Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآنِ حکیم کے معانی کا ترجمہ ، اصول و ضوابط کیا ہیں؟

 اگر لوگوں کی عمومی زبان، علوم و فنون کی زبان سے مختلف ہو تو یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے علوم کا عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ کیا جائے
* * *مفتی عبدالخالق آزاد۔لاہور* * *
اسلام کی تعلیمات میں قرآنِ حکیم کے فہم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو درست تناظر میں سمجھنا ہی دراصل دینی تعلیمات کی بنیاد ہے اس لئے ہر دور کے علمائے حق نے اپنے عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی تعلیمات کے فہم کو عام انسانوں تک منتقل کرنے کے لئے بڑی کوشش فرمائی ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے عصری تقاضوں کو سمجھا اور پھر اسی زبان، لہجے اور انداز و اُسلوب میں قرآنی تعلیمات کا فہم و شعور پیدا کیا جس سے اس دور کی انسانیت کو درپیش مسائل کا حل دریافت ہوا اور عام انسانوں کو مجموعی فلاح و بہبود اور ترقی و کامیابی حاصل ہوئی۔ اس سے نہ صرف وقت کے تقاضے پورے ہوئے بلکہ کُل انسانیت کے مسائل حل کرنے کے مواقع پیدا ہوئے۔
    قرآن فہمی کے حوالے سے شاہ ولی اللہ دہلوی کا تجدیدی کام:
          یہ ایک حقیقت ہے کہ اٹھارویں صدی کے عظیم مفکر و مجدد حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ایک ایسی بلند مرتبت شخصیت ہیں کہ جنھوں نے اپنے دور کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھا اور تمام علوم و فنون میں ایسی تجدید کی، جو انسانیت کے مسائل کے حل کیلئے ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ آپؒ رحمہ اللہ نے اگرچہ تمام علوم و فنون میں نئے زاویوں سے فہم و شعور پیدا کرنے کے لئے بڑا تجدیدی کردار ادا کیا ہے لیکن خاص طور پر قرآن حکیم کی تعلیمات کو عام کرنے، اس کے فہم و شعور کے بنیادی اصول و ضوابط مرتب کرنے اور اصولِ تفسیر مدوّن کرنے میں آپؒ ؒ رحمہ اللہ کا کوئی ثانی نہیں ۔بلاشبہ قرآنی تعلیمات کے فروغ کے سلسلے میںآپؒ ؒ رحمہ اللہ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پچھلی 3 صدیوں میں قرآن فہمی کی جتنی تحریکات اور انداز و اْسلوب سامنے آئے ہیں، ان پر حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اسلوب کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ علومِ قرآنیہ کے سلسلے میں تمام مکاتب ِفکر حضرت شاہ صاحبؒ رحمہ اللہ ؒ کے خوشہ چین ہیں۔
    علوم ِقرآنیہ کی نئی تہذیب و ترتیب:
          شاہ صاحبؒ ؒ رحمہ اللہ کا سب سے بڑا کام علومِ قرآنیہ کی نئی تہذیب و تدوین اور اس میں مفید اضافہ جات ہیں۔ گزشتہ ہزار سال میں علمائے حق نے علوم القرآن سے متعلق جتنے بھی علوم و فنون دریافت کیے تھے، آپؒ ؒ رحمہ اللہ نے ان کی تلخیص کی اور انھیں بہترین ترتیب کے ساتھ مہذب و مدوّن کردیا۔ ان میں سے غیرضروری اور بے کار بحثوں کو الگ کیا اور بنیادی اور اصولی بحثوں کو اصول و قوانین کی شکل میں مرتب کر دیا۔آپؒ کی کتاب ’’الفوزُ الکبیر فی اُصول التفسیر‘‘ اس حوالے سے ایک بہترین کتاب ہے جس میں آپؒ رحمہ اللہؒ نے بڑی جامعیت کے ساتھ گزشتہ ہزار سالہ دور کے علومِ قرآنیہ کا نچوڑ بیان کردیا ہے۔
    علومِ قرآنیہ کے حوالے سے مفید اضافے:
          پھر یہی نہیں، بلکہ علومِ قرآنیہ کے سلسلے میں شاہ صاحبؒ رحمہ اللہؒ نے نئے اور مفید اضافے بھی کیے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے چند بنیادی علوم وہبی طور پرآپؒ ؒ رحمہ اللہ کو عطا کیے چنانچہ حضرت شاہ صاحبؒ نے قرآن فہمی کے حوالے سے جن چند نئے بنیادی علومِ قرآنی کا تعارف کرایا ہے، ان میں:
     (1) علم تاویلِ قصص الانبیاء۔
    (2) علومِ خمسہ قرآنیہ۔
    (3) ترجمہ قرآنِ حکیم کا جامع اسلوب۔
    (4)علومِ خواص القرآناور۔
     (5) علم حل حروف مقطعاتِ قرآنیہ۔
     ایسے5 اہم علوم ہیں چنانچہ شاہ صاحبؒ ؒ رحمہ اللہ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ میں لکھتے ہیں:
     ’’اللہ تعالیٰ نے وہبی طور پر علم تفسیر میں مجھے درجِ ذیل علوم عطا فرمائے ہیں:
    *قصص انبیا ء کی حقیقت و ماہیت کی تاویل و تشریح*قرآن حکیم میں بیان کردہ 5 علومِ قرآنیہ کی توضیح*فارسی میں ایسا ترجمۂ قرآن، جو کہ عربی الفاظ کے مطابق ہے*علومِ خواص القرآن: قرآنی آیات کے خواص و اثرات* ’’مقطّعاتِ قرآنیہ‘‘ کا مفہوم اور اْن کا حل( الفوز الکبیر فارسی / عربی)۔
          یہ 5 علوم ایسے ہیں کہ قرآن حکیم کے تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی تشکیل کے لئے جن بنیادی اوراساسی امور کی ضرورت ہے، وہ ان5 علوم میں بیان ہوجاتے ہیں۔ ان علوم کی پوری حقیقت کا فہم رکھتے ہوئے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو انسانی معاشرے کی تشکیل میں شریعت، طریقت اور سیاست پر مبنی تمام دینی پہلوؤں کا احاطہ ہوجاتا ہے۔
    شاہ صاحبؒ کے ترجمہ ٔ  قرآن ’’فتح الرحمن‘‘ کی اہمیت:
          ان 5 علوم میں سے ایک اہم علم ’’ترجمۂ قرآنِ حکیم کا جامع اسلوب‘‘ ہے۔ شاہ صاحبؒ نے اس حوالے سے مکمل قرآن حکیم کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جس کا نام انھوں نے ’’فتح الرحمن بترجمۃ القرآن‘‘ رکھا۔ اس ترجمے کی اہمیت اور حقیقت شاہ صاحبؒاس طرح بیان فرماتے ہیں:
    ’’(اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے علوم میں سے ایک یہ ہے:) قرآن حکیم کا فارسی زبان میں ایسا ترجمہ کیا ہے جو کہ الفاظ کی مقدار میں اور تخصیص و تعمیم وغیرہ میں عربی زبان کے الفاظ کے عین مطابق ہے اور اس کو ہم نے ’’فتح الرّحمن بترجمۃ القرآن‘‘ میں اچھی طرح لکھا ہے۔ اگرچہ بعض مقامات میں قارئین کے نہ سمجھنے کے خوف سے، بلا تفصیل عربی زبان کے الفاظ کے مطابق الفاظ لانے کی شرط کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘
          اس ترجمۂ قرآن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ترجمہ ’’فتح الرحمن‘‘ کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟ شاہ صاحبؒ نے ان سوالوں کے جوابات ’’مقدمۂ فتح الرحمن‘‘ میں تفصیل سے دیے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے اس ترجمۂ قرآن حکیم کی 5 امتیازی خصوصیات کا ذکر کیا ہے:
    (1)قرآنی الفاظ کی مقدار اور تناسب کے مطابق فارسی الفاظ میں ان کا ترجمہ کیا ہے۔
    (2)قصصِ قرآنیہ کا بہ قدرِ ضرورت بیان ہے۔
    (3)عربی زبان و اَدب اور علمِ حدیث و فقہ کے حوالے سے بہترین توجیہات و تعبیرات اختیار کی ہیں۔
    (4)اعراب و ترکیب قرآن کو درست تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت اور اس کا فہم و شعور پیدا کیا ہے۔
    (5)ترجمہ نگاری کے انتہائی جامع اسلوب کا استعمال کیا ہے (مقدمہ فتح الرحمن)۔
    ترجمہ نگاری کی اہمیت:
          شاہ صاحبؒ کے نقطۂ نگاہ میں صحیح طریقے پر ترجمہ نگاری کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک ایسے زمانے میں، جبکہ دنیا بھر میں علما اس بحث میں اْلجھے ہوئے تھے کہ قرآن حکیم کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنا جائز بھی ہے یا نہیں؟ شاہ صاحبؒ نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ اگر لوگوں کی عمومی زبان، علوم و فنون کی زبان سے مختلف ہو تو یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے علوم کا عام لوگوں کی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ شاہ صاحبؒ کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے علوم و فنون کا صحیح فہم و شعور اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ انہی کی زبان میں ان علوم و فنون کا ترجمہ نہ کیا جائے چنانچہ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں:
    ’’آج ہم جس زمانے میں ہیں، اور جس ملک (برصغیر ہندوستان) میں رہتے ہیں، مسلمانوں کی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کا ترجمہ سلیس فارسی زبان میں روز مرہ محاورہ کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جائے جس کی عبارت ہر قسم کے تصنع، بناوٹ اور خودنمائی سے پاک ہو اور اس میں قصص و واقعات اور غیر ضروری توجیہات و تشریحات کے بجائے آیات کا ترجمہ پیش کیا جائے تاکہ عوام و خواص یکساں طور پر اس کو سمجھیںاور چھوٹے بڑے ایک ہی نہج پر اس کا شعور حاصل کریں۔‘‘(مقدمہ فتح الرّحمٰن بترجمۃ القرآن)۔
          اس طرح شاہ صاحبؒ نے اپنے زمانے میں بامحاورہ فارسی ترجمے کی اہمیت کو واضح کیا اور ترجمہ نگاری کے ایک ایسے اسلوب کی اہمیت واضح کی، جس میں رائج زبان کا بامحاورہ ترجمہ سلیس انداز میں کیا جائے۔
          شاہ صاحبؒ کے نزدیک ترجمہ نگاری کی اہمیت اس حوالے سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے بہت سے موقعوں پر کتابوں کے تراجم کے مطالعے کی اہمیت کو واضح کیا ہے،یہاں تک کہ کتاب فہمی کے ضمن میں استاد کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے کتاب کے بامحاورہ ترجمے کی اہمیت واضح کی ہے چنانچہ شاہ صاحبؒ نے کتاب فہمی کے حوالے سے ایک مستقل فن، ’’فن دانش مندی‘‘ مرتب کیا ہے اور اس کے لئے اسی عنون سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔ اس میں ایک استاد کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے ایک ذمہ داری یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ کتاب کی تفہیم کے لئے اس کا صحیح ترجمہ بھی طالب ِعلموں کے سامنے بیان کرے چنانچہ شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں:
    ’’(کتاب فہمی کے حوالے سے استاد کو چاہیے کہ) اگر شاگردوں کی زبان کتاب کی زبان سے مختلف ہو تو کتاب کی عبارت کا ترجمہ بھی بیان کرے۔‘‘(فن دانش مندی)۔
          اسی طرح شاہ صاحبؒ نے اپنے متبعین کو جو چند وصیتیں کی ہیں، اس میں بھی انھوں نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ کتاب و سنت کا مطالعہ کیا جائے اور اگر کوئی آدمی عربی زبان نہ جانتا ہو تو اسے ان کے ترجمے پڑھنے یا سننے کا معمول بنانا چاہیے چنا نچہ اپنے وصایا میں لکھتے ہیں:
    ’’روزانہ کتاب و سنت کا کچھ حصہ ضرور پڑھنا چاہیے اور اگر خود پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو ان دونوں کے ترجمے کا ایک آدھ ورق ضرور سننا چاہیے۔‘‘(المقالۃ الوضیۃ فی النصیحۃ و الوصیۃ)۔
          کتاب و سنت کے ترجموں کی اسی اہمیت کے پیش نظر شاہ صاحبؒ نے نہ صرف قرآن حکیم کا بہترین ترجمہ کیابلکہ ترجمہ نگاری کے جامع اُسلوب اور اس کے قوانین و ضوابط بھی مرتب اور مدوّن کیے اور اس سلسلے میں ایک مستقل رسالہ ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ ضبط ِتحریر میں لایاجس میں ترجمہ نگاری کے اصول و ضوابط اور اس کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال فرمایا۔
    ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ کی تالیف کا سبب:
          شاہ صاحبؒ نے جب قرآن حکیم کا یہ معرکۃ الآرا ترجمہ شروع کیا تو ترجمہ نگاری کے حوالے سے چند اسلوب آپ رحمہ اللہ کے پیش نظر تھے۔ شاہ صاحبؒ نے ان اسالیب میں موجود خرابیوں کا اِدراک کیا اور اس حوالے سے انھوں نے ایک نیا اور جامع اسلوب متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس اُسلوب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ نیز اس اسلوب کے بنیادی قواعد و ضوابط کیا ہیں؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات کے جوابات کے لئے شاہ صاحبؒ نے یہ رسالہ تصنیف فرمایاچنانچہ ’’مقدمہ فتح الرحمن‘‘ میں ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ’’(عام طور پر) ترجمے دو حال سے خالی نہیں ہیں: یا ’’لفظی ترجمہ‘‘ کیا گیا ہے یا ایسا ترجمہ جس میں معنیٰ کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ ہر ایک اسلوب میں خرابی کی بہت سی شکلیں پائی جاتی ہیں۔ یہ ترجمہ (فتح الرّحمن بترجمۃ القرآن) اِن دونوں اسالیب ِنگارش کا جامع ہے۔ اس میں ان دونوں کی خرابیوں کا علاج کردیا گیا ہے۔ یہ بات بڑی لمبی ہے۔ ’’رسالہ قواعد ِترجمہ‘‘ میں بیان کردی گئی ہے۔‘‘(مقدمہ فتح الرّحمن)۔
          شاہ صاحبؒ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے اس رسالے کی تالیف کے مقاصد واضح ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رسالے کا اصل مقصد ترجمہ نگاری کے اسالیب پر بحث کرنا اور ترجمے کے ایک جامع اسلوبِ نگارش کی دریافت ہے۔ نیز اس جامع اسلوب کے اصول و قوانین کی نشان دہی کرنا ہے۔
          آپ رحمہ اللہ کے صاحبزادے حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس رسالے کا تذکرہ اپنی کتاب ’’  تکمیل الاذہا ن‘‘ میں کیا ہے،اور بتلایا ہے کہ والد ِمحترم نے ترجمے کے اصول و قوانین مرتب و مدوّن کیے ہیں۔ شاہ رفیع الدین دہلوی تصنیف و تالیف کی حقیقت و ماہیت اور ان کی مختلف اقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
         ’’تصنیف و تالیف کی ایک قسم یہ ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے اور میرے والد، اللہ ان سے راضی ہوجائے نے ترجمے کے قوانین مدوّن کیے ہیں۔‘‘(تکمیل الاذہا ن)۔
    ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ کا سن تالیف:
          ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ کا سن تصنیف و تالیف کیا ہے؟ اس سلسلے میں ایک رائے ڈاکٹرمولانا محمدسعود عالم قاسمی نے اختیار کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے :
    ’’اس رسالے کی تصنیف فتح الرحمن کی تسوید کے وقت عمل میں آئی۔ جیسا کہ خود شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ: یہ رسالہ ترجمہ قرآن کے قاعدوں کے بیان میں ہے۔ اس کا نام ’’المقدمہ فی قوانین الترجمہ‘‘ ہے۔ اسے فتح الرحمن کی تسوید کے وقت ضبط ِقلم کیا گیا ہے۔‘‘ فتح الرحمن کے مسودے کی تکمیل شاہ صاحبؒ نے شعبان 1151ھ بتائی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ 1150ھ سے 1151ھ کے درمیان لکھا گیا ہے۔‘‘ (شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کا مطالعہ، از مولانا محمد سعود عالم قاسمی)۔
          ہماری رائے یہ ہے کہ اس رسالے کی تالیف کایہ سن متعین کرنا درست نہیں بلکہ اندازہ ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ رحمہ اللہ نے اپنے سفر حرمین شریفین سے پہلے ’’زہراوین‘‘ (سورۃ بقرہ و آلِ عمران) کے ترجمے کا مسودہ تیار کرنے کے دوران غالباً 1142ھ میں اس رسالے کی تصنیف و تالیف کی ہے۔ اس لئے کہ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے قرآن حکیم کا ترجمہ رمضان 1151ھ ،دسمبر 1738ء میں مکمل کیا۔ ترجمہ قرآن حکیم کا یہ کام وقفے وقفے سے تقریباً10,9 سال تک چلتا رہا۔ ’’فتح الرّحمن‘‘ کے مقدمے میں شاہ  صاحبؒ نے اس کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ اس طویل عرصے کا ایک سبب شاہ صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کام کے دوران حرمین شریفین کا سفر درپیش ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ رحمہ اللہ حرمین شریفین کے سفر پر دہلی سے 8ربیع الثانی 1143ھ ، 21 اکتوبر 1730ء کو روانہ ہوئے تھے اور 14 رجب 1145ھ ،یکم جنوری 1733ء کو واپس دہلی تشریف لائے (القول الجلی فی مناقب الولی، تصنیف: مولانا محمدعاشق پھلتی رحمہ اللہ) ۔
    سفر حرمین سے پہلے شاہ صاحب رحمہ اللہ اپنا ترجمہ ’’سورۃ آلِ عمران‘‘ تک مکمل کرچکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے ترجمے کا آغاز اندازاً 1142ھ ، 1729ء کے آخر میں ہوچکا تھا۔
(جاری ہے)

 

شیئر: