Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استعارے کا حقیقت میں بدل جانا ہے یہ

 
اس نے کہا کہ ”اپنی چیز پر اِترانا تو کوئی آپ سے سیکھے“
شہزاد اعظم۔جدہ
یقین جانئے ، اُس روز سے قبل میںنے زندگی میں لبِ انسانی کے لئے گلاب کی پنکھڑی کا استعارہ سنا تھامگر اُس روز اس کے بالوں میں گندھی گلاب کی کلیاں، اس کے لبوں کی لالی کے سامنے شرمندہ ہو رہی تھیںاور میراذہن ، شعور کو باور کرا رہا تھا کہ استعارے کا حقیقت میں بدل جانا، اسے کہتے ہیں۔وہ یونہی آنکھیں بند کئے،نجانے کتنی دیر دیوار سے لگی خاموش کھڑی رہی، میں بھی چپ سادھے دیکھتا رہا، اچانک وہ سرگوشی کے ا نداز میں گویا ہوئی کہ ایک بات پوچھوں؟ اس کی آواز سن کر ایسا لگا جیسے سکوتِ کائنات ایک جھماکے سے پاش پاش ہو گیا۔ میں نے اوسان مجتمع کر کے کہا ”ہاں ضرور پوچھئے“۔اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہیں؟ میں نے کہا ،سوچ رہا ہوں کہ گلاب اور تم ،دونوں میں کتنے ہی اوصاف مشترک ہیں، معصوم تم ہوتو معصومیت گلاب میں بھی ہے، خوشبو تم ہو تو مہک گلاب میں بھی ہے، نزاکت تم ہو تو نازکی گلاب میں بھی ہے، حسِین تم ہو تو حُسن گلاب میں بھی ہے، نجانے گلاب تمہاری تشبیہ ہے یا تم گلاب کا استعارہ ہو۔ میں ابھی اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ اس کے زباں سے دوحرفی لفظ ”اُف“ ادا ہوا ،یوں لگا جیسے اس کا حصارِ ذات چکنا چورہو گیا۔ وہ تیزی سے کمرے میں چلی گئی اور وہاں سے باورچی خانے جا پہنچی۔ کچھ دیر کے بعد بسکٹ اور چائے ایک ٹرے میں سجاکر لے آئی۔ میں دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ چائے لانے سے پہلے پشواس اور پاجامہ زیب تن کر رکھاتھا اور چائے لے کر آئی تو امیریکن جارجٹ کی عنابی ساڑھی میں ملبوس تھی، بالوں میں اب صرف موتیے کی لڑیاں رہ گئی تھیں، گلاب غائب تھا۔میں نے دریافت کیا کہ یہ تبدیلی کس لئے، جواب ملا کہ آج غزل اپنے شاعر کے ساتھ کسی 3ستارہ ریستوران میں عشائیہ کرنے جائے گی۔ اس لئے ساڑھی پہنی ہے۔اس نے جلدی جلدی چائے حلق سے اتاری اورعبایہ پہن کر آگئی۔ میں نے اس کی آنکھوں میںمچلتی خوشی کو غور سے دیکھاتو کہنے لگی”آپ کیسے مرد ہیں، پردہ دار خواتین کو اتنے بے باک انداز سے دیکھتے ہیں؟میں نے کہا ، جی ہاں!ان آنکھوں کا دیدارمیرے لئے ثواب ہے ، خواہ باک سے ہو یا بے باکی سے ۔اس نے کہا کہ ”اپنی چیز پر اِترانا تو کوئی آپ سے سیکھے۔“
غزل میں ایک بات انتہائی اہم اور منفرد تھی کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں، خیالات اور احساسات کو بھی لفظوں کے قالب میں ڈھال کر محظوظ ہوا کرتی تھی ۔اُس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ہم دونوںچوتھی منزل سے سیڑھیوں کے راستے نیچے آئے ، میں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی، وہ گدی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنی جگہ کربنا کر میرے پیچھے بیٹھ گئی۔ اس کے انداز و اطوار سے ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے وجود پر ہی نہیں بلکہ میری ہر ہر شے پر اسی کی اجارہ داری ہے۔میں نے یہ طمطراق دیکھ کر کہا کہ ”بیگم صاحبہ! کیا حکم ہے آپ کا، کیا فرمانا ہے؟ غزل نے کہا کہ ہوٹل میں عشائیہ تو اک بہانہ ہے، اصل مقصد تو اپنے شاعر کے ساتھ وقت بِتانا ہے۔میں نے کہا کہاں جانا ہے؟ اس نے کہا ”شریکِ سفر سے یہ سوال کرنا درست نہیں، آپ جہاں جائیں گے ، میں آپ کے ساتھ ہوں گی ۔ آپ کی مرضی ہے، جہاں چاہیں،لے چلیں۔
ہم دونوں موٹرسائیکل پر سوار فلیٹوں کی چہار دیواری سے باہر نکلے۔یونیورسٹی روڈ عبور کر کے گلستان جوہرسے نکل کر شاہراہِ فیصل پر پہنچے اور اپنا رخ قائد آباد کی جانب کر لیا۔اس نے میرے دائیں شانے پر ٹھوڑی رکھے رکھے کان میں کہا کہ ایک خوبصورت جملہ ہے جو کسی فلم میں سنا تھا کہ ”تیرا ہاتھ ہاتھ میں ہو اگر تو سفر ہی اصلِ حیات ہے۔“ 
(باقی آئندہ)
 

شیئر: