ڈاکٹر فوزیہ البکر۔الجزیرہ
جب بھی میں اپنے پسندیدہ ملک مصر کا دورہ کرتی ہوں وہاں غربت ، بیروزگاری اور سڑکوں پر نصب مجسموں کی شکل میں کھڑی گاڑیوں کو قطار اندر قطار دیکھ کر دکھ محسوس کرتی ہوں۔ یہ مناظر دیکھ کر دل پھٹنے لگتا ہے۔ ماحول ایسا ہوتا ہے کہ انسان سانس بھی نہ لے سکے۔ مصر کے نوجوان اور لڑکیاں یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی مراکز سے ڈگریاں لیکر نکل رہے ہیں اور 800سعودی ریال سے کم محنتانے پر ملازمتیں کررہے ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کی بات ہے جو ملازمت حاصل کرپاتے ہیں۔ ہزاروں وہ بھی ہیں جنہیں ملازمتیں ہی نہیں ملتیں علاوہ ازیں آبادی میں دھماکہ خیز اضافے کے باعث مصری حکومت ، جامعات اور اسپتال بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری نہیں کرپارہےں۔
تازہ ترین اعدادوشمار سے پتہ چلا ہے کہ مصر کی آبادی 1996ءمیں 59.2ملین تھی ،2007ءمیں بڑھ کر 72.6ملین اور 2017ءمیں 94.8ملین تک پہنچ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1996ءسے لیکر 2006ءتک آبادی میں 2.04فیصد اور 2006سے 2017تک 2.56فیصد کا اضافہ ہوا۔
اب آئیے سعودی عرب کو دیکھیں۔ یہاں محکمہ شماریات نے دسمبر 2017کے دوران مملکت میں آبادی کی شرح نمو اجاگر کرتے ہوئے واضح کیا کہ 1974ءکے دوران سعودی عرب کی کل آبادی 70لاکھ نفوس پر مشتمل تھی 20برس کے دوران ڈیڑھ گنا زیادہ ہوگئی،1992ءمیں مملکت کی آبادی17ملین نفوس تک پہنچ گئی۔2004میں 23ملین ، پھر 2010میں 27ملین اور فی الوقت 32ملین 5 لاکھ ہوگئی ہے۔ ان میں 20ملین 5لاکھ سعودی ہیں ۔2016کے مقابلے میں 2017کے دوران سعودیوں کی تعداد میں 343.392کا اضافہ ہوا۔ سعودی عرب کی آبادی میں اضافے کی شرح مصر میں آبادی کی شرح کے برابر ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہماری آبادی میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو کیا ہمیں اس وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا جب طلبہ و طالبات کیلئے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کیلئے کوئی جگہ خالی نہیں ہوگی۔ رہنے کیلئے فلیٹ مہیا نہیں ہوں گے۔ علاج کیلئے اسپتال نصیب نہیں ہوں گے، سفر کیلئے گاڑی نہیں ہوگی، چلنے کیلئے سڑکیں ناکافی ہونگی۔ رہنے سہنے کیلئے بجلی اور پانی میسر نہیں ہوگا۔
بعض لوگوں کو یہ بات مضحکہ خیز لگ رہی ہوگی مگرسچی بات یہ ہے کہ حقائق تلخ ہی ہوتے ہیں۔ ہمیں تلخیوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ آبادی میں ہولناک اضافہ مشکل مستقبل کیلئے ناپسندیدہ پیشگوئی جیسا ہے۔ یقین رکھئے کہ آبادی میں ہر اضافے کا مطلب تعلیم، مکان ، اسپتال اور خدمات عامہ میں اضافہ چاہتا ہے۔ہماری آبادی میں جتنا اضافہ ہوگا بنیادی ڈھانچے پر اتنا ہی دباﺅبڑھے گا۔ سماجی، ثقافتی اور سیاسی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو دنیا کی ہر قوم کو بوجھ کردیتے ہیں۔ہمیں اپنے برادر اور دوست ممالک کی آبادی میں ہونیوالے اضافے اور اس سے پیدا ہونیوالے مسائل صاف نظر آرہے ہیں۔
صورتحال کا تقاضا ہے کہ تنظیم نسل کی اہمیت سے رائے عامہ کو آگاہ کیا جائے۔دور دراز کے دیہی اور دیہات سے ماورا علاقوں میں اس کا خصوصی اہتمام کیا جائے ۔ آبادی میں بیشتر اضافہ ایسے ہی مقامات پر ہورہا ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو اسلامی احکام اور تحدید نسل کے درمیان افہام و تفہیم کا راستہ بھی پیدا کرنا ہوگا۔ اسلام متوازن تعلیم، تربیت اور نگہداشت کو انتہائی اہمیت دیتا ہے تاکہ ہماری دنیا متوازن شکل میں تعمیرو ترقی کا سفر جاری رکھ سکے۔ مسلم خاندان کو اپنی دنیا بسانے ، سنوارنے اور سجانے کا فریضہ تفویض ہے۔ مسلم خاندان پر یہ شرعی پابندی عائد ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچے یا قدرتی ماحول کو کسی بھی شکل میں برباد کرنے سے گریز کرے۔ وہ اپنی دنیا کو بنانے سنوارنے والا بنے نہ کہ اسے تباہ و برباد یا مشکلات سے دوچار کرنیوالا خاندان۔
کسی بھی مسلمان کو ایسے حالات سے دوچار کرنا درست نہیں کہ وہ بنیادی ضرورتوں کو تکمیل کیلئے خود کو ذلیل و خوار کرے۔ بچے کو تعلیم دلانے یا ملازمت حاصل کرنے یا رہائش کیلئے مکان کا بندوبست کرنے کے چکر میں کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب بھی کوئی ماں یا باپ ڈگری حاصل کرکے ملازمت کی تلاش میں اپنی اولاد کو جوتیاں چٹخاتے دیکھتا ہوگا تو اس کا دل پھٹ جاتا ہوگا۔ اسی طرح شادی کی عمر کو پہنچنے کے بعد بوجوہ شادی نہ کرسکنے پر ماں باپ کا دل خون کے آنسوہی روتا ہوگا۔ اس میں بھی مجھے کوئی شک نہیںکہ اللہ تعالیٰ سب کا کفیل ہے۔ روزی روٹی کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسباب کا پابند بنایا ہے، اس کی تلاش کیلئے ہمیں عقل عطا کررکھی ہے جس سے ہمیں کام لیکر اپنے امورِزندگی منصوبہ بندشکل میں انجام دینا ہونگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭