محمد فایع ۔ الوطن
میرے پاس ایک وڈیو کلپ آئی ہے جس میں گھریلو ملازمہ کو سعودی عرب سے وطن واپسی کے موقع پر سعودی اہل خانہ ایئرپورٹ پر الوداع کہہ رہے ہیں۔ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سعودی خاندان کے ایک، ایک فرد نے یکے بعد دیگرے ملازمہ کو جسے ہماری مقامی زبان میں ”شغالہ“ کہا جاتا ہے ،الوداع کہا۔ ملازمہ نے 3 عشروں سے زیادہ عرصہ سعودی خاندان کے ساتھ گزارا۔ وہ گھر کے ایک، ایک فرد کی خدمت کرتی رہی۔ بچوں کی ماں سے لیکر اسکی اولاد تک کی تربیت کا کام اسی خاتون نے انجام دیا۔ اب جبکہ وہ سن رسیدگی کی منزل میں داخل ہوگئی اور وقت نے اسکی کمر کو ٹیڑھا کردیا تو وہ مملکت سے وطن کیلئے رخصت ہوگئی۔ اب وہ خود کسی خدمتگار کی محتاج نظرآتی ہے۔ وڈیو کلپ میں الوداع کہنے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا اظہار زبان سے نہیں بلکہ اشکوں سے کیا جاسکتا ہے۔ پاکیزہ انسانی جذبات دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ سعودی خاندان کے ایک ایک فرد اور ملازمہ کے درمیان تعلق غیر معمولی جذباتی تھا۔ ہر ایک آبدیدہ تھا۔ ہر ایک کو اس کی جدائی کا دکھ تھا۔ اس منظر سے اس امر کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ہر ملاقات کے بعد جدائی اور ہر جدائی کے بعد ملاقات انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ دنیا مسافروں کی پے درپے منزلوںکے سوا کچھ نہیں۔ یہاں کوئی سفر کیلئے روانہ ہوتا ہے۔ کوئی مسافر کو الوداع کہتا ہے ۔ یہی زندگی کا معمول ہے۔ ہم لوگ ہر روز کسی کی ملاقات سے خوش ہوتے ہیںاور کسی کی جدائی پر غمزدہ ہوتے ہیں۔ سعودی خاندان اور ملازمہ کے درمیان جدائی کی زبان آنکھوں سے آنسوﺅں کی صورت میں نظر آرہی تھی تو دوسری جانب اس ملازمہ کے ا ہل خانہ اپنے وطن میں اسکے خیر مقدم کیلئے بے تاب تھے۔ وہ مملکت سے اسکی رخصتی کو اپنے لئے خوشی اور شادمانی کا باعث مان رہے تھے۔ خوشی اور غمی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم لوگ خوشی آتی ہے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور غمی آتی ہے تو چیخنے چلانے لگتے ہیں۔
ایئرپورٹ پر ملازمہ کو رخصت کرنے والے منظر کے تناظر میں کئی سوال میر ے ذہن میں آئے۔ میں نے خود سے پوچھا کہ آخر ایک ملازمہ کو رخصت کرنے کیلئے فیملی کے تمام افراد کیوں ایئرپور ٹ پہنچے؟ الوداع کہتے وقت انکی آنکھوں سے آنسو کیوں چھلک پڑے۔ میری سمجھ میں اسکا ایک ہی جواب آتا ہے اور وہ یہ کہ غیر ملکی ملازمہ نے سعودی خاندان کے ایک، ایک فرد کا دل اپنے حسنِ عمل سے جیت لیا تھا۔ اس نے لگ بھگ اپنی زندگی کا نصف حصہ سعودی خاندان کے افراد کیساتھ گزار دیا تھا۔ اگر اس کا رویہ ، اسکا کردار اچھا نہ ہوتا تو سعودی خاندان کے لوگ اسے اتنے عرصے تک اپنے ہمراہ نہ رکھتے۔ اسی طرح اگر سعودی خاندان کے لوگوں کے اخلاق اس کے تئیں خوشگوار نہ ہوتے تو وہ بھی انہیں برداشت کرنے کیلئے اتنے عرصے تک مملکت میں قیام پذیر نہ رہتی۔
یہ بات واقعی توجہ طلب ہے کہ غیر ملکی ملازمہ جسے یقین تھاکہ اسکے اپنے اسکے دیدار کیلئے بے چین ہیں اور مملکت سے رخصت ہونے کے بعد وہ اپنے خاندان کے ایک، ایک فرد سے گلے ملے گی، اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر انکے دکھ سکھ میں شریک ہوگی۔ اس یقین کے باوجود وہ سعودی خاندان سے الوداعی ملاقات کے وقت اشک بار تھی۔ یہ سعودی خاندان اور غیر ملکی ملازمہ کے درمیان تعلقات کی پاکیزگی اور معاملات کی راستی کی روشن مثال ہے۔
اس الوداعی منظر میں ہمارے لئے بڑے اسباق ہیں ، بڑی عبرتیں ہیں۔ میری آرزو ہے کہ کاش میری طرح دیگر لوگ بھی اس منظرنامے کی گہرائی میں جاکر خود کو ٹٹولنے کی کوشش کریں۔ یہ الوداعی منظر حسنِ سلوک ، حسن اخلاق، حسن کارکردگی او رزندگی کی پگڈنڈیوں پر انسانیت نواز سلوک و جذبات کا ترجمان ہے۔کاش کہ ہم پیغمبر اعظم و آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس درس سے فائدہ اٹھائیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ تم لوگ کسی کو اپنی دولت سے نہیں بلکہ حسن اخلاق ، فراخدلی اور کشادہ مزاجی سے جیت سکتے ہیں۔ میں غیر ملکی خاتون کےلئے لفظ ”شغالہ“ لکھنا نہیں چاہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ میں اسے گھریلو ناظمہ یا گھریلو کارکن کے نام سے یاد کرو ںمگر میرے پاس اس کی حقیقت کو اجاگر کرنے کیلئے رائج الوقت لفظ شغالہ سے زیادہ مناسب اور کوئی لفظ نہیں تھا۔ پیشہ کوئی بھی ہو اچھا ہوتا ہے۔ کوئی بھی پیشہ کمتر نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ دنیا بھر سے سعودی عرب آنے والے رزق حلال کے چکر میں ہمارے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ وہ اپناوطن تفریح کیلئے نہیں چھوڑتے۔ ہمارا دین ہمیں نرمی، رحمدلی ، حسن معاشرت، حسنِ سلوک اور اپنے ماتحتوں کی دلگیری کی تعلیم دیتا ہے۔ اچھے اور برے کا معیار اسلام میں خدا ترسی سے آراستگی اور خدا ترسی سے لاتعلقی کا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭