Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیرت طیبہ ، ضلال مبین سے نور مبین کا سفر

قرآن کریم نے امت کو خیر امت قراردیا ہے جو لوگوں کیلئے نکالی گئی ہے،اس امت کے عوام وخواص جہاں پر ہوں وہ  خیر امت ہیں

* * * *

* * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔مکہ مکرمہ* * *
 آج سے تقریبا ً 3 سال قبل موسم گرما میں سعودی وزارت شؤون اسلامیہ کے یورپ  اور  برطانیہ  کے تقریباً60 مندوب  داعی اہل علم خطباء اور مبلغین کو مجھے  دین کے نام سے اٹھنے والے فتن پر تربیت کا موقع ملا۔چونکہ ان کا پروگرام ہفتہ اور اتوار کا تھا،تو میرا بیٹا محمد سلمہ اللہ،  ان دنوں وہیں لندن میں مکتب الدعوہ میں کام کرتا تھا تو میں نے اسے کہاکہ میں 3دن کیلئے آرہا ہوں ، جمعہ فلاں مقام پر میرا طے کردیں۔انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ مکتب الدعوہ نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ آپ جمعہ بھی ہمارے زیر انتظام قائم شدہ اسلامک سینٹر، ریجنٹ پارک  میں ہی پڑھائیں ۔
    میں جمعہ کو ہی صبح صبح پہنچا تھا تو میں نے مکتب الدعوہ سے اپنے لئے خطبہ جمعہ کا موضوع  دریافت کیاکہ کس موضوع پر مجھے بات کرنی ہے؟کیونکہ ان کا پروگرام تھا تو ان سے یہ معلوم کرنا ضروری تھاکہ انہوں نے کس موضوع پر گفتگو کیلئے لوگوں کو جمع کیا ہے یا وہ کیا ارادہ رکھتے ہیں؟ اس میں ہماری بھی سہولت  رہتی ہے اور ان کیلئے بھی تاکہ بات متفقہ ماحول میں کی جاسکے۔اس طرح بات کرنے ، سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی اور سہولت رہتی ہے اور خطیب اور سامعین کے درمیان افہام وتفہیم کا سلسلہ قائم رہتاہے۔میں نے اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر سے  ایک موضوع پوچھا تو انہوں نے اپنی رائے سے ایک موضوع بتادیا ۔
    ریجنٹ پارک کی مسجد  یورپ کے لوگوں کیلئے  ایک بہت بڑی جامع مسجد شمار ہوتی ہے اور اسے ایک مرجعیت حاصل ہے ۔اس مرکز کے لندن میں ہونے کی وجہ سے جب امت کے خواص لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسی مسجد میں نماز جمعہ اداکریں ۔خطبہ جمعہ کیلئے منبر پرچڑھنے سے قبل مسجد کے خطیب سے پوچھا کہ آپ کی کیا رائے ہے کہ میں کس موضوع پر آج بات کروں ؟ تو  انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ سیرت مصطفی( علیہ الصلاۃ والسلام )  اور سیرت النبی( علیہ الصلاۃ والسلام ) پر بات کریں تو بہتر ہوگا۔
    میں جب منبر کی چند سیڑھیاں چڑھ کر منبر پر کھڑا ہوا  تو اللہ تعالیٰ نے  میرے دل میں جو بات ڈا ل دی ، اس کا اردو مفہوم یہاں بیان کرناچاہتاہوں۔ اس کا حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی عمومی سیرت مطہرہ سے تعلق ہے، جس میں ہمارے لئے کئی عبرت کے نمونہ جات ہیں۔
    میں نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کیا کہ آج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لندنی سیرت کے متعلق عرض  کروں گا۔
    میرا یہ عنوان چونکہ ذرا مختلف تھا، تو میں نے لوگوں کی نظروں میں حیرانگی اورتجسس کو محسوس کیا ۔
    تومیں نے اپنی بات کا آغاز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر نازل شدہ پہلی وحی اور اس کے اثرات سے کیا۔ غار حراء میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور اس کے بعد آپ  علیہ الصلاۃ والسلام  کی جو کیفیت ہوئی، اُسے امام بخاری نے کتاب’’ بدء الوحی ‘‘میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔اس حدیث میں ہم  مسلمانوں کیلئے  عبرت کے کئی پہلو ہیں ۔
    اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمادیاکہ : ہم آپ( علیہ الصلاۃ والسلام ) پر قول ثقیل نازل کریں گے ۔
    قرآن حکیم کلام اللہ ہے اور یقینا اللہ کا کلام مخلوق نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کی مخلوق ہیں ۔ انسان ہیں ، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی :
     اقرأ باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقرا وربک الاکرم، الذی علم بالقلم(العلق4-1)۔
    ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم!)اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھوجس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا،پڑھواور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ،جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔‘‘
    اما م بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی  کے  یہ  اثرات تھے کہ  (ترجف بوادرہ) انسان  جب کسی ثقیل شے کا تحمل کرتا ہے تو اس صورت  حال  میں انسان کے جسم میں کپکپی طاری ہوتی ہے ۔ جسم کے وہ اعضاء جو سامنے دیکھنے والے کو نظر آتے ہیں، ان میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے  ۔اس سے یہ واضح محسوس ہوتاہے کہ یہ شخص مرعوب ہے ، یہ حالت اس کی کسی خاص کیفیت میں سے ہے ۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب یہ کیفیت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حراء سے نیچے اترے اور  سیدھے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔
    میں نے  اپنے خطبہ جمعہ میں ہزاروں سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اس حصے سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ جب بھی آپ کو کوئی پریشانی ہو تو آپ اس کا ذکر اپنے گھروالوں سے کریں اور آپ اپنی بیویوں کے پاس جائیں۔’’اپنی بیویوں کے پاس جائیں ‘‘ کے جملہ  میں سامعین پر خاص اثر تھا ۔
    اس کے بعد میں نے یہ عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہابہت ہی حکیم خاتون تھیں ۔اللہ نے  انہیں بہت دانائی عطافرمائی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیفیت میں جب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو فرمایا:
    یا خدیجۃ ! خشیت علی نفسی۔
    ’’ اے خدیجہ مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا ۔‘‘
    اس موقع پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی اور تسلی کیلئے جو فرمایا ، وہ ملاحظہ فرمائیں ۔وہ کیا فرماتی ہیں ؟:
     کلا واللہ  لا یخذیک اللہ ابدا۔’’ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کہ باری تعالیٰ آپ کو بے یارومددگارچھوڑیں۔‘‘
   غورکریں کہ ام المؤمنین ؓکی حکمت ودانائی میں اُس وقت وحی متلو کا سلسلہ قرآن کریم کی شکل میں سامنے نہیں تھا۔ نہ ہی وحی غیر متلو احادیث نبویہ کی شکل میں تھامگر حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سیرت طاہرہ وطیبہ سامنے تھی، جسے میں نے لندنی سیرت اس لئے کہاکہ مکہ مکرمہ جو اس وقت کفر اور شرک کا گڑھ تھا، او ر وہ ضلال مبین کا مظہر تھا۔اللہ  تعالیٰ اس ماحول کا ذکر قرآن کریم میں یوں فرماتاہے:
     ’’اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا  ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا،جو ان کو اللہ تعالیٰ  کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک کرتا اور اللہ کی کتاب اور دانائی سکھاتاہے ، اور اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔‘‘(آل عمران164)۔
    میں نے کہاکہ آپ جس ماحول میں رہ رہے ہیں ،اس ماحول کی تاریکی کی وجہ سے نہ گھبرائیں، آپ  یہ بھی تو  سوچیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے نور کو اور حق  مبین کی روشنی کو وہاںپیش کیا جہاں پر ماحول یہ تھا کہ اللہ کا وہ گھر جس کے بارے میں اس کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے مقرر کیا گیا تھا ،وہی ہے جو مکہ میں ہے بابرکت اور جہاں کیلئے موجب ہدایت ہے،اس گھر کو بت کدہ بنایا گیا تھا ۔‘‘(آل عمران96)۔
    میں نے کہاکہ آپ کے اس لندنی ماحول میں  مساجد ہیں ، یا دنیا کے کسی بھی علاقے میں آپ چلے جائیں جہاں پر عقلاء رہتے ہوں ،آپ کو وہاں کی مساجد میں کہیں بھی بت نظر نہیں آئیں گے مگر بیت اللہ جو ام المساجد ہے ،دنیا کی تمام مساجد  کا اس کی طرف رخ ہے اور یہ تمام مساجد اس کی بیٹیاں ہیں ‘ اس کے اندر 360بت رکھے ہوئے تھے ،تو اس ماحول میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طاہرہ کیسی تھی؟
    حضرت ام المؤمنین خدیجۃ الکبری  ؓآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سیرت کو بیان کرتی ہیں ۔ام المؤمنین  ہی کے الفاظ میںامام بخاری نے یہ نقل فرمایا ہے :
     «                    انک لتصل الرحم۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی فرماتے ہیں۔‘‘
    اللہ تعالیٰ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے یارومددگار نہ چھوڑے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہ رحمی فرماتے ہیں۔
     میں نے اس حدیث کی شرح میں یہ بھی گزارش کی کہ آپ غور کریں کہ اُس وقت مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے رشتے دار تھے ، ان میں سے موحد کوئی بھی نہ تھا ، تمام اہل شرک  ہی تھے ،وہ توحید کے نام سے واقف نہ تھے۔
    تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کیا ہے؟وہ  یہ ہے کہ ہم اپنے رشتے داروں کے ساتھ بلا مذہب ودین اور بلا کسی فرق وتمیز کے ان کے ساتھ صلہ رحمی کا سلوک کریں ۔
    کتنے افسوس کی بات ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان  مشرکین مکہ جن میں سے کوئی بھی موحد نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے رشتوں کو جوڑنے والے ہوں  اور ہم آج  اللہ کی مساجد میں بیٹھ کر ، دینی اداروں میں بیٹھ کر یا اپنے ماحول اور گھروں میں، اپنے دفاتر اور مکاتب میں بیٹھ کر یہ کوشش کریں کہ لوگوں کے رشتے ٹوٹیں ۔
    دیکھیں  حضرت ام المؤمنین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیر ت طیبہ سے کیسے استدلال کیا اور کس قدر مضبوط استدلال تھا کہ جو شخص انسانی رشتوں کو جوڑنے والا ہے، اللہ تعالیٰ اسے  بے یارومددگار نہیں رہنے دیتے اور نہ اسے ضائع کرتے ہیں ۔
    حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے یہ پہلی خوبی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی کہ وہ صلہ رحمی فرماتے ہیں اور رشتوں کو جوڑتے ہیں ۔
    اس کے بعد ام المؤمنین ؓنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف بھی بیان  فرمایا کہ:
    «وتحمل الکل۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لوگوں کا بوجھ اٹھاتے  ہیں ۔‘‘
    جبکہ ہمارا حال کسی کے ثقل اور بوجھ کودیکھ کر کیسا ہوتاہے ؟ ہم خوب جانتے ہیں اپنی اندرونی کیفیت کو اور اپنی سیرت کو بھی۔
     اس کے بعد ام المؤمنینؓ نے یہ فرمایا کہ:
    «وتکسب المعدوم۔’’آپ تو نادار لوگوں کوکماکر دیتے ہیں ۔‘‘
    اب جس ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  رہ رہے تھے ،وہ ماحول کیساتھا؟لوگ کفر وشرک کے اتہاہ اندھیروں میں زندگی گزارہے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس سیرت سے ہمیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ کفر وشرک کے ماحول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن ناداروں کی مدد کرتے تھے یقینا وہ موحد نہیں تھے مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ نادار انسان کسی مذہب وملت کا ہو ، ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیئے اور اس کو کماکر دینا اور اس کی ضرورت کیلئے تگ ودو کرنا ،یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
    میں نے واضح طورپر کہاکہ اگر آپ اپنے اس لندنی ماحول میں سیرت نبویؐ کے اس پہلو پر عمل کریں گے تو پھر کیا ہوگا؟اس کو آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ لوگوں کے محبوب ہوں گے اور وہ آپ سے قریب ہوں گے ۔
    اسکے بعد  ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک اور وصف کا بیان اس طرح فرمایا کہ :
    « وتقری الضیف ۔’’آپ مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں ۔‘‘
    آپ دیکھیں کہ مکہ مکرمہ جہاں اللہ کا گھر ہے ، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد ہے، وہاں پر اسی وقت  باہر سے آنے والے لوگ کیسے موحد ہوسکتے تھے؟ لازمی بات  ہے کہ وہ سب اپنے آباؤ واجدد کے دین پر تھے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی اجنبی اور کسی غریب الوطن  شخص کو یہ کہہ کر کھانا  نہیںکھلاتے تھے کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انسان جو غریب الوطن ہے  تو بطور انسان اس کی خدمت ہمارا فرض ہے ۔یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس باب میں سنت مبارکہ ہے۔
     میں نے یہ بھی عرض کیا کہ جب  معاشروں میں نبوی سیرت کا دینی ماحول قائم ہوجاتاہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی دعوت کا عمل قائم ہوجاتاہے ،تو آپ کے متبعین میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت  نمایاں طورپر ابھرجاتی ہے، پھر لوگ اپنے مہمانوں کو اپنے ہاں مہمان بناتے ہیں، انہیں کھانے کیلئے ہوٹلوں میں نہیں جانے دیتے ، خود وہ ان کی مہمانی کرتے ہیں ۔یہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس باب میں سنت ہے ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اگلی صفت جو ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ  ؓ نے بیان فرمائی وہ یہ کہ:
     «وتعین علی نوائب الحق۔ ’’کسی جگہ اگر کوئی ناگہانی آفت اترتی ہے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   مدد کیلئے پہنچتے تھے۔‘‘
     دیکھیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سیرت کیاہے؟ یقینا زندگی کے ہر موقف پر اسے اختیار کرنے والے  لوگوں کے محبوب بن جاتے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی محبوب ہوتے ہیں ۔ کسی قوم پر بھی جب کوئی ناگہانی آفت آتی ۔سیلاب، بارشیں آگ وغیرہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں سب سے پہلے پہنچتے تھے۔
     سیرتِ مطہرہ کے یہ نمایاں اور روشن پہلو جنہیں سامنے رکھ کر ام المؤمنینؓ  نے اپنے زوجِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی، تو بیویوں کا طریق تسلی اپنے خاوندوں کیلئے یونہی ہونا چاہئے کہ وہ انہیں ہمت دلائیں ۔
    لندنی سیرت سے میری مراد یہ تھی کہ کفر کے ماحول میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو  سیرت ان انسانوں کے ساتھ اختیار فرمائی ، اگر آج مسلمان دیارِ کفر میں اسے اختیار کریں تو ان کی سیرت ان کی دعوت کیلئے کس قدر مددگار ثابت ہوگی۔
    غور کریں کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنے معاشرے کو کیسی طاہر ومطہر سیرت پیش کی ۔پھر جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نبوت کا ا علان کیاتو لوگوں کو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہاکہ اے لوگو ! میں تمہارے اندر اپنی عمر گزارچکا ہوں ۔40 سال تک میں  آپ کے درمیان رہا ہوں ، اورکیسے؟ جیساکہ  ام  المؤمینن حضرت خدیجۃ  الکبری رضی اللہ عنہا نے نقل فرمایا ہے ۔
    تأمل کیجئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسنِ معاملہ، ان لوگوں کیساتھ تھا جو مسلمان تھے  نہ موحد تھے نہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی مذکورہ سیرت مطہرہ ہر داعی کیلئے خصوصاً اور ہر امتی کیلئے عموماً وہ اسوۂ حسنہ ہے جسے اختیار کرنے سے یہی سیرت بذات خود دعوت پر حجت ثابت ہوگی  ۔وہ دعوت کی تقویت کا ذریعہ بنے گی ۔وہ دعوت کی مقبولیت کی بذات خود کفیل ہوگی۔
    قرآن کریم نے ہماری امت محمدیہ کو خیر امت قراردیا ہے جو لوگوں کیلئے نکالی گئی ہے ۔اس امت کے عوام وخواص جہاں پر ہوں وہ  خیر امت ہیں۔اگر ہمارے عوام، ہمارے خطیب ، ہمارے مبلغ ، ہمارے داعی اپنے اپنے معاشروں میں صلہ رحمی ، بوجھل کا بوجھ اٹھانے والے ، ناداروں کی امداد کرنیوالے، غریب الوطن کی مہمانی کرنے والے ، آفت زدوں کی خدمت کرنیوالے ہوں گے تو ایک طرف وہ سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہوںگے تو دوسری جانب دعوتِ دینی میں وفاشعار اور مخلص ثابت ہوںگے، جن کی دعوت کی قوی تاثیر ہوگی۔
    انسانی معاشرے صالح اور نافع افراد کی بات کو محبت سے سنتے ہیں ۔اور ان کی دعوت کو بخوشی قبول کرتے ہیں ۔
    حق تعالیٰ شانہ ہمیں سیرت کے ان پہلوؤں کی عملی زندگی میں اپنانے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین۔
 

شیئر: