جس طرح ہمارے پیارے نبی کی پہچان رحمت ہے، اسی طرح امت محمدیؐ کی پہچان بھی رحمت ہونی چاہئے
* * *حافظ محمد ہاشم صدیقی۔جمشید پور، ہند* * *
اسلام میں دعا کی بے پناہ اہمیت ہے۔ قرآن و احادیث میں اس کے احکام واضح طور پر موجود ہیں۔ دعا اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان سب سے مضبوط اور نزدیکی تعلق ہے۔ قرآن مجید میں ہے :میں اپنے بندے سے بہت ہی نزدیک ہوں ،اس کی رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ دعا مانگنے کا حکم بار بار آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :میں دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہوں،جب وہ مجھے پکارے( ا لبقرہ186)۔اور فرماتا ہے:دعا کرو میں تمہاری دعائوں کو قبول کروں گا،یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر(لمومن 60)۔
یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اکثر مفسرین نے عبادت کو دعا سے مراد لی ہے۔ حدیث پاک میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے(اَلدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ اور اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ)(مسند احمد،مشکٰوۃ الدعوات) ۔
آیت ِ مذکور میں ایسی رہنمائی دی جارہی ہے جسے اختیار کرکے دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوسکے۔دوسرے مذاہب میں بھی دعا کی ترغیب دی گئی ہے اور دعا ئیہ الفاظ بھی ان کی مذہبی کتابوں میں موجود ہیںلیکن مذہب اسلام کے بنیادی عقیدۂ توحید سے ان کا دور دور تک تعلق نہیں ۔ اسلام میں عقیدۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے اللہ رب العزت سے ہی اپنی بے بسی اور اپنی ضرورتوں کی التجا کا حکم ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کی تعلیم دی اور خود عمل کرکے دکھایا ۔سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جو تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دے اور تمہارے رزق کو وسیع کردے۔رات دن اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہوکہ دعا سلاح( ہتھیار) مومن ہے۔
دعا سبھی مانگتے ہیں ، سب اپنے لئے ، اپنوں کے لئے مانگتے ہیں۔ ایسا حکم بھی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ بتایا اور فرمایا(مفہوم) :پہلے اپنے نفس کے لئے ،پھر اپنوں کے لئے، پھر دوسروں کے لئے دعا مانگو۔‘‘
دنیا میں جتنے جلیل القدر انبیائے کرام گزرے ہیں، انہوں نے عقیدۂ توحید کی دعوت دی اور اللہ کے دین کی طرف انسانوں کو بلایا ۔ جن قوموں نے اپنے نبی کو جھٹلایا ،ان کو ستایا اور ان کی دعوت کو ٹھکرایا تو ان کے رسولوں نے ان کے لئے بد دعا کی اور اللہ نے بد دعا قبول فرماتے ہوئے ان قوموں کو برباد اور ہلاک کر دیا۔ حضرت نوح ؑکی قوم نے جب ان کو جھٹلایا اور ستایا تو حضرت نوحؑ نے اس طرح بد دعا کی: ’’(نوح نے کہا) اے میرے رب! ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ ، اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر و نا شکرا ہی ہوگا۔ ‘‘( نوح27,26)۔اسی طرح حضرت لوطؑ اور حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کی گمراہی اور ڈھٹائی پر بد دعا کی اور وہ قومیں ہلاک ہوئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کے خلاف جو بددعا کی اس کا بیان کلامِ الٰہی میں اس طرح موجود ہے:موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی: اے ہمارے رب !تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں زینت اور مال و دولت سے نوازرکھا ہے ، اے رب! ان کے مال برباد کر دے اور ان کے دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں( یونس88) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بددعا قبول فرمائی کہ ان کے دلوں میں ایمان قبول کرنے کی گنجائش ہی نہ رہی، جسے مہرلگ جانا کہا جاتاہے۔ معلوم ہوا دل کی سختی بھی بڑا عذاب ہے۔ اس سے اللہ بچائے ۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ آنکھ سے آنسو نہ بہے ، دل اچھوں کی طرف مائل نہ ہو چنانچہ جیسا حضرت موسیٰ نے دعا فرمائی ایسا ہی ہواکہ فرعونیوں کے درہم و دینار ، پھل اور کھانے کی چیزیں پتھر ہوگئیں اور انہیں ایمان کی توفیق نہ ملی۔ڈوبتے وقت ایمان لائے، قبول نہ ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی ہارون علیہ السلام نے آمین کہا تھا۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے لئے دعا مانگی، ان کی ہدایت کی دعا مانگی ۔ یہ بڑے دل و جگر کاکام ہے ۔ زیادہ تر لوگ دشمنوں کے لئے بد دعا ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف رحمت اللعالمین سے کرایا۔یعنی سارے جہان کے لئے رحمت۔ رب فرمارہا ہے: وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃَ الِّلْعَالَمِیْن ۔(اے نبیؐ! )ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے(الانبیاء107)۔نبی اپنے معاشرے کے لئے رحمت ہوتے ہیں۔جب قوم رحمت قبول نہیں کرتی توہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے مگر اللہ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی شان دوسرے انبیا سے الگ ہے۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جھٹلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی اذیت دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر نبی رحمت نے ان کے لئے بد دعا نہ کی، ہدایت کی دعا کی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مشرکوںپر بد دعاکیجئے ۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں ،میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں(مسلم ، کتاب البروالصلہ والادب) ۔
احادیث میں دشمنوں کے لئے دعا کرنے کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے جتنی تکلیف پہنچائی ، جتنی مخالفت کی سیرت کی کتابوں میں موجودہے۔طائف کے ہر قابلِ ذکر شخص سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کی اور انہیں اللہ کی وحدانیت اور دین اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ کسی نے شائستگی سے جواب دینے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ انتہائی ڈھٹائی سے دعوتِ توحید کو مسترد کر دیااور اس سے بھی زیادہ رذالت کاانہوں نے یوں مظاہرہ کیا۔کہنے لگے :ہمارے شہر سے نکل جاؤ ۔ہمیں اندیشہ ہے کہ تم ہمارے نوجوانوں کو اپنی باتوں سے بگاڑ دوگے۔انہوں نے شہر کے اوباش نوجوانوں کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگادیا ۔وہ جلوس کی شکل میں اکٹھے ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ آوازے کستے ، پھبتیاں اڑاتے، دشنام طرازی (گالی گلوج) کرتے، اپنے بتوں کے نعرے لگاتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر برسانا شروع کردیا۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت قدموں کو اپنے پتھروں کا نشانہ بناتے۔ چلتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو پاؤں زمین پررکھتے ٹھک سے پتھر اس پر آلگتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اسے اٹھاتے اور دوسرا پاؤں زمین پر رکھتے تو وہ پاؤں بھی پتھروں کی زد میںآجاتا۔ یہاں تک کہ اُن ظالموں کی سنگ باری سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم زخمی ہوگئے اور خون بہنا شروع ہوگیا۔ ان کی سنگ باری جب شدت اختیار کر لیتی تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم درد کی شدت سے بیٹھ جاتے ۔وہ ظالم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بازوؤں سے پکڑ تے اور کھڑا کردیتے ۔پھر پتھر برسانا شروع کردیتے اور ساتھ ہی قہقہے لگاتے ۔ سیدنازید بن حارثہؓ بیکسی کے اس عالم میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لئے آڑ بن جاتے۔ کئی پتھران کے سر پر لگے اور خون بہنے لگا۔طائف کے ان بدبخت لوگوں نے اپنے اس معزز و مکرم مہمان صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں سے اس طرح رخصت کیا ۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف شہر کے باہر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ان کے ظالمانہ سلوک سے از حد مغموم تھا۔ سارا جسم زخموں سے بھرا تھا۔ جسم مبارک سے خون بہہ رہا تھا۔ قریب ہی ایک باغ تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے گئے اور انگور کی ایک بیل کے نیچے بیٹھ گئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مناجات اس وقت اپنے رحیم و کریم رب کی بارگاہ میں کی اسے باربار پڑھئے، غور کیجئے ، شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعتوں کا کچھ اندازہ ہوسکے۔ دیکھئے، پڑھئے سیرت کی کتابیں(سیرت ابن کثیر )۔
علامہ ابن کثیر صحیحین کے حوالے سے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کی ہے:آپ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا احد کے دن سے بھی زیادہ تکلیف دہ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری قوم کے ہاتھوں جو تکلیفیں مجھے یوم العقبہ کو پہنچیں وہ زیادہ سخت تھیں۔ یعنی جس روز میں نے بنی ثقیف کے سرداروں عبد یالیل ، سعود اور حبیب وغیرہ کو دعوت دی اور انہوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا وہ بڑا روح فرسا تھا۔اس روز میں سخت غمگین و پریشان تھا۔ زخموں سے خون نکل رہاتھا۔ راستہ میں ایک جگہ بیٹھ گیا ۔ میں نے سر اوپر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ پھر میں نے غور سے دیکھا تو جبرئیل مجھے وہاں دکھائی دیئے۔انھوں نے بلند آواز سے مجھے پکارااور کہا :اللہ تعالیٰ نے وہ گفتگو سن لی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قوم کا سلوک دیکھ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال یعنی پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش پیش کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ حکم دیں تو ابھی کفار کو 2پہاڑوں کے درمیان پیس دوں۔ میں نے کہا: اَرْجُوْ اَنْ یَّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ اَصْلَابِہِمْ مَنْ یَّعْبُدَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ۔’’میں امید کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گی اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گی۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپناواقعہ بیان فرمارہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے ان کو مارمار کر لہولہان کر دیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرے سے خون پوچھتے تھے اور کہتے تھے: اَللّٰہُمَّ اِہْدِ قَوْمِیْ اِنَّہُمْ لَایَعْلَمُوْنْ ۔’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے وہ نادان ہے۔‘‘(بخاری کتاب الانبیاء، باب حدیث المغار)۔
امام محمد یوسف الصالحی رحمہ اللہ سبل الہدیٰ میں امام احمد اور شیخین کے حوالے سے ایک روایت یوں نقل فرماتے ہیں :حضرت عکرمہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے پہاڑوں کے فرشتے!میں صبر کروں گا، شاید ان کی اولاد میں سے کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں جو لا الہ الاللہ پر ایمان لائیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس رحمت اورشفقت کو دیکھ کر ملک الجبال (پہاڑوں کا فرشتہ) یہ کہہ اٹھا :جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رکھا ہے بے شک رؤوف و رحیم ہیں۔
رحمت کی یہ روشن سال انسانی تاریخ میںڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔یہی موقع ہوتا ہے جب نبی بد دعا کرتے ہیں۔ ان کی بددعا قبول ہوتی ہے اور قوم ہلاک و برباد ہوتی ہے۔ نبی رحمت نے بد دعا بھی نہیں کی اورملک الجبال کی ہلاکت کی پیشکش کو ٹھکرادیا اور ہدایت کی دعا کی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمت اللعالمین بناکر مبعوث فرمایا۔
حضرت زبنرہ رضی اللہ عنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی باندی تھیں۔ مسلمان ہوگئیں تو ان کو کافروں نے اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے دعا مانگی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے پھر اُن کی آنکھوں میں روشنی عطا فرمادی تو مشرکین کہنے لگے یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے جادو کا اثر ہے(زرقانی علی المواہب)۔
مدینہ میں انصار کے علاوہ بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔ ان یہودیوں کے3 قبیلے بنو قینقاع، بنو نظیر، قریظہ مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط محلات و قلعے بنا کر رہتے تھے۔ ہجرت سے پہلے یہودیوں اور انصار میں ہمیشہ اختلاف رہتا تھا ۔ چونکہ مدینہ کی آب و ہوا اچھی نہ تھی ، یہاں طرح طرح کی بیماریاںاور وبائیں پھیلتی رہتی تھیں اس لئے کثرت سے لوگ بیمار ہوتے تھے ۔ مہاجرین بھی بیمار ہونے لگے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ شدید لرزہ بخار میں مبتلا ہوکر بیمار پڑ گئے اور بخار کی شدت میں یہ حضرات اپنے وطن مکہ کو یاد کرکے کفار مکہ پر لعنت بھیجتے تھے اور مکہ کی پہاڑیوں اور گھاسوں کے فراق میں اشعار پڑھتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ کر دعا فرمائی کہ یا اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی ایسی محبت ڈال دے جیسی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی آب و ہوا کو صحت بخش بنادے اور مدینہ کے صاع او ر مد ( ناپ تول کے برتنوں) میں خیر و برکت عطا فرما اور مدینہ کے بخار کو حجفہ کی طرف منتقل فرمادے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے مدینہ کے لوگوں کوآرام مل گیا(بخاری،مدارج النبوتہ)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور عفو درگزر کی مثالوںمیں سے یہ ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید بن عاصم یہودی کو جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھااور خیبر کی اُس یہودن کو جس نے زہر آلود بکری کی ران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودی تھی،معاف فرما دیا اور دعا سے نوازا(مدارج النبوتہ) ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کمالِ عفوو درگزر فرمانے والے تھے۔ مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہ لیا۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو برباد کیا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ، اسے معاف کردیا۔
آج مسلمانوں کایہ شیوہ ہوگیاہے کہ جب اسے کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو کہتا ہے (بلکہ کرتاہے) میں اینٹ کاجواب پتھر سے دوں گا۔ افسوس صد افسوس آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ۔ جو اچھے اورنیک کہلاتے ہیںیہاں تک علما(چند کو چھوڑکر)ذرا سی بات پر اپنے قریبی دوستوں ،رشتے داروں کے لئے بد دعا کرنے لگتے اور نقصان پہنچانے کے لئے تعویذ کا استعمال کرنے لگتے ہیں، مگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کھائے جواب میں پتھر نہیں برسائے بلکہ ان کی ہدایت کی دعا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ دنیا نے دیکھ لیاکہ طائف کی اگلی نسل نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمۂ توحیدپڑھ لیا۔کل طائف کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے آج وہ کلمہ پڑھ رہے ہیں۔ اب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہیں۔ یہ کرشمہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت بھری دعاؤں کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت اللعالمین ہونے کا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سراپا رحمت تھی۔ زحمت، تشدد ، انتقام جیسی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر نہ تھیں۔یہی وجہ تھی کہ دشمن بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ ہوجاتا تھا اور آپ کی رحمت بھری شخصیت سے متاثر ضرور ہوتا تھااور آپ کو صادق الامین کے لقب سے پکارتا تھا اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوجاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت اور اس کے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے:
’’ (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چھٹ جاتے، ان کے قصور معاف کردو، ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔‘‘(آل عمران 159)۔
جس طرح ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان رحمت ہے اسی طرح امت محمدیؐ کی پہچان بھی رحمت ہونی چاہئے۔ مسلمان اپنے فیملی کے لئے،اپنے محلہ اور سماج کے لئے اپنے ملک اورانسانوں کے لئے رحمت بننے کی کوشش کریں۔اس وقت ایسے حالات پید اہوگئے ہیں کہ مسلمانوں کو زحمت سمجھا جاتاہے، ان کو ظلم و تشدد سے جوڑا جارہا ہے۔ مسلم نوجوانوں میں صبر وتحمل اور رواداری کا جذبہ کم ہورہا ہے ۔ انہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت کو رول ماڈل ماننا چاہئے،اپنانا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو اپنا کر دار ادا کرنا ہوگا۔ اپنی شخصیت کو رحمت بنانی ہوگی،اپنے کردار سے رحمت کا ثبوت دینا ہوگا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی بجائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت بھری سیرت کو اپنانا ہوگا۔ ہم تمام امتیوں کو اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے حسنِ اخلاق اور عفو ودرگزر کو اختیار کرنا چاہئے۔
دشمنوں کے لئے ہدایت کی
تجھ سے کرتا ہوں التجا یا رب
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین۔