اور حیوانات انسان کا اثر اس طرح قبول نہیں کرتے۔ قدیم زمانے کے فلاسفہ کو اس بات کا احساس اور ادراک ہوگیا تھا ۔ انہوں نے اسکا اظہار بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”اقوام کی طبیعتیں“ کے مقدمے میں اس منظر نامے کی تصویر کشی کی ہے۔ ارسطو نے اپنی کتاب ”السیاسہ“ اور بقراط نے ”القوانین“ جبکہ دیگر بہت سارے دانشوروں نے اپنی اپنی تصنیفات میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔
اکثر مصنفین نے واضح کیا ہے کہ ماحول سے انسان کا مزاج متاثر ہوتا ہے۔ ماحول انسان کے عضلات اور اعصاب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سرد علاقوں میں رہنے والوں کا مزاج گرم علاقوں کے باشندوں کے مزاج سے مختلف ہوتا ہے۔ صحراءمیں بسنے والے مشکل پسند ہوتے ہیں۔ یہاں ماحول کے انسانی سلوک اور مزاج پر اثرات کے حوالے سے ایک مشہور قصہ بیان کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ یہ قصہ معروف شاعر علی بن الجہم کا ہے۔ وہ بے آب و گیا صحراءمیں سکونت پذیر تھا۔ عباسی خلیفہ المتوکل کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس نے خلیفہ¿ وقت سے عطیات حاصل کرنے چاہے۔ خلیفہ کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا ۔ اسکے اشعار پر اسکے ماحول کی گہری چھاپ تھی۔ علی الجہم نے 2 اشعار پیش کئے جن کا مفہو م یہ تھا ”آپ مودت کی پاسداری میں کتے کی طرح اور مشکلات کے مقابلے میں بکرے کی طرح ہیں، آپ ایک ڈول جیسے ہیں، کاش کہ ہم بے شمار گناہوں والے بڑے ڈول سے کبھی محروم نہ ہوں“ المتوکل یہ اشعار سن کر سمجھ گیا کہ شاعر نے جو تمثیلیں اور جو زبان استعمال کی ہے وہ اسکے ماحول کی دین ہے۔ عباسی خلیفہ نے اسے دریائے دجلہ کے کنارے ایک گھر عطا کیاجس میں خوبصورت باغ بھی تھا ،پل کے قریب تھا۔ 6ماہ بعد عباسی خلیفہ نے علی الجہم کو دربار میں طلب کرکے قصیدہ پیش کرنے کی ہدایت کی ۔ اس مرتبہ اس نے جو اشعار کہے وہ انتہائی لطیف جذبات و احساسات کے نمائندہ تھے۔ پہلے جیسی سختی نہیں تھی، نرمی اور گداز اشعار کی زبان میں رواں دواں نظرآرہا تھا۔
میں اپنے قارئین سے گزارش کرونگا کہ وہ خود کو مسکراہٹ کاعادی بنائیں۔ لوگوں سے برجستہ گفتگو کریں۔ یقین رکھیں کہ لکڑی کی طرح آپ کی سختی ، آپ کا غیض و غضب اور آپ کی آنکھوں کی سرخی سے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑیگا۔ اب وہ بات بھول جائیے جو چھٹے عشرے کے بزرگ بطور مثال کہا کرتے تھے کہ ”چیخ وپکار کا جواب ، چیخ و پکار سے دو محفوظ رہو گے، یاکہا کرتے تھے کہ اپنے دانت نکالے رکھو سب لوگ تم سے خوف کھائیں گے۔ یہ کہاوتیں اور ان کا دور اب لد چکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭