سعودی عرب ،ہمارا سیاسی اور مذہبی مرکز
جمعرات 18 جنوری 2018 3:00
جیری ماہر ۔ الوطن
لبنان کئی برس سے سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہے۔ لبنان میں اقتدار، طاقت، ہتھیار، قانون اور اتھارٹی کو تھوپنے کے بحران پے درپے چل رہے ہیں۔ ہر ایک اپنے مفادات اور ان طاقتوںکے مفادات کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے جو انہیں لبنان کے باہر سے حرکت دے رہے ہیں۔مثال کے طورپر حزب اللہ کو لے لیجئے جو ایران کے توسیع پسندانہ ایجنڈے کےلئے کام کررہی ہے۔
حزب اللہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ملیشیا میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ نہ صرف یہ کہ لبنان بلکہ شام اور عراق وغیرہ ممالک میں بھی ایرانی مفادات کے لئے سرگرم عمل ہے۔ حزب اللہ ایران کی وظیفہ خوار بنی ہوئی ہے۔ یہ لبنان میں دہشتگردوں کو عسکری تربیت دے رہی ہے۔ شام وعراق میںجنگ میں حصہ لے رہی ہے۔ یمن میں حوثیوں کی تربیت کی ٹریننگ کیلئے اپنے ماہرین بھیج رہی ہے۔ حزب اللہ نے اپنے اطراف لکڑیوں کا انبار جمع کرلیا ہے۔
حزب اللہ کے ایک کارندے کی قیمت 500ڈالر تک محدود ہوگئی ہے۔ لبنان کے ہزاروں باشندوں کو اسرائیل کےساتھ فضول قسم کی لایعنی جنگ میں ہلاک کراچکی ہے۔ عرب ملکوں میں بھی اسی قسم کی سرگرمیوں میں اپنے فرزندوں کو جھونک رہی ہے۔ حزب اللہ اپنے کارندوں کو خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ لڑائیوں کے دلدل میں پھنسائی ہوئی ہے۔ ایران نے 1979ءمیں اسکی داغ بیل ڈالی تھی۔ تب سے اب تک یہ تنظیم ہزاروں عربوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ حزب اللہ کے ہزاروں لوگ ،اسی طرح سے حوثیوں اور الحشد العراقی سمیت نہ جانے کتنے نوجوان موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
حزب اللہ نے اپنی سرگرمیوں کے باعث مختلف فرقوں کے درمیان خلیج بڑھانے کا ہی کام کیا ہے۔ اس نے آج تک فرقوں کو جوڑنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ حزب اللہ کے عوام اور ایران کے ماتحت فرقہ وارانہ ملیشیاﺅں سے منسوب دیگر لوگوں سے ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اپنی تنظیموں کی کرتا دھرتا شخصیات کی تابعداری ترک کرے۔ عربوں کے ساتھ نیا باب شروع کریں۔ جس طرح ایران میں عوام ایرانی قائدین کے خلاف بیداری کی تحریک چلا رہے ہیں، ویسی ہی تحریک مذکورہ تنظیموں اور ملیشیاﺅںکے قائدین کےخلاف چلائیں۔
حزب اللہ کے قائدین اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ترقی یافتہ ممالک بھیج رہے ہیں اور عام کارندوں اور انکی اولاد کو ایران کے فرقہ وارانہ منصوبے کے دوزخ کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ ان سے عربوں اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و انتشار پیدا کرنے کا کام لیا جارہا ہے۔ حزب اللہ نے لبنان کو دہشتگردی، پسماندگی اور ناخواندگی کے سرپرست ملک کی حیثیت سے متعارف کرادیا ہے۔ ایرانی ملا ان سے اپنا ہدف پورا کررہے ہیں۔ یہ لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں مجوسی فارسی شہنشاہیت کے خاتمے پرایران میں متعارف ہونے والے مذہب اسلام سے انتقام لینے کے درپے ہیں۔
حزب اللہ کے لیڈر کہتے ہیں کہ انکا ہدف ا سرائیلی مزاحمت ہے۔میں ان سے پوچھتا ہوں:
کیا ہزاروں شامی شہریوں کا قتل اسرائیل کی مزاحمت ہے؟
کیاشام کے قصبوں، قریوں پر ناجائز قبضہ اسرائیل کی مزاحمت ہے؟
کیامنشیات کا دھندا ، استعمال اور نشہ آور گولیوں کی فیکٹریوں کا قیام اور عرب ممالک کو منشیات کے بھنو رمیں پھنسانا اسرائیل کی مزاحمت ہے؟
کیا سعودی عرب کے خلاف زبان درازی اور اس پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ اسرائیلی مزاحمت ہے؟
کیا ایران سے زعفران ، پھلوںاور پٹرول کی ا سرائیل کو برآمد صہیونی طاقت کی مزاحمت ہے؟
کیا ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیلی ہتھیار حاصل کرکے ایران کو فراہم کرنا اسرائیل کی مزاحمت شمار کیا جائیگا؟
میں ان لوگوں سے معذرت کرنا چاہوں گا کہ جو حزب اللہ کو تحریک مزاحمت قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کے قائدین برسہا برس سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اپنے فرزندوں کے خون کا دھندا کررہے ہیں۔ اپنے سماج میں نفرت ، عداوت اور کینہ کی فصل بو رہے ہیں۔ یہ لوگ یمن، بحرین،شام اور عراق میں ایرانی سازش کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
ایران کے برعکس ارضِ حرمین ہے۔ جو شخص بھی سعودی عرب کے ساتھ ہے ایک طرح سے وہ حقیقی مزاحمت کا حصہ ہے۔ جو شخص ولایت الفقیہ کی تابعداری کررہا ہے وہ تاریکی ، جہالت، پسماندگی اور خونریزی کی غلامی کررہا ہے۔ جو شخص حق کی پیروی کرنا چاہتا ہو اسے سعودی عرب کی صف میں شامل ہونا چاہئے۔ وہی ہمارا سیاسی ، مذہبی ، قبلہ اور مرکز ہے۔اسکا ہدف خطے کے بحرانوں کی گتھی سلجھانا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭